مذہبی رواداری کی مثال
(Falah Uddin Falahi, India)
ہندوستان سے لیکر دنیا بھر میں مذہبی
رواداری اور عدم رواداری پر خوب سے خوب تر بحث ہوئی اور ملک میں تو عدم
رواداری کے بڑھتے رجحان کو دیکھتے ہوئے مصنفین اور قلم کاروں نے اپنے اپنے
ایوارڈ واپس کرنے لگے تھے جس سے ملک کی دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی تھی
لیکن معاملہ تھمنے کا نام نہیں لیا بلکہ اسے اپوزیشن کی سازش قرار دیکر
حکمراں جماعت خاموش ہو گئی اور ملک میں اس قدر حادثات رونما ہوئے جو ہر ہر
لمحے عدم رواداری اور مذہبی عدم رواداری کی عکاس نظر آنے لگا ۔لیکن میں بی
بی سی اردو سے ایک اسٹوری پیش کر رہا ہوں جو مذہبی رواداری کی زندہ مثال ہے
۔’’گرجا گھر کے معمار نمازی ‘‘اعجاز فاروق کے گاؤں میں مسلمانوں کی اکثریت
ہے اور یہاں کے باسی مذہبی فرائض نبھانے کے بعد دوستی کا فرض بھی نبھاتے
ہیں۔گاؤں کی تنگ گلیوں میں اذان گونج رہی ہے۔ اعجاز مسجد میں با جماعت نماز
پڑھ رہے ہیں۔ مسجد سے نکلتے ہی وہ گرجا گھر کا رخ کرتے ہیں۔ اس گرجا گھر کی
ابھی دیواریں ہی کھڑی ہیں۔ اعجاز بھی باقی گاؤں والوں کے ساتھ کھدائی کر
رہے ہیں، اینٹوں پر لیپ لگا رہے ہیں۔ گاؤں کی مسیحی برادری کے لیے پہلا
گرجا گھر تعمیر کیا جا رہا ہے اور اس کی تعمیر کا بوجھ مسلمان اور مسیحی
برادری کے افراد کندھے سے کندھا ملا کر اجتماعی طور پر بانٹ رہے ہیں۔اعجاز
فاروق نے کہا ’ہماری مسجد تو یہاں کب سے موجود ہے لیکن ہمارے عیسائی دوستوں
کو بھی حق ہے کہ وہ اپنی عبادت کر سکیں، ہماری مسجد ہے تو ان کا گرجا بھی
گاؤں میں ہونا چاہیے۔‘پاکستان میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد اور عدم
برداشت کے واقعات روز سامنے آتے ہیں ، لیکن ان ہی شورش زدہ علاقوں میں ایسی
کمیونٹیز بھی ہیں جو قومیت اور برادری کے جذبے کو مسلک اور فرقے سے بالاتر
سمجھتی ہیں۔ پنجاب کے علاقے گوجرہ کے قریب یہ چھوٹا سا گاؤں ایسی ہی چھوٹی
سی کاوش کر رہا ہے جہاں کے مسلمان رہائشی اپنی محدود آمدنی کی پائی پائی
جوڑ کر اپنے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے ہمسائیوں کے لیے ایک گرجا گھر
اپنے ہاتھوں سے تعمیر کر رہے ہیں۔ اب تک پچاس ہزار روپے کا چندہ اکھٹا کر
کے یہ لوگ گرجا گھر کی دیواریں کھڑی کر رہے ہیں اور حوصلے بلند ہیں کہ اس
بھائی چارے کے جذبے کے ساتھ باقی رقم بھی جمع کر کے ’سینٹ جوزف چرچ‘ کو ایک
حقیقت بنا لیں گیفریال مسیح بھی ان آٹھ عیسائی خاندانوں میں شامل ہیں جو
دہائیوں سے اس مسلم اکثریت والے گاؤں میں مقیم ہیں۔ وہ اعجاز فاروق کے ہم
مذہب نہ صحیح لیکن ہمسائے ضرور ہیں۔ دونوں روز صبح اپنے گھروں سے نکل کر
سامنے والے کریانے کے سٹور پر بیٹھتے ہیں، گپیں لگاتے ہیں ، اور چائے پیتے
ہیں۔ ان کی بیگمات اکثر ایک دوسرے کے گھر کھانے کی ترکیبیوں کے تبادلے کر
رہی ہوتی ہیں۔پنجاب کے چند باقی علاقوں سے مختلف یہاں مسیحی برادری کی کوئی
الگ کالونی نہیں بلکہ ایک گھر مسلمان خاندان کا تو دوسرا عیسائی کا نظر آتا
ہے۔ سب آپس میں گھل مل کر رہتے ہیں اور مذہب پر تفریق کا تصور شائد ان کے
پاس سے گزرا ہی نہیں۔ فریال مسیح نے بتایا ’جب سے میں دیکھ رہا ہوں ، ہم سب
مل جل کر ہی رہتے آئے ہیںِ ایک دوسرے کی خوشی غمی، سب ہی تہواروں میں شریک
ہوتے ہیں۔ خدا گوجرہ میں ہونے والے بھیانک واقعات کبھی کسی کو نہ دکھائے
لیکن ہمیں اعتماد ہے کہ ہمارے مسلمان ہمسائے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے
ہوں گے۔‘مبصرین کے خیال میں پاکستان اور بالخصوص پنجاب میں گزشتہ سالوں میں
اقلیتوں کے خلاف شدت پسندی کے واقعات میں اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔ یہ گاؤں
بھی گوجرہ کے اس علاقے سے دور نہیں ہے جہاں 2009 میں مسیحی برادری کے خلاف
مشتعل ہجوم کے حملوں کے نتیجے میں 10 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان کے گھرں
اور گرجوں کو جلا کر راکھ کا ڈھیر بنا دیا گیا تھا۔۔فریال مسیح بھی ان آٹھ
عیسائی خاندانوں میں شامل ہیں جو دہائیوں سے اس مسلم اکثریت والے گاؤں میں
مقیم ہیں۔ وہ اعجاز فاروق کے ہم مذہب نہ صحیح لیکن ہمسائے ضرور ہیں۔ دونوں
روز صبح اپنے گھروں سے نکل کر سامنے والے کریانے کے سٹور پر بیٹھتے ہیں،
گپیں لگاتے ہیں ، اور چائے پیتے ہیں۔ ان کی بیگمات اکثر ایک دوسرے کے گھر
کھانے کی ترکیبیوں کے تبادلے کر رہی ہوتی ہیں۔پنجاب کے چند باقی علاقوں سے
مختلف یہاں مسیحی برادری کی کوئی الگ کالونی نہیں بلکہ ایک گھر مسلمان
خاندان کا تو دوسرا عیسائی کا نظر آتا ہے۔ سب آپس میں گھل مل کر رہتے ہیں
اور مذہب پر تفریق کا تصور شائد ان کے پاس سے گزرا ہی نہیں۔ فریال مسیح نے
بتایا ’جب سے میں دیکھ رہا ہوں ، ہم سب مل جل کر ہی رہتے آئے ہیںِ ایک
دوسرے کی خوشی غمی، سب ہی تہواروں میں شریک ہوتے ہیں۔ خدا گوجرہ میں ہونے
والے بھیانک واقعات کبھی کسی کو نہ دکھائے لیکن ہمیں اعتماد ہے کہ ہمارے
مسلمان ہمسائے مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں گے۔‘اسی طرح کا جذبہ
ہندوستان میں ہندو بھائیوں کے اندر ہونی چاہئے جس کی زبردست ضرورت ہے ۔ |
|