مفاد پرست اور لٹیرے حکمرانوں کے ہاتھوں
ہمیں تباہ وبرباد ہوتے ہوئے تقریبا 69سال ہوچکے ہیں جبکہ ہمارے کراچی کوخاک
وخون میں جلتے اور تڑپتے ہوئے 30سال ہوچکے ہیں اوراب تک فوج ،پولیس ،علماء
،سیاستدان ،فنکار ،سماجی کارکن اور صحافیوں سمیت عام شہری بھی دہشت گردی سے
محفوظ نہیں رہے آئے روز اغواء اور قتل کی سرعام وارداتیں ہورہی ہیں امجد
صابری کے قتل سے ایک دن قبل ہائیکورٹ سندھ کے چیف جسٹس کے بیٹے کو اغواء
کرلیا گیا اور اگلے ہی دن ایک صوفی قوال کو سرے عام گولیاں ماردی جاتی ہیں
جبکہ ان گذرے ہوئے 30سالوں میں ہم نے کیسے کیسے ہیرے جن میں حکیم سعید،
عظیم طارق ،شکیل اوج مولانا یوسف لدھیانوی،علامہ حسن ترابی ،ساجد قریشی ،رضا
حیدر،مفتی شامزئی ،اسلم شیخوپوری ،چوہدری اسلم ،ولی بابر،پروفیسر تقی ہادی
،زہرا شاہد ،منظر امام،شاہد حامد ،میر مرتضی بھٹو،سبط جعفر ،پروین رحمان ،رازق
خان ،سبین محمود،ڈاکٹر راشد اور اب پاکستان کا فخر امجد صابری کو مٹی میں
ملا دیا اور آج تک کسی بھی قاتل کو سزا نہیں ہوسکی مرتضی بھٹو کو جب دن
دیہاڑے قتل کردیا گیا اس وقت اسکی بہن بینظیر بھٹو ملک کی وزیراعظم تھیں
اور قاتل نہ پکڑا جاسکا بعد میں خود بھی محترمہ شہید ہوگئی مگر اسکے قاتل
بھی نہ مل سکے موجودہ وزیراعظم میاں نواز شریف کے روحانی باپ جنرل ضیاء
الحق کے قاتلوں کا آج تک نام ونشان نہ مل سکا اسی طرح امجد صابری کا معاملہ
بھی ایک دن ٹھنڈا پڑ جائیگا اور بات صرف اخباری خبروں تک محدود ہوکررہ
جائیگی امجد صابری کی میت کو لیکر جانے والی ایمبولینس کے ڈرائیور نے تو سب
کچھ بتادیااور قاتلوں کے گھر کارساتہ بھی دکھا دیا مگر ہم سب بے حسی سے ایک
جنازے کے بعد دوسرے جنازے کو کندھا دینے کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتے ہیں
امجد صابری ملک کا سرمایہ اور نامور شخص تھا جس کے قتل پر میڈیا مسلسل دو
دن سے بس ایک ہی خبر چلا رہا ہے اور جو آئے روزغریب کے بچے بھوک ،افلاس ،غربت
اور بیماریوں سے مررہے ہیں ان پر مکمل خاموشی اختیار کی ہوئی ہے وہ بھی تو
انسان کے بچے ہی ہوتے ہیں ناں ان پر بھی ہمیں واویلا کرنا چاہیے تاکہ بے
حسی کی نیند سونے والے بیدار ہوجائیں ورنہ تو ہمارے حکمران اس ملک کو اپنی
ذاتی جاگیر سمجھ کر لمبی تان کرسو رہے ہیں انہیں معلوم ہے کہ الیکشن میں کس
طرح کامیابی حاصل کرنی ہے عوام کو اتنا بے بس اور مجبوربنا دیا گیا ہے کہ
وہ صرف پانچ سو روپے میں اپنا ووٹ ان ڈاکوؤں کو فروخت کردیتے ہیں ووٹ تو
پھر ایک کاغذ کی پرچی ہے لوگ تو اتنا مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی
معمولی معمولی خواہش پوری نہ کرنے پر خود کشی کرلیتے ہیں یا اپنا گردہ
فروخت کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور حکمران اربوں روپے لوٹ کر اپنے بچوں
سمیت بیرون ملک مقیم ہیں کیا اس ملک کو بچانے والا کوئی بھی نہیں ہے سب
ادارے اور ان میں بیٹھے ہوئے افراد صرف تماشائی ہیں ہماری پولیس مک مکا پر
لگ چکی ہے تھانے سرے عام نیلام ہورہے وہاں پر آنے والا ہر ٹھیکیدار اپنے
پیسے بھی پورے کرتا ہے اور اوپر والوں کی جیبیں بھی بھرتا ہے کم ظرف اور
اور چھوٹے افراد کو اعلی عہدوں پر بٹھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ حکمرانوں کی ہر
ناجائز بات کو جائز کرکے ملک وقوم کو برباد کرسکیں غریب افراد ایک وقت کی
روٹی کو ترس رہے ہیں اور بڑے لٹیرے بڑی گاڑیوں میں ان غریبوں کا مذاق اڑانے
میں مصروف ہے عوام کی امیدیں اب مردہ ضمیر حکمرانوں سے ختم ہوچکی ہیں
کیونکہ پیپلز پارٹی کے روٹی کپڑے اور مکان کے چکر میں آکر ہم ان تینوں
چیزوں سے محروم ہوگئے اورمسلم لیگ ن کے شیر نے تورہی سہی کسر بھی پوری کرتے
ہوئے عوام کے ننگے بدن کو بھی نوچ ڈالا عمران خان کو صرف اپنی وزارت عظمی
سے غرض ہے جس دن وہ مل گئی پھر نہ جانے ہم کس حال میں ہونگے رہی بات فوج کی
وہ جب بھی آتی ہے اس وقت تک بہتری رہتی ہے جب تک سیاستدان انکے ہمنوا نہیں
بن جاتے جیسے ہی سیاستدانوں کا گھوڑا تیار ہوتا ہے اسی دن سے ملک میں آمریت
پر نکالنا شروع کردیتی ہے اور عوام غربت کی دلدل میں دھنسنا شروع ہوجاتی ہے
اب امجد صابری گیا ہے اگر حالات کو کنٹرول نہ کیا گیا تو کل پھر کوئی اور
واقعہ رونما ہوسکتا ہے اب بھی وقت ہے کہ ملک کو تباہی سے اور قوم کو دہشت
گردی سے بچا لیا جائے اگر اب بھی بروقت فیصلہ نہ کیا گیا تو آنے والے دنوں
میں حالات کا صحیح اندازہ کوئی بھی نہیں کرسکتا ایک طرف کچھ لوگ کہہ رہے
ہیں ملک میں دہشت گردی کے واقعات جمہوریت کو کمزور کرنے کی سازش ہے کیا
جمہوریت ایسی ہوتی ہے کہ ایک ہی فرد مختار کل ہو اور وہ کسی کو کوئی اختیار
ہی نہ دے یہ ملک کسی کے باپ کی جاگیر نہیں ہے کہ وہ اس پر اپنے باپ کا
قانون نافذ کردے جب تک ملک میں آئین اور قانون مکمل آزاد نہ ہو اس وقت تک
ملک ترقی نہیں کرسکتا مگر یہاں پر ہر صاحب اختیار نے قانون کو اپنی مرضی کے
مطابق بنا رکھا ہے ہمارے قانون کے رکھوالوں کا حال تو یہ ہے کہ پچھلے
واقعات کو تو چھوڑیں تین دن ہوگئے اویس شاہ کو اغوا کرنے والے غائب ہوچکے
ہیں امجد صابری کے قاتل بھی نہیں مل رہے اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے اس
انتظار میں ہیں کہ کوئی خود ہی آکر گرفتاری دیدے گا کہ یہ دونوں کام میں نے
کیے ہیں ۔ |