موجودہ الیکشن ایک خطرہ اور ایک چیلنج۔ قسط دوم

بھارت نے انیس سو پچاس کے اوائل میں مقبوضہ کشمیر میں جب شیخ محمد عبداﷲ کو اس قدر وفاداری دکھانے کے باوجود وزارت عظمیٰ سے ہٹا کر جیل میں ڈال دیا تو شیخ صاحب کے ہوش ٹھکانے آ گئے کہ انھوں نے مسلم کانفرنس سے غداری کی سزا پالی اور بھارت کے مخالف ہو گئے تا ہم اپنی مونچھ اونچی رکھنے کے لیئے ’’محاذ رائے شماری‘‘ کے نام سے ایک نئی جماعت کا اعلان کر دیا۔ جس کا منشور یہی تھا کہ ریاست کا حتمی فیصلہ کرنے کے لیئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری کرائی جائے۔ اور یہی نعرہ یہاں آزاد کشمیر میں مسلم کانفرنس ملکی اور عالمی سطح پر لگا رہی تھی۔ بات در اصل ریاست کے اسلامی تشخص اور اتحاد و یکانگت اور اسے در پیش خطرے کے ہو رہی ہے تو یہاں یہ ذکر از حد ضروری ہے کہ جب شیخ عبداﷲ کو گرفتار کر لیا گیا تو مسلم کانفرنس کے قائد چوہدری غلام عباس نے دنیا کی توجہ مسئلہ کشمیر کی طرف مبذول کروانے اور مقبوضہ کشمیر کے عوام اور شیخ صاحب کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے KLM کی تحریک کا اعلان کر دیا۔ یہ داستان بھی کافی طویل ہے اور اس ضمن میں مسلم کانفرنس کے رہنماؤں اور کارکنوں کی قربانیوں کی روداد تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہے۔ اس تحریک کا مقصد بلا لحاظ مذہب و ملت ریاست کے عوام کے اتحاد و یگانگت اور ریاست کے اسلامی تشخص کا تحفظ کرنا تھا۔

ریاستی تشخص کو تحلیل کرنے کی ہر دو اطراف کوششیں ہوتی رہیں جنہیں اﷲ کے فضل سے مسلم کانفرنس کی قیادت نے اپنی خداد صلاحیت کے باعث ہمیشہ ناکام کیئے رکھا۔ مثال کے طور پر چند واقعات کا تذکرہ جو ناگزیر ہے یوں ہے۔ فیلڈ مارشل صدر جنرل ایوب خان پاکستان میں مقیم کشمیری مہاجرین کو مکمل طور پر سیٹل کرنے اور ان کی دوہری شہریت کو ختم کر کے اندرون خانہ جنگ بندی لائن پر ہی اکتفا کرنے کے منصوبے پر کام کر رہے تھے اور اس ضمن میں انھوں نے مری میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں جناب مجاہد اول پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے فرمایا تھا کہ ’’یہ سردار قیوم ان کشمیریوں کو سیٹل نہیں ہونے دیتا‘‘۔ فرض کریں کہ اگر جنرل ایوب ایسا کر گزرتے تو مسئلہ کشمیر کی حیثیت کیا رہتی اور پھر یہ بھی کہ پنجاب کے کسی ڈی سی صاحب نے ایک آرڈر جاری کر دیا تھا کہ آزاد کشمیر کا فلاں علاقہ پنجاب کے فلاں حصے کے ساتھ اور فلاں فلاں حصہ کے ساتھ شامل کر کے کشمیر کا نام ختم کر دیا جائے اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ان تمام باتوں کو بھی اﷲ کے فضل سے مسلم کانفرنس کی بصیرت افروز قیادت نے ناکام بنا کر نہ صرف یہ کہ مسئلہ کشمیر کو زندہ رکھا بلکہ آزاد کشمیر کو پاکستان کی دفاعی لائن کے طور استعمال کیا کہ کہیں پاکستان پر زد نہ آئے۔ مسلم کانفرنس نے کئی عشروں سے مجاہد اول کا تخلیق کردہ ’’کشمیر بنے گا پاکستان کا نعرہ‘‘ لگایا ہوا ہے اس کی کیا حقیقت اور اہمیت ہے یہ بھی ایک غور طلب بات ہے۔ خطہ جموں وکشمیر جغرافیائی اعتبار سے ایک ایسے اہم مقام پر واقع ہے جہاں اس پر دنیا کے اور کئی ممالک کی نظریں بھی ہیں اور اُن کے مفادات موجود ہیں۔ اس لیئے مسلم کانفرنس نے ریاستی عوام میں یہ بات ایک راسخ عقیدے کے طور محفوظ کر دی ہے کہ ہمارا مستقبل مضبوط پاکستان میں ہے اور ریاست جموں وکشمیر نے اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عملدرآمد کے بعد لازماً پاکستان میں شامل ہونا ہے اور پاکستان بننا ہے۔ اگر مسلم کانفرنس کا یہ نعرہ نہ ہوتا تو ریاست کو کب کا تحلیل کر دیا گیا ہوتا۔ کسے معلوم نہیں اور کون اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ بھٹو صاحب آزاد کشمیر کو پاکستان کا ایک صوبہ بنانا چاہتے تھے۔ اگر وہ ایسا کر گزرتے تو مسئلہ کشمیر کہاں باقی رہتا اور اگر وہ ایسا کر گزرتے تو وہ ریاستی عوام کے ساتھ ہمدردی ہوتی یا غداری ہوتی جن کے اسلاف نے مرتے وقت اپنی اولاد کو یہ قسم دے رکھی ہے کہ جب کشمیر پاکستان بنا تو ہماری قبروں پر آ کر آواز دینا اور پھر یہ کہ کیا یہ حضرت قائداعظمؒ کے اس بصیرت افروز قول کی نفی نہ ہوتی ہے کہ ’’کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے‘‘۔ یہاں یہ بات گزارش کرنا بھی خالی از معنی نہ ہو گا کہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 1972 میں بھارتی وزیر اعظم اندراگاندھی سے بات چیت کرنے کے لیئے شملہ جانے کے موقع پر مجاہد اول سردار عبدالقیوم خان صاحب سے کہا تھا کہ آپ بھی ہمارے ساتھ شملہ چلیں کیونکہ وہاں سے بھی کشمیری قیادت اس بات چیت میں شمولیت کے لیئے آ رہی ہے۔ جناب مجاہد اول نے اپنی خداداد سیاسی صلاحیت اور بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے بھٹو صاحب سے کہا کہ ’’آپ ایک کمزور پوزیشن میں بھارت جا رہے ہیں اور آپ کو کچھ رعایت دینا پڑے گی۔ اگر یہ رعایت کشمیر پر دی گئی اور کشمیریوں کو منظور نہ ہوئی تو وہ احتجاج کریں گے جس سے آپ کی پوزیشن پر حرف آ سکتا ہے۔ لہذا بہتر یہ ہے کہ آپ کشمیریوں کو اس بات چیت میں شامل نہ کریں ـ‘‘۔ بھٹو صاحب نے مجاہد اول کی اس بصیرت افروز تجویز سے اتفاق کیا اور انھیں ساتھ لے جانے کا اپنا فیصلہ بدل دیا۔ گزارش کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر مجاہد اول بھٹو صاحب کو یہ تجویز نہ دیتے تو عین ممکن تھا کہ بھٹو صاحب جو اپنی کمزور پوزیشن اور بھارتی وزیر اعظم کے دباؤ کی وجہ سے جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن میں تبدیل کرنے پر رضامند ہو گئے اس سے بھی زیادہ رعایت دے دیتے۔ لیکن شکر ہے کہ کشمیری جنگ بندی لائن کو کنٹرول لائن میں تبدیل کرنے کے دونوں ممالک کے اس معاہدے میں شریک نہیں تھے۔ اسی لیئے کشمیری کنٹرول لائن کو جنگ بندی لائن ہی کہتے ہیں اور اسے کنٹرول لائن نہیں مانتے۔ مسئلہ کشمیر کا مقدمہ عالمی سطح پر لڑنے کے لیے پاکستان کے پاس اس سے بڑا کوئی ہتھیار نہیں کہ یہ مسئلہ عالمی سطح پر تسلیم شدہ ایک اہم تنازعہ ہے جو حق خود ارادیت کے ذریعے حل ہونا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ مجاہد اول کی حد درجہ سیاسی اور روحانی بصیرت نے یہ موثر ہتھیار شملہ کانفرنس میں ٹوٹنے سے بچا لیا ورنہ خاکم بدھن ’’نہ رہتا بانس اور نہ بجتی بانسری۔‘‘ مسلم کانفرس کی قیادت کی انہیں بصیرت افروز کارروائیوں کے باعث ہماری اس مسلم اکثریتی ریاست ’’جموں وکشمیر‘‘ کا اسلامی تشخص بحال چلا آ رہا ہے۔

یوں تو سبھی مسئلہ کشمیر کی بات کرتے ہیں لیکن مسئلہ کشمیر کیا ہے اس کی اہمیت پاکستان کے وجود کے لیئے کتنی اہم ہے اور کشمیر و پاکستان کیوں لازم و ملزوم ہیں اس بات کی سمجھ کسی میں نہیں اور ہمارے مسلم لیگ (ن) میں دودھ مجنوں بنے والے نفس پرست رہنماؤں نے تو اور بھی حد کر دی۔ انھوں نے نہ صرف مسلم کانفرنس جو ایک عظیم نعمت ہے اس سے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک استفادہ کرنے کے بعد اﷲ تعالیٰ کی ناشکری اور بدعہدی کا ارتکاب کیا بلکہ اپنے اسلاف کی روحوں کو بھی تڑپایا بلکہ وہ کچھ کیا جو بھارت کر رہا ہے۔ ادھر میاں نواز شریف صاحب نے ان سے بھی زیادہ بے بصیرتی کا ثبوت دیا اور کشمیریوں میں تفریق ڈالنے کی کوشش کر کے اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی مول لی جس کے آثار آج کراچی سے خیبر تک ہر خاص و عام پر عیاں ہیں۔ مسلم کانفرنس نے نہ صرف آزاد کشمیر اور پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیئے عوامی رائے عامہ ہموار کر رکھی بلکہ اﷲ کے فضل و احسان سے ہر سطح اور ہر موڑ پر مشکل سے مشکل وقت میں پاکستان کے استحکام اور تحفظ کے لیئے مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں۔ یہ جن ساڑھے چار لاکھ سے زائد قربانیوں کا اوپر ذکر کیا گیا یہ کس کے لیئے دی گئی ہیں یہ صرف اور صرف نظریہ الحاق پاکستان یعنی پاکستان کے لیئے دی گئی ہیں۔ (جاری ہے)
 
Mian Karim Ullah Qureshi
About the Author: Mian Karim Ullah Qureshi Read More Articles by Mian Karim Ullah Qureshi: 17 Articles with 14037 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.