جنگل جمہوریت اور بندر کی حکومت

عزیز دوستوں یہ تو آپ سب لوگوں کو پتہ ہی ہے کہ شیر جنگل کا بادشاہ ہوتا ہے اور یہ بات طے شدہ ہے کہ ایک شیر کے مرنے کے بعد دوسرا شیر ہی جنگل کا بادشاہ بنے گا اور کوئی دوسرا جانور بادشاہ نہیں بنے گا، لیکن ہم آج آپ کو جو کہانی سنانے جارہے ہیں وہ کچھ مختلف ہے۔

قصہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ ایک جنگل ایک شیر تھا جو کہ لازمی سی بات ہے کہ جنگل کا بادشاہ تھا اب کرنا خدا کا یہ ہوا کہ وہ شیر اپنی عمر پوری کر کے مر گیا تو رسم کے مطابق اس کے بیٹے کو بادشاہ بنایا جانے لگا۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں تھی لیکن جس دور کا یہ قصہ ہے وہ گلوبل ولیج کا دور تھا اور اب جنگل کی خبریں شہروں میں اور شہروں کی خبریں جنگل میں بجلی کی سرعت سے پہنج جایا کرتی تھیں۔ اسی لیے اس جنگل میں بھی شہر کی خبریں پہنچتی رہتی تھیں اور جنگل کے جانوروں کو “جمہوریت“ کا بھی کچھ کچھ علم تھا اسی لئے انہوں نے عین رسم تاجپوشی کے موقع پر ایک پھڈا ڈال لیا کہ “یہ شادی نہیں ہوسکتی“ یعنی کہ شیر کا یہ بیٹا بادشاہ نہیں بن سکتا۔ شیر کی برادری والے تمام کے تمام حیران و پریشان ہوگئے کہ اور کہنے لگے “یہ کیسے ہوسکتا ہے بھئی شیر جنگل کا بادشاہ ہے اور اس کے مرنے کے بعد دوسرا شیر بادشاہ بنے گا“۔

تمام جانور یک زبان ہوکر کہنے لگے کہ نہیں جناب یہ تو آمریت ہے، بادشاہت ہے جبکہ اب تو جمہوریت کا دور ہے اور اس میں یہ باشاہت نہیں چلے گی۔ اب الیکشن ہونگے اور اکثریت کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ سب کو قبول کرنا ہوگا۔ اب چونکہ تمام جانور اس بات پر متفق ہوگئے اس لئے شیروں کو بھی ان کی بات ماننا ہی پڑی اور جنگل میں الیکشن کرائے گئے اور جناب عالی ان انتخابات کے نتیجے میں ایک “ بندر “ جنگل کا بادشاہ یا صدر بن گیا۔ اس نے اپنے ہی جیسے تمام بندوروں کو کلیدی عہدے عطا کردئے کسی کو دفاع کا عہدہ کسی کو داخلہ کا عہدہ وغیرہ وغیرہ خیر اس طرح جنگل میں جمہوریت آگئی اور بندر کی حکومت قائم ہوگئی۔
ایک دن جب کہ جنگل میں معمول کے مطابق سارے معاملات چل رہے تھے کہ اچانک ایک ہرنی بھاگتی دوڑتی ہوئی آئی اور سیدھی وزیر داخلہ کے پاس پہنچی اور اس نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا “جناب کچھ کریں پڑوس کے جنگل سے ایک ظالم بھیڑیا گھس آیا ہے اور وہ میرے معصوم بچوں کو مار رہا ہے“ یہ سنتے ہی وزیر داخلہ نے جو کہ اس وقت تازہ پھلوں سے لطف اندوز ہورہے تھے فوراً ایک زوردار بھڑک ماری اور کہا کہ یہ نہیں ہوسکتا اور میں یہ ہونے نہیں دونگا میں ابھی کچھ کرتا ہوں یہ کہہ کر انہوں نے فوراً تیزی کے ساتھ ایک درخت سے دوسرے درخت پر ایک شاخ سے دوسری شاخ پر چھلانگیں لگانی شروع کردیں جبکہ اس دوران وہ ہرنی اپنے بچوں کی جانب چلی گئی ہرنی کے جانے کے بعد بندر وزیر بھی چپ کر کے بیٹھ گئے اور دوبارہ پھل کھانے میں مشغول ہوگئے، لیکن کچھ ہی لمحوں بعد ہی ہرنی دوبارہ بھاگتی ہوئی آئی اور اس نے پھر کہا “ جناب وزیر صاحب کچھ کریں وہ میرے ایک بچے کو مار چکا ہے اور اب دوسرے بچوں کو مارنے کی کوشش کررہا ہے“ یہ سن کر وزیر داخلہ نے حسب سابق ایک بھڑک ماری اور کہا میں ابھی کچھ کرتا ہوں تم بے فکر ہوجاؤ اور اس کے بعد حسب سابق تیزی کے ساتھ ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانی شروع کردیں۔ ہرنی یہ دیکھ کر ایک بار پھر اپنے بچوں کی جانب چلی گئی اور بندر وزیر ایک بار پھر پھل کھانے میں مشغول ہوگئے۔

کچھ دیر کے بعد وہی ہرنی روتی ہوئی آئی اور کہنے لگی کہ “ وزیر داخلہ صاحب میں کہاں جاکر فریاد کروں، وہ پڑوس کا بھیڑیا ایک ایک کر کے میرے بچوں کو کھا گیا اور اب ابھی وہ جنگل میں دندناتا پھر رہا ہے کوئی اس کو کچھ نہیں کہتا “ یہ سن کر بند وزیر نے ایک بار پھر زوردار بھڑک ماری کہ میں سب کو دیکھ لونگا اس کے بعد پھر تیزی کے ساتھ ایک شاخ سے دوسری شاخ اور ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگانے، جبکہ ہرنی آسو بہاتے ہوئے حیرت کے ساتھ اس کو دیکھ رہی تھی۔ کچھ سیر کے بعد وزیر موصوف نیچے آئے اور ہانپتے ہوئے کہنے لگے “ تم نے دیکھا کہ میں نے کتنی محنت کی ہے میں کس طرح بھاگ دوڑ کررہا ہوں، تمہارے بچوں کو بچانے کے لئے بھی میں نے اسی طرح کتنی ہی کوشش کی لیکن کیا کروں میری ساری کوششوں کے باوجود تمہارا بچہ نہ بچ سکا تو اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے تو اپنی پوری محنت کی نا!“ “ ہرنی یہ سن کر کچھ لمحوں کے لئے تو ہکا بکا رہ گئی اور پھر یہ کہتی ہوئی وہاں سے چلدی کہ جناب آپ کا قصور نہیں ہے قصور تو ہمارا ہے جو آپ کو وزیر بنایا جب بندروں کی حکومت ہوگی تو وہ سوائے اچھل کود کرنے کے کچھ بھی نہیں کرسکتے“۔

قارئین کرام یاد آیا کہ ملک میں آئے روز بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی میں روزانہ درجنوں لوگ مارے جارہے ہیں اور وزیر داخلہ صاحب آئے دن اسلام آباد سے کراچی، کراچی سے لاہور اور لاہور سے لندن اچھلتے پھرتے ہیں اور دہشت گرد ہیں کہ وہ اپنی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں کوئی ان کو کچھ نہیں کہتا اور وزیر داخلہ صاحب کہتے ہیں کہ قوم دیکھ رہی ہے کہ ہم اپنی پوری کوشش کررہے ہیں اور ہم کتنی محنت کررہے ہیں۔ ارے بھائی اس بات کا اوپر سنائی گئی کہانی سے کوئی تعلق نہیں ہے وہ تو محض کہانی ہے اور وزیر داخلہ صاحب سے اس کی مماثلث محض اتفاق ہے۔ دیکھیں دیکھیں اگر آپ کسی وزیر کو بندر سمجھیں تو آپ کی مرضی ہم نے تو آپ لوگوں کو ہنسانے کے لئے ایک کہانی سنائی ہے۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1519863 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More