یہ وقت بھی گزر جائے گا

کسی بادشاہ نے اپنے ملک سے تمام پڑھے لکھے، عقلمند اور عالم قسم کے لوگوں کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ کیا کوئی ایسا مشورہ، منتر یا مقولہ ہے کہ جو ہر قسم کے حالات میں کام کرے، ہر صورتحال اور ہر وقت میں اس ایک سے کام چل جائے۔ کوئی ایسا مشورہ جو کہ میں اگر اکیلے میں ہوں اور میرے ساتھ کوئی مشورہ کرنے والا نہ ہو تب بھی مجھے اس کا فائدہ ہو؟

تمام لوگ بادشاہ کی اس خواہش کو سن کر پریشان ہوگئے کہ کون سی ایسی بات ہے جو کہ ہر وقت، ہر جگہ کام آئے؟ جو کہ ہر صورتحال، خوشی، غم، الم، آسائش، جنگ و جدل، ہار، جیت غرض کہ ہر جگہ فِٹ ہو سکے؟ِ

کافی دیر آپس میں بحث و مباحثہ کے بعد ایک بوڑھے آدمی نے ایک تجویز پیش کی جسے تمام نے پسند کیا اور وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوئے۔

انہوں نے بادشاہ کی خدمت میں ایک کاغذ پیش کیا اور کہا کہ اس میں وہ منتر موجود ہے جس کی خواہش آپ نے کی تھی۔ شرط صرف یہ ہے کہ آپ اس کو صرف اس وقت کھول کر دیکھیں گے جب آپ اکیلے ہوں اور آپ کو کسی کی مدد یا مشورہ درکار ہو۔ بادشاہ نے اس تجویز کو مان کر کاغذ کو نہایت حفاظت سے اپنے پاس رکھ لیا۔

کچھ عرصے کے بعد پڑوسی دشمن ملک نے اچانک بادشاہ کے ملک پر حملہ کر دیا۔ حملہ اتنا اچانک اور شدید تھا کہ بادشاہ اور اس کی فوج کو بری طرح شکست ہوئی۔ فوج نے اپنے بادشاہ کے ساتھ مل کر اپنے ملک کے دفاع کی بہت کوشش کی لیکن بالآخر انہیں محاذ سے پسپائی اختیار کرنی پڑی۔ دشمن ملک کے سپاہی بادشاہ کے پکڑنے اس کے پیچھے لگ گئے اور بادشاہ اپنی جان بچانے کے لئے گھوڑے پر بھاگ نکلا۔ بھاگتے بھاگتے وہ پہاڑ کے اس مقام پر پہنچ گیا کہ جہاں دوسری طرف گہری کھائی تھی اور ایک طرف دشمن کے سپاہی اس کا پیچھا کرتے قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔

اس صورتحال میں اسے اچانک اس منتر کا خیال آیا جو کہ اسے بوڑھے شخص نے دیا تھا۔ اس نے فوراً اپنی جیب سے وہ کاغذ نکالا اور پڑھنا شروع کیا۔ اس کاغذ پر لکھا تھا کہ "یہ وقت بھی گزر جائے گا" ۔

بادشاہ نے حیران ہو کر تین چار دفعہ اس تحریر کو پڑھا اسے خیال آیا کہ یہ بات تو بالکل صحیح ہے۔ ابھی کل ہی وہ اپنی حکومت میں سکون کی زندگی گزار رہا تھا اور تمام عیش و آرام اسے میسر تھا اور آج وہ دشمن سے بچنے کے لئے بھاگتا پھر رہا ہے؟ جب آرام اور عیش کے دن گزر گئے تو یقیناً یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ یہ سوچ کر اسے سکون آ گیا اور وہ پہاڑ کے آس پاس کے قدرتی مناظر کو دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر میں اسے گھوڑوں کے سموں کی آوازیں معدوم ہوتی سنائی دیں، شاید دشمن کے سپاہی کسی اور طرف نکل گئے تھے۔

بادشاہ ایک بہادر آدمی تھا۔ جنگ کے بعد اس نے اپنے لوگوں کا کھوج لگایا جو آس پاس کے علاقوں میں چھپے ہوئے تھے۔ اپنی بچی کھچی قوت کو مجتمع کرنے کے بعد اس نے دشمن پر حملہ کیا اور انہیں شکست دے دی۔ جب وہ جنگ جیت کے اپنی مملکت میں واپس جا رہا تھا تو اس کے ملک کے تمام لوگ استقبال کے لئے جمع تھے۔ اپنے بہادر بادشاہ کے استقبال کے لئے لوگ شہر کی فصیل، گھروں کی چھتوں غرض کہ ہر جگہ پھول لئے کھڑے تھے اور تمام راستے اس پر پھول نچھاور کرتے رہے۔ ہر گلی کونے میں لوگ خوشی سے رقص کر رہے تھے اور بادشاہ کے شان میں قصیدے گا رہے تھے۔ بادشاہ بھی اپنے فوجی قافلے کے ہمراہ بڑی شان سے کھڑا لوگوں کے نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ اس نے سوچا کہ دیکھو لوگ ایک بہادر کا استقبال کیسے کرتے ہیں، میری عزت میں اب اور اضافہ ہو گیا ہے، اور کیوں نہ ہوتا، دشمنوں کو مار بھگانا کوئی اتنا آسان نہیں تھا اور خصوصاً ایک مکمل شکست کے بعد۔

یہ سوچتے سوچتے اچانک اسے اس کاغذ کے مضمون کا خیال آ گیا "یہ وقت بھی گزر جائے گا"۔

اس خیال کے ساتھ ہی اس کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ اپنے آپ پر غرور ایک ہی لمحہ میں ختم ہو گیا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ وقت بھی گزر جائے گا تو یہ وقت میرا نہیں۔ یہ لمحے یہ حالات میرے نہیں، یہ ہار اور یہ جیت بھی میری نہیں۔ ہم صرف دیکھنے والے ہیں، ہر چیز کو گزر جانا ہے اور ہم صرف ایک گواہ ہیں۔

ہم صرف محسوس کرتے ہیں۔ زندگی آتی ہے اور چلی جاتی ہے۔ خوشی اور غم کا بھی یہی حال ہے۔ اپنی زندگی کی حقیقت کو جانچیں۔ اپنی زندگی میں خوشی، مسرتوں، جیت، ہار اور غم کے لمحات کو یاد کریں۔ کیا وہ وقت مستقل تھا؟ وقت چاہے کیسا بھی ہو، آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔

زندگی گزر جاتی ہے۔ ماضی کے دوست بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ جو آج دوست ہیں وہ کل نہیں رہیں گے۔ ماضی کے دشمن بھی نہیں ہیں اور آج کے بھی ختم ہو جائیں گے۔ اس دنیا میں کچھ بھی کوئی بھی مستقل اور لازوال نہیں۔

ہر چیز تبدیل ہو جاتی ہے لیکن تبدیلی کا قانون نہیں بدلتا۔ اس بات کو اپنی زندگی کے تناظر میں سوچیں۔ آپ نے کئی تبدیلیوں کو زندگی میں دیکھا ہوگا، کئی چیزوں کا تبدیل ہوتے ہوئے مشاہدہ کیا ہوگا۔ آپ کی زندگی میں کئی بار غم اور شکست کے حالات آئے ہوں گے اور اسی طرح آپ نے کئی پرمسرت لمحات بھی گزارے ہوں گے۔

دونوں قسم کے وقت کو گزر جانا ہے، کچھ بھی مستقل نہیں۔ ہم اصل میں کیا ہیں پھر؟ اپنے اصل چہرے کو پہچانئے۔ ہمارا چہرہ اصل نہیں ہے۔ اس نے بھی وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہو جانا ہے۔ تاہم آپ کے اندر کچھ ایسا ہے کہ جو کبھی تبدیل نہیں ہوتا اور ہمیشہ ایسا ہی رہتا ہے۔

کیا چیز ہے جو کہ غیر متغیر ہے؟ شاید آپ کے اندر کا صحیح انسان۔ آپ صرف تبدیلی کے گواہ ہیں، محسوس کریں اور اسے سمجھیں۔ اپنی زندگی کی منفی تبدیلیوں کو محسوس کریں اور اپنی ذات سے اس پر قابو پانے کی کوشش کریں۔ رہنے والی ذات صرف اللہ کی ہے اور رہنے والے ہمارے اعمال، سوچیں اور عمل کریں۔
M zak f
About the Author: M zak f Read More Articles by M zak f: 13 Articles with 20588 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.