حضرت مُحَمَّد بن سُوَیْد طَحَّان سے
منقول ہے کہ''جس دن علم وعمل کے پیکر، مردِ قلندر، امامِ جلیل امام احمد بن
حَنْبَل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خَلقِ قرآن کے مسئلہ پر نہایت بے دردی سے
کوڑے مارے جارہے تھے اور آپ کوہِ استقامت بن کر ظلم وستم کی خطرناک آندھیوں
کا سامنا کر رہے تھے۔ اس دن ہم حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ
القوی کے پاس تھے ۔ ابن عبید قاسم بن سلام ، ابراہیم بن ابولَیْث کے علاوہ
اور بھی بہت سے لوگ وہا ں موجود تھے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے لوگو ں
سے فرمایا: '' کیا تم میں کوئی ایسا مردِ مجاہد ہے جو میرے ساتھ ظالم حاکم
کے پاس چلے، تا کہ ہم اس سے پوچھیں کہ وہ امامِ جلیل علیہ رحمۃ اللہ الوکیل
پر ظلم وستم کیوں کر رہا ہے؟'' حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ
القوی کے ساتھ چلنے کے لئے کوئی بھی تیار نہ ہوا۔ ظالم حاکم کے پاس جانے سے
سب گریز کر رہے تھے ۔ ابراہیم بن ابو لَیْث رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کھڑے
ہوئے اور کہا:'' اے ابو الحسن! میں آپ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوں ۔''
ان کایہ جذبہ دیکھ کر حضرتِ سیِّدُناعاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی نے
حیران ہوتے ہوئے کہا: اے نوجوان! کیا تم میرے ساتھ چلوگے ، اچھی طرح سوچ لو
کہ ہم کس کے پاس جارہے ہیں؟'' کہا ـ:'' اے ابو الحسن! میں نے خوب سوچ لیا
ہے، میں ضرور بالضرور آپ کے ساتھ اس ظالم حاکم کے پاس جاؤں گا ۔ مجھے تھوڑی
سے مہلت دیجئے تا کہ گھر جاکر اپنی بیٹیوں کو وصیت اور انہیں دین پر عمل
پیرا ہونے کی تلقین کر آؤ ں۔''یہ کہہ کر وہ اپنے گھر کی طر ف چلے گئے ، ہم
سمجھ رہے تھے کہ یہ اپنے لئے کفن وغیرہ کا انتظام کرنے گئے ہیں ،کیونکہ
ظالم حاکم کے پاس جانا موت کو دعوت دینا تھا ۔بہر حال کچھ دیر بعد واپس آئے
تو حضرتِ سیِّدُنا عاصم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے پوچھا:'' کیا تم تیار ہو؟''
کہا:'' ہاں! میں بالکل تیار ہوں ، بچیوں کو نصیحت کر آیا ہوں جب میں نے
انہیں بتایا کہ میں حاکم کے پاس جارہا ہوں تو وہ رونے لگیں ، میں انہیں
روتا چھوڑ آیا ہوں ، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ قاصد حضرت سیِّدُنا
عاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی کی صاحبزادیوں کا خط لے کرآیا ،خط میں
لکھاتھا:
''اے ہمارے محترم والد! ہمیں خبر پہنچی ہے کہ ایک ظالم شخص ، امام احمد بن
حَنْبَل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قید کرکے کو ڑے لگوارہا ہے تاکہ وہ یہ کہنے
پر مجبور ہو جائیں کہ کَلَامُ اللہ(یعنی قرآنِ پاک) مخلوق ہے،اے اباجان
!اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرنا، ہمت واستقامت سے کام لینا ، باطل کے سامنے
ہرگز ہرگز سر نہ جھکا نا، امامِ جلیل علیہ رحمۃ اللہ الوکیل کے حوصلہ وثابت
قدمی کو پیشِ نظر رکھنا ، اگر حاکمِ بد آپ کو ناحق بات کہلوانا چاہے تو ہر
گز غلط بات نہ کرنا، خدائے بزرگ و بر تر کی قسم! آپ کی موت کی خبر آنا ہمیں
اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ آپ موت کے خوف سے ناحق بات تسلیم کر لیں۔ جان
جاتی ہے تو جائے مگر ایمان نہ جائے۔''
وَالسَّلَام: عظیم باپ کی بیٹیاں
(سُبْحَانَ اللہ عَزَّوَجَلَّ! کیسی عظیم اولادتھی اس عظیم ولی کی، یہ سب
اچھی تر بیت کا نتیجہ تھا۔ حضرت سیِّدُنا عاصم بن علی علیہ رحمۃ اللہ القوی
نے اسلامی نَہَجْ(یعنی طریقہ) پر اپنی عظیم بیٹیوں کی تربیت کی۔ انہیں دین
کی حفاظت کا ذہن دیا، ظلم وجبر کے سامنے نہ جھکنے کی ترغیب دی ، یہی وجہ
تھی کہ وہی بیٹیاں اپنے باپ کا حوصلہ بڑھارہی تھیں، ظالم کے سامنے ڈٹ جانے
کی تلقین کر رہی تھیں، انہیں باپ کی شہادت اس زندگی سے عزیزتھی جو ظالم کے
سامنے جھک کر گزرتی۔وہ واقعی عظیم باپ کی عظیم بیٹیاں تھیں۔ اللہ
عَزَّوَجَلَّ ہر مسلمان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنے گھر میں سنتیں
اپنانے کا ذہن دے۔ اپنے بچو ں کو صلوٰۃ وسنت کا پابندبنانے کے لئے خوب تگ
ودَو (یعنی کوشش)کر ے ، اللہ عَزَّوَجَلَّ ہماری آنے والی نسلوں کو ایسا
جذبہ عطا فرمائے کہ ہر دم دینِ متین کی خدمت کریں اور دینِ اسلام کی سر
بلندی کے لئے ہر دم کوشاں رہیں۔ )
(آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم)
|