اسلام آبادمیں دفتروزارتِ خارجہ کے ذرائع
کاکہناہے کہ پاکستان نے بھارتی مداخلت کوعالمی سطح پربے نقاب کرنے کی ٹھان
لی ہے جس کے باعث پاکستان نے بلوچستان سے گرفتاربھارتی خفیہ ایجنسی کے
آفیسرکل بھوشن یادیوتک قونصلررسائی نہ دینے کی بھارت درخواست مسترد کرنے
کافیصلہ کیاہے۔پاکستان بھارتی خفیہ ایجنسی کے آفیسرکے انکشافات پرمبنی مرتب
کر رہا ہے، ثبوت اقوام متحدہ سمیت اہم ممالک کودیئے جائیں گے۔ ذرائع
کاکہناہے کہ پاکستان نے بھارت کوقونصلررسائی نہ دینے کافیصلہ کل بھوشن کی
دہشتگردی کی وارداتوں میں ملوث ہونے کااعتراف کی روشنی میں کیاہے۔پاکستان
نے بھارتی خفیہ ایجنسی کے حاضرسروس نیول افسرکل بھوشن یادیوکے انکشافات
پرمبنی مرتب کرنے شروع کر دیئے ہیں۔یہ تمام ثبوت اقوام متحدہ سمیت اہم دوست
ممالک کودیئے جائیں گے جبکہ مختلف ممالک کے سفیروں کواس حوالے سے بریفنگ دی
جائے گی۔
دوسری جانب بھارتی نے بوکھلاہٹ کاشکارہوتے ہوئے بالواسطہ دہمکی دیتے ہوئے
وزیردفاع منوہر پاریکر کا کہناہے کہ پاکستان کی جانب امیدکے دروازے بند
ہورہے ہیں ۔شنگریلاڈائیلاگ میں شرکت کیلئے سنگاپورمیں موجود منوہرپاریکر نے
اپنے ٹوئٹرپیغام میں ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہاہے کہ دہشتگردی کے خلاف
کاروائی میں پاکستانی کوششیں غیرمخلص اورمشکوک ہیں،اس لئے مودی کے اچانک
دورۂ پاکستان سے کھلنے والی امیدکی کھڑکیاں اب بندہو رہی ہیں۔شنگریلا
ڈائیلاگ میں بھارتی وزیردفاع نے یہ الزام بھی عائدکیاکہ پاکستان نے
دہشتگردوں کو''گڈاوربیڈطالبان''میں تقسیم کر رکھاہے۔ پاکستان بیڈطالبان کے
خلاف توکاروائی کررہاہے مگرانڈیااورافغانستان کے خلاف گڈطالبان کی سرپرستی
کر رہا ہے۔ بھارت نے اس سے پہلے یہ الزام بھی عائدکیاتھاکہ نئی دہلی کو
دہشتگردی سمیت کئی سنگین جرائم میں مطلوب انڈر ورلڈداؤدابراہیم کراچی میں
ہے۔
ادہربھارتی شہرناگپورمیں ایک سیمینارسے خطاب میں پاکستانی ہائی کمشنرنے اس
الزام کومستردکرتے ہوئے کہا کہ داؤد ابراہیم پاکستان میں نہیں اوریہ توقع
ہرگزنہ رکھی جائے کہ جوشخص پاکستان میں نہیں اسے بھارت کے حوالے کرنے کی
حامی بھرلی جائے گی۔دراصل بھارت اورپاکستان کے درمیان بے اعتمادی کی اصل
وجہ دہشتگردی نہیں بلکہ مسئلہ کشمیر ہے ۔ دہشتگردی کامسئلہ تو۱۹۷۹ء میں
افغان مسئلے سے شروع ہواتھا،پاکستان اوربھارت اس سے پہلے تین جنگیں لڑچکے
تھے کیونکہ کشمیرکامسئلہ ۱۹۴۸ء سے شروع ہواتھا۔ روس کو افغانستان پرحملے کی
دعوت پاکستان نے نہیں دی تھی، پھر بھی دہشتگردی سے تیس لاکھ مہاجرین
اوربھاری معاشی نقصان کی صورت میں خمیازہ پاکستان بھگت رہاہے۔ جب۱۹۴۸ء میں
پاکستان بناتوکوئی قابل ذکرصنعت پاکستان میں نہیں تھی،دفترامورمیں کاغذات
جوڑنے کیلئے پن تک نہیں ہوتی تھی ،پودوں کے کانٹوں سے کاغذلف کرنے کاکام
لیاجاتاتھا لیکن پھردیکھتے ہی دیکھتے چندہی برسوں میں پاکستان ترقی کی
شاہراہ پرچین اوربھارت سمیت خطے کے کئی ممالک سے آگے نکل گیالیکن جیسے
ہی۱۹۷۹ء میں افغان معاملہ اٹھا،تب سے پاکستان مشکلات اوردہشتگردی کے گرداب
میں پھنستاچلاگیا، اب پاکستان نے اس گرداب سے نکلنے کی ٹھان رکھی ہے۔
پاکستان کیلئے اس وقت اوّ لین ترجیح افغان امن ہے۔بھارت کے ساتھ معاملات
بعدمیں دیکھ لئے جائیں گے۔بھارت کو چاہئے کہ وہ الزامات اورشرائط کی راہ
ترک کرکے جلداز جلد غیرمشروط امن مذاکرات کی طرف آئے ، یہی دونوں ممالک
اورخطے کیلئے بہترہے۔
نریندرمودی کے اچانک دورہ ٔ لاہورسے کھلنے والی نام نہادامیدکی کھڑکیوں کے
حوالے سے بھی پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے واضح جواب دیتے ہوئے کہاکہ
جب مودی نے وزارتِ عظمیٰ کی حلف بردارری کی تقریب میں شرکت کیلئے وزیر اعظم
نواز شریف کودعوت دیکر خیرسگالی کاپیغام دیاتو حالات کے تناظرمیں نوازشریف
کیلئے یہ دعوت قبول کرناآسان نہیں تھا،پھربھی انہوں نے حلف برداری کی تقریب
میں شرکت کی۔یہ تھی امیدکی کھڑکی لیکن بھارت نے میری حریت رہنماؤں سے
ملاقات کو جواز بنا کر مذاکراتی عمل معطل کردیا۔ وزیرخارجہ سشماسوراج
کومذاکرات کیلئے پاکستان جاناتھا مگروہ نہ گئیں۔بعدمیں حالات کچھ سنبھلے
توسشماسوراج نے پاکستان کادورہ کیا،پھر اچانک نریندر مودی افغانستان سے
واپسی پرپاکستان کچھ گھنٹے کیلئے رک گئے جبکہ اپنے دورۂ افغانستان میں
پاکستان کے خلاف جوزہراگلاتھا،اس کاپاکستانیوں کوانتہائی رنج تھا لیکن اس
کے باوجودنوازشریف نے خودلاہور ائیرپورٹ پرنہ صرف ان کااستقبال کیابلکہ
اپنے ساتھ اپنی ذاتی رہائش گاہ جاتی عمرہ رائے ونڈلے گئے جہاں ان کی نواسی
کی شادی کی تقریب چل رہی تھی۔لیکن بدقسمتی سے اس کے بعدپٹھانکوٹ ائیربیس
پرحملہ ہوگیاتومذاکراتی عمل پھرتعطل کاشکارہوگئے۔
پاکستان نے فوری طورپراس پرایکشن لیتے ہوئے بھارت کونہ صرف تحقیقات میں
مکمل تعاون کایقین دلایابلکہ بھارت کے کہنے پرکئی افرادکوگرفتاربھی
کرلیاگیا۔تحقیقات بڑھانے کیلئے پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کوپٹھانکوٹ ائیربیس
پر شواہدڈھونڈنے اوردیگرتحقیقاتی عمل کوآگے بڑھانے کیلئے پٹھانکوٹ ائیربیس
پر جانے کی محدوداجازت دی گئی جبکہ متعلقہ افرادتک رسائی دینے سے انکارکر
دیا گیا،اس طرح پاکستانی تحقیقاتی ٹیم بھارتی عدم تعاون کی بناء پرکام مکمل
تونہ کرسکی لیکن اس بات کا انہوں نے واضح اشارہ دیاکہ بھارتی حکمران بہت سے
معاملات پرنہ صرف بات کرنے سے گریزاں ہیں بلکہ بہت سے سوالات کا جوابات
دینے سے بھی انکارکردیااورموقع واردات پربہت سے ثبوت مٹادینے کے باوجودبہت
کچھ چھپانے کی کوشش بھی کرتے رہے جس سے واضح ہورہاتھاکہ دال میں کچھ کالاہے۔
بعدازاں خودبھارتی اداروں بالخصوص بھارتی فوج کے ادارے نے پٹھانکوٹ حملے کے
واقعے کی تحقیق کرنے کے بعداعلان کیاکہ ہمیں اس حملے میں کہیں بھی پاکستانی
حکومت کی پشت پناہی کے کوئی ثبوت نہیں مل سکے اور یہ ثابت ہوگیاکہ یہ حملہ
کچھ غیر ریاستی عناصر کی طرف سے کیاگیاتھا لیکن کل بھوشن کی گرفتاری سے
تویہ پتہ چلاکہ بلوچستان اورپاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشتگردی میں
بھارتی اہم ریاستی عنصر ''را'' کاایک اعلیٰ افسرشامل ہے جس نے پاکستان میں
کئی دہشتگرد نیٹ ورکس کے ساتھ اپنے تعلق کااعتراف کیااور اس کی نشاندہی
پراب تک کئی درجن افرادگرفتارکئے جاچکے ہیں۔ اس چونکادینے والے واقعہ کے
بعد بھارتی حکومت کی بغل میں چھپی تیزدھاردوستی کی چھری بھی نمایاں
ہوکرسامنے آگئی اوراب ''الٹاچورکوتوال کو ڈانٹے''کے مصداق پاکستان
کودہمکیوں سے مرعوب کرنے کی کوشش کررہاہے۔
پاکستان نے بھارتی خفیہ ایجنسی ''را''کے جاسوس کل بھوشن کی گرفتاری کے فوری
بعدامریکاکوپورے شواہد کے ساتھ مطلع کیا لیکن امریکااس خطے میں اپنی
چوہدراہٹ کے خاتمے کے خوف سے اپنی بھرپورسازشوں میں مصروف ہے جس میں بھارت
اور اسرائیل اس کی مکمل اعانت کررہے ہیں۔پاکستان اورچین کے اشتراک سے''پاک
چائنہ اقتصادی کوریڈور'' کی تعمیر سے اس مجوزہ ٹرائیکاکے سینے پرسانپ لوٹ
رہے ہیں ۔ اسرائیل جوآئے دن ایران کے ایٹمی پروگرام کوتباہ کرنے کی کھلی
دہمکیاں دے رہاتھا، امریکانے اپنے اتحادیوں کے اشتراک سے ایران پراقوام
متحدہ کی طرف سے اقتصادی ناکہ بندی بھی عائدکررکھی تھی،اس خطے میں اپنے
مفادات کے حصول کیلئے اس نے نہ صرف بالآخر ایران کی ناکہ بندی ختم کردی
بلکہ اپنے اتحادی بھارت کواس خطے میں ایران اورافغانستان کے ساتھ دوستی اور
تعاون کابھی بھرپورہاتھ بڑھانے کا اشارہ بھی کردیاجس کے بدلے میں بھارت کو
اب ''نیوکلیئرسپلائرگروپ''کاممبربھی بنانے کی کوشش جاری ہے ۔
امریکانیوورلڈآرڈرکے مطابق اپنی پالیسیوں کواس تیزی کے ساتھ توآگے نہیں
بڑھاسکاجس کی سب سے بڑی وجہ افغانستان میں اس کی ناکامی ہے جس کابدلہ وہ
پاکستان سے لے رہاہے اوریہ کوئی اچنبھے کی بات بھی نہیں کہ امریکاکی تاریخ
سے ثابت ہے کہ اس نے ہمیشہ اپنامفادحاصل کرنے کے بعداسی دوست کی پیٹھ میں
چھراگھونپاہے۔اس خطے میں افغانستان میں امن قائم کرنے کیلئے چہار ملکی
کوششوں کواس وقت شدیدنقصان پہنچاجب ملامنصورکونوشکی میں امریکی حملے میں
شہیدکردیاگیااوراس سے اگلے دن ہی نریندرمودی ایران کی چاہ بہار بندرگاہ میں
تعمیر وترقی کے کئی معاہدوں پر دستخط کرنے کیلئے موجودتھے جہاں انہوں نے اس
بندرگاہ میں پچاس کروڑڈالرکی سرمایہ کاری کرکے پاکستانی بندرگاہ گوادر کے
متبادل میں عملی حصہ لینے کااعلان کردیاہے ۔اس کے بعد نہائت سرعت کے ساتھ
نریندرمودی نے افغانستان میں بھی دریائے کابل پر''سلمیٰ ڈیم ''بنانے کیلئے
افغانستان کو مالی اورتکنیکی امدادکے کئی معاہدوں پربھی دستخط کئے ہیں ۔بھارت
نے ایک سازش اورجارحیت کاارتکاب کرتے ہوئے جہاں بھارت سے پاکستان آنے والے
دریاؤں کے پانی پرغیرقانونی ڈیم بناکرپاکستان کا پانی روک لیاہے ،اب وہاں
اس نے ایک گہری سازش کرکے دریائے کابل کا پاکستان کی طرف آنے والے پانی
پربھی ڈیم بناکردریائے سندھ کاپانی روکنے کا عمل شروع کرنے کی بنیادرکھ دی
ہے۔پچھلی چار دہائیوں سے زائدافغانستان کیلئے پاکستان کی ناقابل فراموش
قربانیوں کوحالیہ طورخم کشیدگی نے گولیوں کی تڑتڑاہٹ اوربمباری نے شہیدوں
کے خون سے سرخ کردیاہے اوردشمن اپنی اس فتح پرنازاں ہے کہ اس کاپاکستان
کوتنہاکرنے کاپلان سرعت کے ساتھ کامیاب ہورہاہے اوراس کے جواب میں ہمیں
ابھی تک آئے دن کے دھرنوں اور مظاہروں سے فرصت نہیں! |