سعودی عرب کا مظلوم فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی یا ۰۰۰
(Dr M.A Rasheed Junaid, India)
غزہ کے شہریوں کو عمرہ کی ادائیگی کے
لئے راستے بند۰۰
فلسطینیوں کے پینے کے پانی میں زہر ملانے کا مشورہ
یہودی آباد کارفلسطین پر قابض ہونے کے باوجود مقامی فلسطینیوں پر مظالم کا
سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اب تو اس حد تک ان کی سونچ بدل چکی ہے کہ ربی
کونسل ویسٹ بینک کا چیرمین و یہودی پیشوا ربی شلومو ملما نے فلسطینی دیہات
اور مغربی کنارہ کے رہنے والے فلسطینیوں کے پینے کے پانی کو زہر آلود کرنے
کا مشورہ دیا ہے تاکہ یہاں کے مقامی فلسطینی اپنے مکانات اور دیگر کاروبار
و و زمینات کو چھوڑ کر یہودی نوآباد کاری کے لئے راہ ہموار کریں۔ واصل ابو
یوسف پی ایل او ایکزیکیٹیو کمیٹی ممبر نے ترکی کے ذرائع ابلاغ انا دولو کو
دیئے گئے بیان میں کہا کہ یہ ایک کھلے قتل عام کا حکم ہے جو فلسطینیوں کے
خلاف دیا گیا ہے۔ اس قسم کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطین سے
اپنے امن معاہدے میں سنجیدہ نہیں ہے اور یہودی ربی کا یہ بیان اس کا ثبوت
ہے۔ اس قسم کے کئی بیانات ماضی میں بعض یہودی پیشواؤں نے دیئے ہیں جو
فلسطینیوں کو لوٹا جائے ، ان کی زمینات ، مکانات اور اثاثہ جات کو چھین کر
اس پر یہودی نوآبادی کار کو بسایا جائے۔ پی ایل او کے قومی دفتر کے بیان کے
مطابق اس قسم کے سینکڑوں واقعات ہوچکے ہیں جس میں فلسطینیوں کے مکانات
منہدم کردیئے گئے ، زمینات چھین لی گئیں اور انہیں بے گھرو بے آسرا کردیا
گیا۔اس طرح سے تقریباً چھ لاکھ یہودیوں کو بسایا گیا اور کم و بیش سو
بستیاں بسائی گئیں۔اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی سطح پر غیر قانونی قرار
دیا جاتا ہے اس کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری ہے۔عالمی سطح
پر فلسطین کے ساتھ اظہارِ یگانگت کیا جاتا ہے ، فلسطینیوں پر ڈھائے جانے
والے مظالم کے خلاف آوازیں اٹھتی ہیں لیکن چند روز بعد یہ آوازیں مدھم
ہوجاتی ہیں اور اسرائیل پھر اپنی پرانی روش اپناتے ہوئے فلسطینیوں پر کسی
نہ کسی بہانے ظلم و بربریت کا بازار گرم کرتا ہے۔اس طرحفلسطینی عوام بشمول
معصوم بچے، خواتین و ضعیف افراد اسرائیلی حکومت اور فوج کے ظلم و بربریت کا
گذشتہ کئی برسوں سے شکار ہوتے رہے ہیں۔ اسرائیل کسی نہ کسی بہانے فلسطینی
مسلمانوں کی املاک پر قبضہ کرکے یہودیوں کیلئے نئی بستیوں کو آباد کرنے اور
بڑھانے کیلئے پوری شدت کے ساتھ ظلم کرتا رہا ہے اور ان اسرائیلی فوج سے
مقابلہ کے لئے نہیتے فلسطینی معصوم بچے، نوجوان اور بڑے پتھروں کے ذریعہ
عصری و اعلیٰ ٹکنالوجی سے مزین خطرناک ہتھیاروں سے لیس اسرائیلی پولیس اور
فوج سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ غزہ پٹی کے مظلوم فلسطینی عوام جن پر
کسی نہ کسی بہانے اسرائیلی بربریت کا ننگا ناچ ہوتارہا ہے جس کے خلاف اقوام
متحدہ بھی اسرائیل کے خلاف صرف مذمتی بیانات دے کر خاموشی اختیار کرلیتا ہے
۔ عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی جانب سے کسی قسم کی امداد مظلوم
غزہ پٹی کے شہریوں اور دیگر فلسطینی علاقوں میں دینا ہو تو اسرائیلی فوج کی
اجازت کے بغیر نہیں دی جاسکتی ۔ اوراس امداد میں سے کتنی امداد ان مظلوم
اور بے بس فلسطینیوں تک پہنچ پاتی ہے اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں۔ گذشتہ دنوں
فلسطینی صدر محمود عباس کے دورہ سعودی عرب کے موقع پر مملکت سعودی عرب کے
فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے کہا کہ فلسطینی نصب العین اور فلسطینی
عوام کے جائز حقوق کے بارے میں سعودی عرب نے غیر متزلزل اور مضبوط مؤقف
اختیار کررکھا ہے۔انھوں نے یہ بات جدہ میں 19؍ جون کو فلسطینی صدر محمود
عباس سے ملاقات کے دوران کہی ہے۔دونوں قائدین نے ملاقات میں فلسطینی علاقوں
کی تازہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا ہے۔اس موقع پر فلسطینی صدر نے سعودی
فرمانروا کو یادگاری تحفہ بھی دیا ہے۔
ایک طرف شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور محمود عباس کے درمیان فلسطینی حالات پر
تبادلہ خیال ہورہا تھا تو دوسری جانب اسی روز اسرائیلی حکومت نے مقبوضہ
مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کی بستیوں کیلئے ایک کروڑ اسی لاکھ ڈالرز
کی اضافی رقم کی منظوری دی ہے اور کہا کہ یہ رقم سکیورٹی خطرات سے نمٹنے
کیلئے مختص کی جائے گی۔اسرائیلی روزنامہ ہارٹز کی رپورٹ کے مطابق بنیامین
نیتن یاہو کی کابینہ اس مقصد کے لیے آٹھ کروڑ اسی لاکھ ڈالرز کی رقم پہلے
ہی مختص کرچکی ہے اور اس کا یہ موقف رہا ہے کہ اکتوبر کے بعد مغربی کنارے
کے علاقے میں چاقو حملوں ،فائرنگ اور کاریں چڑھانے کے واقعات کے بعد سے
سکیورٹی تحفظات کے پیش نظر یہ رقم مختص کرنا ضروری تھا۔تاہم یہ رقم مختلف
مقاصد کے لیے استعمال کی جائے گی اور نیتن یاہو نے کابینہ کے ہفت وار اجلاس
کے آغاز میں بھی اس جانب اشارہ کیا ہے اور اس کو مغربی کنارے میں کمیونٹیوں
کو مضبوط بنانے کے لیے ایک امدادی منصوبہ قرار دیا ہے۔انھوں نے کہا کہ اس
رقم سے سکیورٹی کو مضبوط بنایا جائے گا،چھوٹے کاروباروں کے لیے معاونت کی
جائے گی اور سیاحت کی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔تنظیم آزادیِ فلسطین (پی ایل
او) کے سیکریٹری جنرل صائب عریقات نے اس اقدام کو عالمی برادری کے منہ پر
ایک طمانچہ قراردیا ہے۔انھوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل پائیدار امن
کے قیام کی غرض سے کی جانے والی ہر کوشش کو سبوتاژ کرنے کے لیے ہر ممکن
اقدام کررہا ہے۔جبکہ اسرائیلی پارلیمان میں حزب اختلاف کی جماعت صہیونیت
یونین کے رکن عامر پیرز نے حکومت پر سیاسی مقاصد کے لیے سیٹلمنٹس پر رقوم
ضائع کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اسرائیل میں خاندانوں کی
مدد کے بجائے ایسا کررہی ہے۔یاد رہے کہ اسرائیل نے 1967ء کی جنگ میں بیت
المقدس ،غرب اردن اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کر لیا تھا۔اسرائیل نے بیت المقدس
کو اپنی ریاست میں ضم کر لیا تھا مگر اس اقدام کو بین الاقوامی برادری
تسلیم نہیں کرتی ہے۔ اسرائیل اب تک کم وبیش چھ لاکھ یہودی آبادکاروں کو غرب
اردن میں مختلف بستیوں میں بسا چکا ہے لیکن یورپی یونین سمیت عالمی برادری
ان بستیوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتی ہے۔امریکہ مقبوضہ علاقوں
میں اسرائیل کی جانب سے یہودی آبادکاروں کے لیے مکانوں کی تعمیر پر تنقید
کرتا رہا ہے اور انھیں امن کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے دوسری جانب امریکہ
کی پالیسی اس طرح ہے یعنی اس نے اسرائیل پر اقوام متحدہ کا دباؤ بڑھانے کے
لیے فلسطینی کوششوں کی ہمیشہ مزاحمت کی ہے اور وہ سلامتی کونسل میں اسرائیل
مخالف قراردادوں کو ویٹو کرتا چلا آرہا ہے۔اسرائیل کی بقاء کے لئے امریکہ
کروڑوں ڈالرز سالانہ خرچ کرتا ہے اس کے اس اقدام کے بعد یہ بات صاف عیاں
ہوجاتی ہے کہ امریکہ عالمِ اسلام سے اپنے مفادِ حاصلہ کے لئے فلسطینی
مظلموں کیلئے ظاہری طور پر دکھاوا کرتا ہے جبکہ اندرونی طور پر امریکہ
اسرائیل کی بقاء و سلامتی کیلئے ہر ممکنہ تعاون کرتا رہا ہے۔ فلسطینی مظلوم
عوام پر مظالم کا سلسلہ نہیں معلوم ابھی کب تک جاری رہے گا۔ ایسا محسوس
ہوتا ہیکہ عالمِ اسلام ، اسرائیل کے خلاف کوئی خاطر خواہ اقدام کرنے کی
طاقت نہیں رکھتے یا پھر اپنے مفاد کے لئے عالمِ اسلام اسرائیل کے خلاف سخت
لب و لہجہ اختیار کرنے کے بجائے فلسطینی مظلوموں کو امداد فراہم کرکے دنیا
بھر کے مسلمانوں میں اس کا ہمدرد و بہی خواہ بتانے کی کوشش کرتا ہے۰۰۰
اسرائیل تو مسلمانوں کا دشمن ہے ہی لیکن مصر کی عبدالفتاح السیسی حکومت نے
بھی غزہ کے شہریوں کے لئے اپنی بین الاقوامی گزرگاہ رفح کو بند کردیا جس کے
ذریعہ غزہ کے شہری عمرہ کی سعادت حاصل کرتیتھے۔ غزہ کے شہریوں کیلئے غرب
اردن کے راستے بیرون ملک سفر پرعائد اسرائیلی پابندیوں کے نتیجے میں وہ
پہلے ہی سے عمرہ کی سعادت سے محروم ہیں۔ ماہِ رمضان المبارک میں عمرہ
اورحرمین شریفین کی حاضری ہر مسلمان کیلئے ایک عظیم نعمت ہے اور اس نعمت سے
غزہ کے مسلمانوں کو اسرائیل اور مصری حکومتوں کی جانب سے محروم کیا جارہا
ہے۔ حج عمرہ ٹور آپریٹر آرگنائزیشن کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ
مصری حکومت کی طرف سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ ماہ صیام کے دوران عمرہ
سیزن میں غزہ کی بین الاقوامی گزرگاہ رفح کو کھولا جائیگا اور عازمین عمرہ
کو حجاز مقدس جانے کی اجازت دی جائے گی مگر مصری حکومت ابھی تک اس پر عمل
نہیں کی ہے اور خاموشی اختیارکئے ہوئے ہے۔غزہ کے شہریوں کو عمرہ کی اجازت
نہ دیئے جانے کی وجہ سے فلسطینی عوامی حلقوں کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی پر
بھی کڑی تنقید کی جارہی ہے اور عوام کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی غزہ کے
شہریوں کے حج اور عمرہ جیسی مقدس عبادت کو بھی سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھا
رہی ہے۔ ماضی میں رفح گزرگاہ کی بندش کے بجران کے باوجود سالانہ 14 ہزار
فلسطینی غزہ کی پٹی سے عمرہ کی ادائیگی کیلئے جاتے رہے ہیں مگر جب سے
مصرمیں الفتاح السیسی کی حکومت نے اقتدار حاصل کیا ہے غزہ کی پٹی کے عوام
کی مشکلات میں غیرمعمولی اضافہ ہو چکا ہے، مصر کی حکومت کی جانب سے غزہ پٹی
کے شہریوں کیلئے بین الاقوامی گزرگاہ رفح کو بند کئے جانے کے باوجود کسی
اسلامی ملک کی جانب سے آواز نہیں اٹھائی گئی۰۰۰ |
|