چراغ سے جلاآشیانہ

ہندوستان کی بنیادیں جمہوری اقدار پرقائم ہیں، بے پناہ قربانیاں خون کی ہولی، ہزاروں عورتوں کی بیوگی، بچوں کی یتیمی کے بعد ہمارے اکابراس نظام کو قائم کرنے میں کامیاب رہے، آزادی کی داستان کا ورق ورق شاہد ہے، پھانسی کے پھندوں پرجھولتے ہوئے افراد کی دلیری اور شجاعت کی مثالیں تاریخ کی کتابوں میںرقم ہیں، حسن و عشق زلف و رخسار سےکھیلنے کی عمر میںپھانسی کے پھندے کو چومنا یہ اس امر کو واضحکرنے کے لئے کافی ہے کہ نظام جمہوریت کتنا قیمتی اوراہم ہے۔ کتنے مصائب و آلام درد و تکلیف جھیلنے کے بعد حاصل ہوا ہے، یہ خیرات نہیںجسے لوٹادیا جائے یا کسی کی دی ہوئی بھینٹ نہیں جسے ضائع کردی جائے بلکہ انتھک جدوجہد کا ثمرہ ہے اور ہر ہندوستانی کا حق ہے اگر یہ حق پامال ہوتا ہے تو ملک کےتمام باشندوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں، ان کے قلوب پر ٹھیس لگتی ہے جو جمہوریت کی روح کو مسخ کرنے کے مثل ہے وہ نظام جس کی تعریف یہ کہ عوام کے لئے بنا، عوام کے ذریعہ بنا، اس میںعوامی حقوق پامالی چہ معنی دارد،جبکہ آج یہی قصہ ہر دن صبح اٹھئے تو فضاء میںایسی خبریں بازگشت کررہی ہیں جو جمہوری نظام کو متزلزل کررہی ہیں اس کے ڈھانچہ کو مسمار کرنے کے درپہ ہیں، شکوہ تو یہ ہے کہ یہ امر دیش بھکتی، وطن سے محبت اور پیارکی دلیل قرار پاتا ہے اور سرزنش کہ بجائے داد و دہش ہوتی، انعامات لٹائے جاتے ہیں اور موجودہ دور کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ملک کے محافظ نظام جمہوریت کے پاسدار اس کو ایسی چوٹ پہنچا رہے ہیں جو ادراک سے پرے اور تصور سے بالا تر ہے، آمریت میں یہ ہوا کرتا تھا کہ اگر اپنی حکومت اور اقتدار بچانے کے لئے لاکھوں انسانوں کی جان کا نذرانہ پیش کرنا پڑے تو کیا جائے جس کو دل چاہے قتل کردیا جائے نا کوئی سوال نہ جواب۔ ہٹلر و نیپولین کا دور حکومت اس کی بدترین مثال ہے اور ان کا انجام عبرت ہے جبکہ اس کے بر عکس جمہوری نظام کی خوبی یہ ہے کہ اگر یہاں بادشاہ بھی غلطی کرتا تو وہ بھی پابند عدلیہ ہے اور وہ بھی بحیثیت مجرم اسی زمرے میں ہے،جس زمرے میں عام انسان ہے، اسے بھی ان ہی مراحل سے گذرنا ہوگا، مگر عجب رت چلی ہےکہ جب کسی جرم کا مرتکب عام آدمی ہوتا ہے تو سزا کا مستحق قرار پاتا ہے، مگر جب خاص افراد گھناؤنے افعالکو کر گذرتے ہیں تو وہی نظام عدلیہ جو جمہوریت کی روح ہے، اس سے دابستہ افراد بھی امیروں کے گھر کی لونڈی محسوس ہوتے ہیں اور جھوٹ و فریب کا جال بن کر سچ کو شکست دیتے ہیں لیکن اب تو معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ چکا ہے اور عدلیہ سے باہر ہی دیش بھکتوں نے فیصلہ کرنا شروع کر دیا، جہاں یہ کہا جاتا ہے کہ اگر چہ سو گناہگار بچ جائیں مگر ایک بے گناہ کو سزا نہ ہوجائے، احتیاط کا یہ پہلو انسانی جان کی قدر کا یہ دعویٰ کیا اس امر کا متاقاضی ہے کہ عدالت کے باہر ہی فیصلہ سنا دیا جائے اورسزا بھی دی جائے، اس امر کو انجامدینے والا طبقہ قانون داں، قانون کا محافظ دستور کے نفاذ میں اہم رول ادا کرنے والے جس کے بغیر نہ گناہگاروں کو سزا دی جاسکتی ہے اورنہ بے گناہوں کو رہائی ہر معاملہ انتہائی باریکی سے جانچتے، پرکھتے ہیں اس کے بعد عدلیہ کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ حق کیا ہے اورباطل کیا، ان کا یہ امر اس بات کو نمایاں کررہا ہے کہ ہم کس موڑ پر کھڑے ہوئے ہیں اور ملک کن مشکل ترین حالات سے گذر رہا ہے جہاں ایک طالب علم کو ملک سے غداری کے الزام میں عدلیہ میں ہیش کرنا اس کی جان سے کھیلنے کے مترادف قرار پایا اور وکلاء کی جماعت نے اسی ترنگے سے جو ہماری عظمت، ہمارے وقار اور ہماری آزادی کا پرچم ہے، ایک طالب علم کو زدو کوب کیا تسلیم ہے کہ اس پر ملک سے غداری کا الزام ہے مگر کیا سزا دینا، اس طبقہ کے ہاتھ میں یا وہ مجرم ثابت ہوچکا جس کے لئے اسکے ساتھ اتنا سخت رویہ اختیار کیا گیا۔ اگر اس پر الزام ثابت بھی ہوچکے ہوتے تو کیا اس طبقہ کے لئے جو عدلیہ کا جزو لا ینفک ہے عدلیہ کی روح مسخ کرنا بہتر ہوتا، کوئی بھیذی ہوش اس معاملہ کو درست قرار نہیں دے سکتا،وہ لاٹھیاں کنہیا پر نہیں جمہوریت اور عدلیہ کی روح پرپڑی ہیں جو ہمیشہ تاریخ کے ایک بدترین دور کی مثال قرار پائیں گی۔ دوسری طرف کنہیا کا بیان اس بات کوپوری طرح عیاں کررہا ہے کہ اس کے ساتھ آنے والے خاکی میں ملبوس افراد ناظرین سے زیادہ محسوس نہیں ہوئے،جو اس کو بچانے کی کوشش تو دور کی بات بلکہ اس کی کوشش پر بھی کچھ حرکت کرتے محسوس نہیںہوئے اور امن وسلامتی کے محافظ اس کے قاتل ٹھرے، تماشا بنے رہے، ملک کی عزت سے کھلواڑ ہوتا رہا، عدلیہ کی توہین ہوتی رہی مگر ان کے حرکات نے اس بات کا ثبوت پیشنہیں کیا کہ وہ کسی طور پر بھی ملک کے پاس دار محافظ و امین ہیں، ان کے اس قبیح فعل کو دیکھ کر کیا لوگوں کا نظام عدلیہ سے بھروسہ نہیں ٹوٹے گا؟ کیا یہ ہندوستان کے لئے خطرے کی گھنٹی نہیں؟ کیا اس جرم پر وکلا اور پولس کے افراد سزا کے مستحق نہیں تھے؟ کیا ان کے خلاف مقدمہ درج کرنا جمہوریت کو تقویت بخشنے والا نا ہوتا؟ یہ سب سوالات قلب پر ایسے بیٹھ گئے جیسے سانپ بل پر اور اندر سے باہرآنے کا کوئی راستہ محسوس نہیں ہوتا۔ آخر ان سوالوں کے جواب کہاں تلاش کئے جائیں؟ اور اس کے بعد معاملہ یہی ختم نہیں ہوتا بلکہ جو دہلی میں ہوا اس کی مثال الٰہ آباد میں بھی دیکھنے کو ملی، وہاں بھی طلبہ پر ہورہے مظالم کے خلاف وکلاء نے لاٹھیاں برسائیں اور وہ صرف میمورنڈم پیش کرنا چاہتے تھے، اپنا احتجاج حکومت کی نظروں میں درج کراناچاہتے تھے ان ظلم وستم کی بوچھار کون سے قانون میں آتا ہے؟ کون سی دفعہ ہے جو اس کی اجازت دیتی ہے؟ اس امر کے مرتکبین کے لئے سزا کیوں نہیں؟ کنہیا کے پہچان لینے کے بعد بھی مقدمات نامعلوم افراد کے خلاف کیوں کیا؟ یہ ایک سازش ہے جس کے تحت یہ سب امور انجام پارہے ہیں۔ آخر کنہیا کا عدالت پہنچنا کیوں ان لوگوں کو کھارہا ہے؟ سمجھ سے باھر ہے کیوں یہ چراغ گھروندے کو پھونک رہے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ کیا اس دور حکومت میں سنگھ نظریہ کے خلاف بولنے والے کو انصاف کی چوکھٹ اور امن کے مندر پر بھی قدم نہیں رکھنے دیا جائے گا؟ اور اس بات کا بھر پور احساس کرایا جائے گا کہ کل کوئی زبان اس لہجہ کو اختیار نہ کرے جس میں سنگھ سے مخالفت کی بو ہو جب کہ دوسری طرف مہاراشٹر میں دہشت پسند نیتا پولیس کے روکنے پر تھپڑوں کی بارش کردیتا ہے اور قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اس کے گھر پر وکلاء کی توڑ پھوڑ یا اس کوپیٹنے کی کو کوئی خبر کانوں تک نہیں پہنچی، پھر کنہیا کمار کے معاملے میں وکلاء کا یہ رویہ کس طرف اشارہ کرتا ہے؟کسی بھی ذی شعور کے لئے اس کا ادراک بڑی بات نہیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے محافظ ہی دشمن روشنی دینے والا ہی اندھیارے کا باعث اور ذریعہ کیا ہوگا؟ جمہوریت کا نظام عدلیہ کا ملک کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ سوال قلب نشتر کی مانند چبھ رہا ہے۔ یوںہی نظام عدلیہ بھگوان بھروسے ہے اور ہزاروں مقدمات سرد بستے میں پڑے ہوئے ہیں جن پر شنوائی نہیں ہوپارہی ہےمگر پھر بھی ہندوستانیوں نے عدلیہ پر اپنے بھروسے کو ہمیشہ قائم رکھا ہے لیکن اس واقعہ کے بعد اس اعتماد کو ضرور ٹھیس لگے گی جس کو بحال کرنا بقائے جمہوریت کے لئے ضروری امر ہے کیا ضرورت ہے اس چراغ کی جو گھر پھونک ڈالے اس سے اندھیرا ہی بہتر اس لئے ان وکلاء کے خلاف ترنگے کی حرمت پامال کرنے اور ملک مخالف عمل کرنے کی پاداش میں کاروائی ہونی چاہئے ورنہ تو وہ دن دور نہیں جب یہ رت عام ہوگی اور ملکبہت بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔*مض
rahat ali siddiqui
About the Author: rahat ali siddiqui Read More Articles by rahat ali siddiqui: 82 Articles with 85048 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.