محمود خان اچکزئی بلوچستان سے تعلق رکھنے
والے کہنہ مشق سیاستدان سمجھے جاتے ہیں ان کا شمار بھی اُنہی سیاسی
خانوادوں میں سے ہے جہاں باپ کے بعد بیٹا پارٹی لیڈر بنتا ہے اوروہ اپنے
والد عبدالصمد خان اچکزئی کے بعد اُن کی سیاست کے وارث بنے ا ور صرف وہ
نہیں بلکہ اِس وقت اُن کے خاندان کے کئی افراد حکومت اور سیاست دونوں میں
موجود ہیں۔اُن کے بھائی محمد خان اچکزئی بلو چستان کے گورنر ہیں،دوسرے
بھائی حامد خان اچکزئی بھی صوبائی اسمبلی کے رکن ر ہے اور اس وقت اِن کے
بیٹے عبدالمجید اچکزئی یعنی محمود خان اچکزئی کے بھتیجے بھی رکن اسمبلی
ہیں۔اسی خاندان کی کچھ خواتین بھی اسمبلی میں موجود ہیں اعلیٰ سر کاری عہدے
اس کے علاوہ ہیںیہ وہ مختصر سا خاندانی پس منظر ہے جس کے محمود خان اچکزئی
مالک ہیں۔پختون ملی عوامی پارٹی کی سیاست کی بنیاد پختون قومیت پر رکھی گئی
بلکہ یہ سرحدی گاندھی یعنی عبدلغفار خان کی سیاست کی ہی ایک شاخ تھی اور
کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار محمود خان اچکزئی نے افغانستان جاکر کیااور
فرمایا کہ خیبر پختونخواہ تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ ہے اور یہ بھی
کہافغان مہاجرین کو کوئی کے پی کے سے نہیں نکال سکتا ۔جناب اچکزئی صاحب
معلوم نہیں کیوں افغانستان گئے تھے یا بلائے گئے تھے یا کسی نے انہیں یہ
بیان دلوانے وہاں بھیجا تھا ویسے اس بیان کے بعد جس میں انہوں نے افغانستان
سے اپنی انتہا درجے کی وفاداری اور محبت کا ثبوت دیتے ہوئے پاکستان کا ایک
پورا صوبہ انہیں تحفتہََ پیش کر دیا اگر وہ وہی رہ جاتے تو میرے خیال میں
کسی کو اعتراض نہ ہوتالیکن پاکستانیوں کا بالعموم اور پختونو ں کا بالخصوص
شدید ردعمل دیکھنے کے بعد محترم نے ارشاد فرمایا کہ اُن کے بیان کو سیاق و
سباق کے بغیر پیش کیا گیا ہے یہ ایک عام سا جملہ ہے جو ہمارے اکثر سیاستدان
اپنے گنا ہوں اور غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے کہتے رہتے ہیں،کیا بہتر نہ
ہو کہ وہ بولنے سے پہلے تول لیا کریں۔ویسے ان کی معلومات میں اضافے کے لیے
یہ بھی بتانا ضروری کہ کے پی کے میں کسی کا وہ خیال نہیں ہے جو اُن کا ہے
یہاں کوئی افغانستان کو اپنا ملک نہیں سمجھتا ۔خود ان کے والد عبدالصمد
اچکزئی نے بھی کبھی افغانستان کے ساتھ شامل ہونے کی خواہش کا اظہار نہیں
کیا تھااور نہ ہی ان کے ہم خیال غفار خان نے ایسا کچھ کہا تھا یہ دونوں
گاندھی کے وفادار تھے اگر چہ ان کے والد نے پاکستان کی مخالفت کی تھی لیکن
بعد میں مجبوراََ ہی سہی وہ پاکستان کی سیاست میں نہ صرف حصہ لیتے رہے بلکہ
خود وہ یا اُن کی پارٹی کے افراد حکومت میں رہتے رہے اس وقت بھی اُن کے
بیٹے بلوچستان کے گورنر ہیں۔ وہ جس صوبے کو افغانستان کا حصہ کہہ رہے ہیں
اُس کے عوام کو اس پر شدید اعتراض ہے اور جن افغان مہاجرین کو یہ اس صوبے
پر قبضے کی دعوت دے رہے ہیں اُنہی کے روپ میں دہشت گرد پاکستان پہنچتے ہیں
جو معصوم پاکستانیوں کا خون بہا دیتے ہیں جن میں سے زیادہ حملے اسی صوبے
میں ہوتے ہیں اور پختونوں کا قتلِ عام بے دریغ کر دیا جاتا ہے پھر کیسے
محمود خان صاحب فرما رہے ہیں کہ کے پی کے افغانیوں کا ہے اور انہیں وہاں سے
کوئی نہیں نکال سکتا ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ افغان مہاجرین کو اگر پاکستان
کے کسی علاقے میں تنگ کیا جائے تو وہ کے پی کے آئیں اور یہاں انہیں مہاجر
کارڈ دکھانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ یہ صوبہ ان کا اپنا ہے یعنی
افغانستان کا حصہ ہے۔انتہائی شرم کا مقام ہے ایک پختون تو کبھی اپنی زمین
اپنے وطن کاایک انچ بھی کسی کو نہیں دیتاکجا کہ ایک صوبہ دوسروں کے حوالے
کردے۔محترم اچکزئی صاحب آپ صوبائی سطح کے سیاستدان ہو کر دوسرے صوبے کی
زمین کیسے کسی کو دے رہے ہیں۔افغان مہاجرین کا بوجھ جتنا کے پی کے نے
برداشت کیا ہے اتنا کسی اور نے نہیں۔ چالیس سال ہونے کو آرہے ہیں کہ ان کو
مہمانوں کی طرح رکھا ہو ہے انہوں نے نہ صرف کے پی کے بلکہ پورے ملک میں
جائیدادیں بنالیں ہیں ،ہمارے نجی اداروں میں یہ ملازمتیں کر رہے ہیں،پشاور
کے بڑے بڑے ہسپتالوں میں یہی ڈاکٹر یہی مریض نظر آتے ہیں، اعلیٰ پائے کے
سکولوں کالجوں میں ان کے بچے پڑھ رہے ہیں۔یہ وہی مہاجرین ہیں جو جب آئے تو
عام سا سکول بھی ان کے لیے آکسفورڈ اور کیمبرج سے کم نہ تھا۔ اچکزئی صاحب
آپ تو محلات کے رہنے والے ہیں ہم عام لوگوں سے پوچھیں کہ انہوں نے تو
پاکستانیوں سے رہنا سہنا سیکھا، پشاور میں رہنا تو ان کے ملک کے مقابلے میں
دنیا کے کسی ترقی یافتہ ملک میں رہنے کے برابر ہے۔ ان کی تجارتی سرگرمیوں
نے خود ہمارے اپنے لوگوں کی سر گر میوں کو محدود کیا ہوا ہے اگر آپ کہیں تو
آٹھ دس لوگوں کے تو میں نام گنوا سکتی ہوں جو پاکستان میں بڑے بڑے بزنس کر
رہے ہیں ایسے بزنس جن کے بارے میں وہ افغانستان میں سوچ بھی نہیں سکتے۔
انہوں نے یہاں تعلیم، رہنا سہنا،تہذیب،تجارت سب سیکھی نہ سیکھا تو وفاداری
نہ سیکھی۔ان میں سے بہت سے اپنے اندر موجود دہشت گردوں کو جانتے ہیں لیکن
بتاتے نہیں اسی لیے دھماکوں میں صرف پاکستانی شہید ہوتے ہیں اور افغانی
محفوظ رہتے ہیں۔آپ تو کے پی کے کی بات کرتے ہیں میں تو بلوچستان میں بھی
اِن کے حق میں نہیں ہوں نہ سندھ میں نہ پنجاب میں ۔ اگر یہ افغانی پاکستان
چھوڑ دیں تو ہم ستر اسی فیصد امن تو بحال کر ہی لیں گے اور باقی بیس تیس
فیصد دہشت گردی خود بخود ختم ہو جائے گی اگر افغانستان اور اس کے راستے
بھارتی ،امریکی اور دیگر کی امداد بند ہو جائے۔ لہٰذا اچکزئی صاحب
افغانستان کو یہ مشورہ دیں کہ پاکستان میں مداخلت بند کر دے،پاکستان کو
مطلوب دہشت گردوں کو پناہ نہ دے اور فضل اللہ کو پاکستان کے حوالے کردے تو
یہ اُن کے حق میں بہتر ہو گا اگر وہ ایسا کرتے تو ان کی عزت میں شاید
پاکستان میں کچھ اضافہ ہوجاتااور وہ زیادہ اچھا محسوس کرتے۔ انہیں اب بھی
یاد دلاؤں گی کہ پتھر وہی بھاری ہے جو اپنی جگہ پڑا رہے اور بحیثیت ایک محب
وطن پاکستانی اور کے پی کے کی پختون کے ان سے یہ جواب دہی بھی کرتی ہوں کہ
کیسے انہوں نے میری زمین غیروں کے حوالے کر دی اور انہیں یہ بھی یاد دلاؤں
کہ اُن کے ممدوح افغانوں نے اگر کبھی ہمارے صوبے پر حکومت کی بھی ہے تو
قابض کی حیثیت سے ورنہ درہ خیبر پار کر کے وہ یہی سمجھے تھے کہ وہ ہندوستان
میں داخل ہوئے ہیں اور پھر اُنہوں نے جب انگریز کے ساتھ معاہدہ کر کے
ڈیورنڈ لائن کو مستقل بین الاقوامی سرحد تسلیم کر لیا تو پھر وہ کس اُمید
میں ہیں اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو تب بھی کے پی کے کے پٹھان کسی صورت
افغانستان کی بالاد ستی قبول نہیں کریں گے اور وہ بھی اس صورت میں جب انہی
افغانوں نے، جن کی انہوں نے دہائیوں تک میزبانی کی اور اس مہربانی کے بدلے
انہوں نے ان کے خون سے ہولی کھیلی۔ اچکزئی صاحب آپ پاکستان کی پارلیمنٹ کے
رکن ہیں آپ نے حلف اٹھایا ہے اُس حلف کی پاسداری کیجیے ورنہ ہمیں بڑی خوشی
ہو گی اگر آپ اپنے انہی خیالات کے ساتھ پاکستان چھوڑ جائیں اور یا توبہ
تائب ہو کر پاکستان کے وفادار بن جائیں اور آئندہ ایسی غلطی نہ دہرائیں۔ |