گزشتہ دنوں برطانوی حکومت نے برطانیہ کے یورپی یونین میں
بدستور شامل رہنے یا الگ ہونے کا فیصلہ کرنے کے لئے ریفرنڈم کرانے کا فیصلہ
کیا اوراب اس ریفرنڈم میں برطانوی عوام کی اکثریت نے یورپی یونین کے اتحاد
سے علیحدگی کے حق میں رائے کا اظہار کیا ہے۔ریفرنڈم میں72.3فیصد عوام نے
موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کیاجس میں سے51.9فیصد نے یورپی یونین سے
علیحدگی اور48.1فیصد نے یورپی یونین میں بدستور شامل رہنے کے حق میں اظہار
رائے کیا۔انگلینڈ میں علیحدگی کے حق میں53.2فیصد اور شامل رہنے کے حق
میں46.8فیصد نے ووٹ دیئے،سکاٹ لینڈ میں 38فیصد نے علیحدگی اور62فیصد نے
شامل رہنے کے حق میں،ویلز میں 51.7فیصد نے علیحدگی اور48.3نے شامل رہنے ،ناردرن
آئیر لینڈ میں علیحدگی کے حق میں44.3فیصد اور شامل رہنے کے حق میں55.7فیصد
نے رائے کا اظہار کیا۔یوں انگلینڈ اور ویلز سے علیحدگی کے حق میں جبکہ سکاٹ
لینڈ اور آئیر لینڈ سے شامل رہنے کے حق میں عوامی رائے سامنے آئی ۔یہ بات
بھی اہم ہے کہ برطانیہ کے 2015ء کے عام انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی
شرح66.1فیصد رہی تھی ۔یوں ایک کروڑ74لاکھ10ہزار 742شہریوں نے علیحدگی
اورایک کروڑ 61لاکھ41ہزار241شہریوں نے شامل رہنے کے حق میں ووٹ
دیئے۔برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے ریفرنڈم کے ان نتائج پر تین ماہ بعد
ریٹائرڈ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ نئی برطانوی حکومت ریفرنڈم کے
نتائج کے مطابق یورپی یونین سے بات کر ے۔برطانیہ کے وزیر دفاع مائیکل فیلن
نے کہا کہ ہم نیٹو کا حصہ رہیں گے، مغرب کی سکیورٹی کے لیے اپنا کردار ادا
کرتے رہیں گے اور داعش کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔ سابق وزیراعظم ٹونی
بلیئر نے کہا کہ برطانیہ کے یورپی یونین کو چھوڑنے کے فیصلے کے بڑے نتائج
مرتب ہوں گے۔لیبر پارٹی کے رہنما نے کہاکہ یہ نتیجہ ہمارے ملک، یورپ، اور
دنیا کے لیے بہت اداس کن ہے۔یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے کہا کہ ہم
اپنا اتحاد 27 ممالک تک برقرار رکھنے کے لیے پر عزم ہیں، میں تجویز کروں گا
کہ ہم اپنے اتحاد کے لیے بڑے پیمانے پر صلاح و مشورے کا آغاز کریں۔برطانوی
دارالعوام کے رہنما اور ای یو سے اخراج کی مہم کے رہنما کرس گریلنگ کا کہنا
ہے کہ برطانیہ کو 2020 میں عام انتخابات سے قبل یورپی یونین کو خیرباد کہہ
دینا چاہیے۔بلاشبہ برطانوی عوام کے اس تاریخی فیصلے سے مختلف شعبو ں میں
مختلف تبدیلیاں رونما ہوں گی ،تاہم جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے برطانوی
باشندوں کو یورپی یونین سے علیحدگی کے فیصلے سے کافی فائدہ ہو گا۔برطانیہ
کی یورپی یونین میں شمولیت سے مشرقی یورپ کے غریب ملکوں کے باشندوں کا
آسانی سے برطانیہ آنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ معاشی طور پر پسماندہ مشرقی یورپی
ممالک کے لوگ جفاکش اور جسمانی طور پر مضبوط ہیں اور انہوں نے برطانیہ میں
آ کر کم از کم اجرت میں سخت کام کرنا شروع کیا جس سے جنوبی ایشیائی برطانوی
باشندے متاثر ہوئے اور ان کے روزگار کے مواقع مزید کم سے کم رہ گئے۔
لاکھوں کی تعداد میں پاکستان اور کشمیرسے تعلق رکھنے افراد برطانیہ کے شہری
ہیں اورپاکستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں ہمیشہ ان کی طرف سے گہری
دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ گزشتہ چند سال سے جنوبی ایشیا کے ان باشندوں کی طرف
سے برطانیہ کی سیاست میں بھی دلچسپی میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔گزشتہ
دنوں ہی لندن کے میئر کے الیکشن میں ایک پاکستانی نژاد مسلمان برطانوی شہری
نے انتہائی امیر ایک یہودی برطانوی شہری کو شکست سے دوچار کیا۔اطلاعات کے
مطابق پاکستان اور کشمیر کے برطانوی باشندوں کی اکثریت نے برطانیہ کی یورپی
یونین سے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیاہے۔یورپی یونین سے علیحدگی یا شامل رہنے
کا فیصلہ صرف برطانیہ اور یورپی یونین میں شامل ملکوں کے لئے ہی نہیں بلکہ
تمام دنیا کے لئے بھی اہم ہے۔اس اہم سوال پر برطانیہ کے اعلی دماغوں نے
اپنے طور پر ’’ ملک اور عوام کا مفاد‘‘ طے کرنے کے بجائے تاریخ ساز عوامل
پر مشتمل اس اہم ترین سوال کا فیصلہ کرنے کے لئے عوامی ریفرنڈم کرانے کا
فیصلہ کیا۔یوں برطانوی جمہوریت دنیا میں شہری،عوامی بالادستی رکھنے والی
قابل تقلید جمہوری مثال پیش کرتی ہے اور خاص طور پر پاکستان کے لئے اہم ہے
کہ جہاں ہمارے ’’ اعلی دماغ‘‘ خود ہی یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ملک اور عوام
کا مفاد کیا ہونا چاہئے۔آج پاکستانی عوام بھی یہ دیکھ سکتے ہیں کہ یورپ میں
شہریوں کے لئے ایک معیار زندگی متعین کیا گیا کہ جہاں سے شہریوں کو نیچے
نہیں آنے دینا ،جبکہ ہمارے ملک میں بھی شہریوں کے لئے ایک معیار مقرر ہے کہ
جہاں سے انہیں اوپر آنے کی اجازت نہیں ہے،ادنی رہنا ہی ان کا مقدر قرارپایا
ہے۔پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے برلن میں جرمن
میڈیا کو انٹرویو میں بتایا کہ’’ پاکستان میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے،
جمہوریت کو فوج کی طرف سے ہرممکن حمایت حاصل ہے، قومی سلامتی کے تمام اہم
معاملات پر مشاورت کی جاتی ہے، مختلف امور پر جب بھی طلب کیا جاتا ہے تو
فوج سویلین حکومت، جمہوریت کی حمایت کرتی ہے، قدرتی آفت سے ترقیاتی کاموں
میں فوج سویلین حکومت کی مدد کرتی ہے، پاکستان ہر پاکستانی کی ترجیح ہے۔
فوج جمہوریت کی مضبوطی کیلئے حتی الامکان کوشاں ہے، فوج ہر وقت سول حکومت
کی مدد کیلئے موجود ہے، آنے والے دنوں میں سول ملٹری تعلقات مزید مضبوط و
بہتر ہوں گے‘‘۔جس ملک میں آئین و قانون اور معاشی تقسیم طبقاتی بالادستی کا
شکار ہو،جہاں فوج ہی سیاست کے خطوط مرتب کرے اور جہاں فوج کو ہی جمہوریت کی
مضبوطی کی یقین دہانی کرانا پڑتی ہو،اس ملک میں جمہوریت یا ’’ملک و عوام کے
وسیع تر مفاد کے نظام ‘‘ میں عوام کی کسمپرسی اور مظلومیت کا کیا عالم ہے؟
یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ |