جموں میں یہ کیسی ہولی....؟

ملک بھر میں گذشتہ برس ’عدم برداشت‘موضوع پر زبردست بحث وتمحیص ہوئی،اس پر جگہ جگہ احتجاجی مظاہرے ہوئے، حزب اقتدار نے ملک بھر میں عدم برداشت کی لہر پر گہری تشویش ظاہر کی جبکہ اقلیتی طبقہ کے لوگ بھی اس سے کافی حد تک متاثر ہوئے۔ عالمی سطح پر متعدد ممالک کے سربراہان کی پھٹکار اور بالواسطہ اور بلاواسطہ پر بھارت میں ’عدم برداشت‘پر تشویش ظاہر کئے جانے سے کچھ حدتک مرکزی سرکار نے ہوش کے ناخن لئے اور اس لہر میں قدر کمی ہوئی ۔ ملک بھر میں اس مرتبہ موسم بہار کے آغاز میں منائے جانے والے ہندوؤں کا مشہور تہوار ہولی جوش وخروش کے ساتھ منایاگیاجس میں کثیر تعداد میں مسلمانوں نے بھی حصہ لیا، بھارت کے تمام بڑے شہروں میں اس مرتبہ مجموعی طور ہولی پر کافی جوش دیکھاگیا، یہاں تک کے پاکستان میں بھی اس دن کو کافی اہمیت دی گئی۔ایسا غالباًپہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہندوں بیواں نے بھی ہولی کھیلی۔اس دن لوگ اپنے دوست احباب کو جمع کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر رنگ پھینکتے ہیں۔اس دن کو آپسی نفرتوں، قدورت اور اختلافات کو دور کر نے کے لئے ایکدوسرے کے منہ پر گلال ملتے ہیں۔ بھارت میں تمام تہواروں کی یہی روایت رہی ہے کہ ان کو آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت کے طور منایاگیالیکن اس مرتبہ جموں وکشمیر ریاست بالخصوص صوبہ جموں کے ہندو اکثریتی علاقوں میں ہولی کے دن ایک نیا انداز دیکھاگیا۔ سرمائی راجدھانی جموں میں صبح صادق سے ہی اس دن پر ہندو طبقہ کے نوجوانوں اور مرد حضرات نے موٹرسائیکلوں اور چھوٹی گاڑیوں پر بڑے بڑے جلوس نکالے اور ’بھارت ماتا کی جہ‘، بم بم بولے کے فلک شگاف نعرے بلند کئے۔ یہ ریلیاں پورے جموں شہر میں جگہ جگہ نکالی گئیں، ہرجگہ ایسا ہی دیکھنے کو ملا، جموں شہر کے ان علاقوں جہاں مسلم آبادی ہے ، یاراستہ میں جہاں کہیں مسلم دیکھے ، وہاں ان نوجوانوں نے اپنے نعروں میں زیادہ شدت لائی، کچھ مقامات پر فرقہ وارانہ او رمسلم مخالف نعرے بھی بلند کئے گئے۔رنگوں کے تہوار ہولی کو آپسی قدورت، نفرتوں، رنجشوں اور گلے شکوؤں کو دور کرنے کے لئے استعمال کیاجاتاہے لیکن اس مرتبہ اس تہوار کو جموں میں ہندو طبقہ کے نوجوانوں نے نفرتیں پھیلانے کے لئے منایا۔ایسا باور کرانے کی کوشش کی جیسے کہ وہ ہی سچے محب وطن ہیں، یہاں کی اقلیتیں دیش بھگت نہیں۔جموں وکشمیر ریاست جوکہ آپسی بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی علامت رہا ہے، یہاں کے مسلمانوں نے ہمیشہ ہندوں کے تہواروں پر انہیںمبارک بادی پیش کی، ان کے ساتھ خوشیاں بانٹیں، انہیں تحفے دیئے۔ وہ علاقہ جات جہاں ہندو طبقہ کے لوگوں کی تعداد بالکل کم ہے وہاں پر مسلمانوں نے ان کے تہوار پر جشن کو دوبالا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی مگر افسوس کا مقام ہے کہ اس مرتبہ جموںشہر میں ہولی کے تہوار پر ہندو طبقہ کے نوجوانوں نے جوروایت قائم کی وہ انتہائی افسوس کن ہے۔ اس دن پر خوشیاں منانے کے بجائے رگھوناتھ بازار، کچی چھاؤنی ، پریڈ، اولڈ سٹی، پنج تیرتھی ، پکہ ڈنگہ وغیرہ علاقہ جات میں مکمل فرقہ وارانہ صورتحال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جس کی وجہ سے یہاں مسلم طبقہ کے لوگوں میں طرح طرح کے حدشات پائے جانے لگے۔ ان علاقہ جات میں جہاں بھی کوئی مسلم مردو عورت دکھائی دی وہاں زیادہ نفرت آمیز نعرے بلند کر نے کے ساتھ ساتھ طرح طرح کے نفرت آمیز فقرے کسے گئے جوکہ اس شہر کی روایت کے خلاف دکھا۔ گورنر رول کے دوران ایسا دیکھنے کو ملا ، اب تو دوبارہ سے بھاجپا اور پی ڈی پی اقتدار میں آئی ہیں۔ بار تحفظات کے باوجود جنوبی وشمالی قطب کے سرنو اتحاد کوجموں وکشمیر کی صدیوں پرانے آپسی بھائی چارہ کی روایت کو قائم ودائم رکھنے کے لئے استعمال کیاجانا چاہئے نہ کہ آپسی دوریوں کو بڑھانے میں۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52888 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.