اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ، ملک کو لبرل بنانے کی سازش ہے
(عابد محمود عزام, Karachi)
’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ ریاست پاکستان کا
ایک آئینی ادارہ ہے۔ اس کا بنیادی فریضہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو
اسلامی قانون کی تدوین کے لیے سفارشات پیش کرنا ہے۔ یہ کام ملک وملت کی اہم
ترین ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام کے بارے میں جوسوالات اس وقت دنیا
میں پیدا ہورہے ہیں، ان میں سے بیش تر کا تعلق فقہ و شریعت ہی سے ہے۔ اس
تناظر میں’’ اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ سے مقصود اصل میں یہ ہے کہ وہ اسلامی
شریعت کے بارے میں پائے جانے والے شکوک وشبہات کو رفع کرے۔ محل اجتہاد
معاملات کو متعین کرے اور ان میں اپنی اجتہادی آرا سے قوم وملت کو آگاہ کرے۔
پارلیمنٹ کی رہنمائی کے لیے انفرادی اور اجتماعی معاملات کے بارے میں
قوانین مرتب کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل 1962ء کے آئین کی اسلامی دفعات کے
نتیجے میں آرٹیکل 204 کے تحت بنایا گیا۔ اس وقت اس ادارے کا نام ’’اسلامی
مشاورتی کونسل‘‘ رکھا گیا۔ 1973ء کے آئین کے مطابق اس ادارے کا نام تبدیل
کرکے اسلامی نظریاتی کونسل رکھ دیا گیا۔ 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 228 میں
اسلامی نظریاتی کونسل کے ڈھانچے کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ آئین
کے آرٹیکل 228کے مطابق اسلامی نظریاتی کونسل کے ممبران آٹھ سے کم نہیں ہوں
گے اور 20سے زیادہ نہیں ہوں گے۔ ممبران کا تقرر صدر پاکستان کی صوابدید پر
ہوگا اور وہ ایسے افراد کو نامزد کریں گے جو اسلامی قوانین اور فلسفے کو
قرآن پاک اور سنت نبوی کے تحت سمجھتے ہوں اور انھیں پاکستان کے اقتصادی ،
معاشی ، معاشرتی ، سیاسی اور انتظامی معاملات کے زمینی حقائق کے بارے میں
مکمل آگاہی ہو۔ اسی طرح 1973ء کے آئین کے آرٹیکل 229اور آرٹیکل 230میں
اسلامی نظریاتی کونسل کے مقاصد اور اس کی عملداری پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کو صدر ، صوبے کے گورنر یا وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں
کے ممبران کی 2/5اکثریت اگر کسی قانون کی شرعی و غیر شرعی حیثیت کے بارے
میں پوچھے تو اسے متعلقہ ادارے کو پندرہ یوم کے اندر جواب دینا ہوگا۔اگر
صدر ، گورنر یا اسمبلی یہ سمجھے کہ یہ قانون انتہائی اہم نوعیت کا ہے تو
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب کا انتظار کیے بغیر بھی اس کو منظور
کیا جاسکتا ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے جواب آنے کے بعد آئین پر
نظر ثانی کی جاسکتی ہے۔ پاکستان کے 1973ء کے آرٹیکل 230کے کلاز 4میں یہ بات
درج ہے کہ اپنے قیام کے سات سال کے اندر یہ ادارہ مجلس شوریٰ کو اپنی رپورٹ
پیش کرے گا اور اس کے بعد ہر سال دونوں ایوانوں اور صوبائی اسمبلیوں کو
اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔ اس آرٹیکل کے مطابق دونوں ایوان اور تمام صوبائی
اسمبلیاں رپورٹ موصول ہونے کے چھ ماہ کے اندر اندر اس رپورٹ پر بحث کرنے کی
مجاز ہیں۔ رپورٹ کی وصولی کے دو سال کے دورانیہ میں وفاقی و صوبائی مجالس
شوریٰ ان سفارشات کی روشنی میں آئین سازی کریں گی جو رپورٹ میں پیش کی
جائیں گی۔ 26ستمبر 1977ء کو ضیا ء الحق کے دور حکومت میں اس کونسل کی
دوبارہ تشکیل دی گئی۔ ضیا ء الحق کی اس کونسل کی تاریخی اہمیت اس وجہ سے ہے
کہ اس کے 17ممبر ضیا ء الحق کے نامزد کردہ تھے۔11ممبران جو جید علما تھے،
کا تعلق مختلف مسالک سے تھا۔ دو ممبران جج تھے اور دو ممبران قانونی ماہر
تھے۔1962ء سے لے کر اب تک کونسل نے بیسیوں رپورٹس مجلس ِ شوریٰ کو دی ہیں
اور بہت سے قوانین کے لیے سفارشات کی ہیں۔29ستمبر 1977ء سے 20دسمبر1978ء تک
اس کونسل نے اقتصادی ، تعلیمی، معاشی اور ذرائع ابلاغ سے متعلق قوانین کے
ڈرافٹ تیار کیے۔ ان خصوصی شعبہ جات کے علاوہ کونسل نے عدلیہ کے ساتھ ساتھ
عمومی معاملات پر بھی اپنی سفارشات شوریٰ کو بھجوائیں۔ بدقسمتی سے اب تک اس
شوریٰ کی جانب سے بھیجی گئی کسی رپورٹ کو دونوں ایوان نمائندگان میں بحث
میں نہیں لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ خاطرخواہ کارکردگی دکھانے میں
کامیاب نہیں ہوسکا۔
اسلامی نظریاتی کونسل اپنی بنیاد کے بعد سے اپنے کام میں مشغول ہے اور آئے
روز کسی نئے مسئلے پر اپنی سفارشات پیش کرتی ہے، لیکن غیرملکی پیسے پر چلنے
والی بعض این جی اوز، ملک میں لبرلز طبقے اور اسلامی قوانین سے خائف بعض
لوگوں کی جانب سے وقتاً فوقتاً اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت پر سوالات
اٹھائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھی سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق
کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے خواتین
مخالف اقدامات اور ان پر تشدد کو جائز قرار دینے سے عورتوں پر تشدد کے
واقعات میں اضافہ ہوا، جب کہ غیرت کے واقعات میں خواتین کو دوسرے درجے کا
شہری تصور کیا جاتا ہے۔ سینیٹر فرحت اﷲ بابر کا کہنا تھا کہ 1997ء میں
اسلامی نظریاتی کونسل کی طرف سے پارلیمنٹ میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد
اسلامی نظریاتی کونسل کا جواز آئینی اور قانونی طور پر ختم ہو چکا، لہٰذا
اس کے برقرار رہنے کی کوئی وجہ نہیں۔ فرحت اﷲ بابر نے اسلامی نظریاتی کونسل
کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ خواتین پر تشدد کا
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ اس کا کام
صرف سفارشات پیش کرنا ہوتا ہے، اس پر بحث اور قانون سازی پارلیمنٹ کا کام
ہے، خواتین پر تشدد کے اصل ذمہ دار قانون نافذ کرنے والے ادارے ہیں، جو
قانون پر پوری طرح عمل نہیں کرتے۔ عورت کو سب سے زیادہ تحفظ اسلام دیتا ہے
اور اسلامی نظریاتی کونسل اسلامی اصولوں کو سامنے رکھ کر سفارشات پیش کرتی
ہے۔ ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد کی وجہ معاشرے میں تعلیم کی کمی اور
قانون پر عمل درآمد نہ ہونا ہے، اگر معاشرے سے خواتین پر مظالم کو ختم کرنا
ہوگا تو اس کے لیے معاشرے میں تعلیم کو عام کرنا ہوگا، اسلام میں بیان کیے
گئے عورت کے حقوق کو عام کرنا ہوگا اور عورت پر مظالم کے حوالے سے جو
قوانین بن چکے ہیں، ان پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔ خواتین پر تشدد کا ذمہ
دار اسلامی نظریاتی کونسل کو قرار دینا کسی طور بھی درست نہیں ہے۔
سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی طرف سے اسلامی نظریاتی کونسل
کو ختم کرنے کی سفارش پر مذہبی رہنماؤں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
جماعت اسلامی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ نے روزنامہ اسلام سے گفتگو کرتے
ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے، سینیٹ کے کسی ممبر
کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اس کے خاتمے کا مطالبہ کرے اور نہ ہی کوئی اس کو
ختم کرسکتا ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا کام سفارشات پیش کرنا ہے، قانون
سازی اور حکم دینا نہیں ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کی آئینی ذمہ داری ہے،
لیکن پارلیمنٹ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتی اور اسلامی نظریاتی کونسل کی
سفارشات پر بحث نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک مخصوص طبقہ
اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کی آڑ میں اسلام کے شعائر اور اسلامی
تعلیمات کو تضحیک کا نشانہ بناتا ہے، اس سیکولر طبقے کو ملک میں اسلام
برداشت نہیں ہے، اس لیے اسے ملک میں کوئی بھی اسلامی ادارہ بھی گوارہ نہیں
ہے، اس لیے وہ وقتاً فوقتاً ملک میں اسلامی اداروں کو تنقید کا نشانہ بناتے
ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سینیٹر مولانا نصیب گل خان نے روزنامہ اسلام
سے گفتگو کرتے ہوئے کہا اسلامی نظریاتی کونسل خود سے مسائل پیش نہیں کرتی،
بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں مسائل کا حل اور قرآن و سنت کی تشریح بیان
کرتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن و سنت کا جامع نظام دیا ہے، جس کے
جز کا انکار بھی کل کا انکار سمجھا جاتا ہے۔ اسلام نے ہمیں خاندانی نظام
عطا کیا ہے۔ جو لوگ اسلام کے خاندانی نظام کو نہیں مانتے، ان پر کوئی زور
زبردستی نہیں ہے، لیکن اس کی وجہ سے وہ یہ کہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو
ہی ختم کردیا جائے، یہ سراسر غلط اور ناجائز ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل
چونکہ قرآن و سنت کی تشریخ کا ایک اسلامی ادارہ ہے، میں سمجھتا ہوں کہ
بحیثیت مسلمان کسی کو اس کے خاتمے کا مطالبہ زیب نہیں دیتا اور جو لوگ ایسے
مطالبات کر رہے ہیں وہ پارلیمانی قوانین سے ناواقف ہیں، جس نے آئین کا
مطالعہ کیا، وہ ایسے مطالبات کر ہی نہیں سکتا۔
مرکزی روئیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب الرحمن نے روزنامہ اسلام سے
گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں خواتین پر ہونے والا تشدد واقعی قابل مذمت
ہے، لیکن اس کی ذمہ داری اسلامی نطریاتی کونسل پر ڈال دینا قابل افسوس بات
ہے۔ معاشرے میں خواتین پر تشدد اسلامی تعلیمات سے دوری کی دلیل ہے، خواتین
پر تشدد کی وجہ اسلامی نظریاتی کونسل نہیں ہے، بلکہ اس کی مختلف وجوہ ہمارے
سماج میں پائی جاتی ہیں، جن میں اسلامی تعلیمات سے دوری، عدالتی، قانونی
اور تفتیشی کمزوری ہے، لیکن کچھ بیگمات پارلیمنٹ میں اور کچھ این جی اوز کا
حصہ ہیں، جو خواتین کے حقوق کی علمبردار ہیں، جو ہر واقعہ کے بعد نئے قانون
کی بات کرتی ہیں، حالانکہ ہر واقعہ کی بعد نیا قانون بنانا اس کا حل نہیں
ہے، بلکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق قوانین پر عمل کرنا اس کا حل ہے۔ یہی لوگ
اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کی بات کرتے ہیں۔ کسی کے مطالبے سے اسلامی
نظریاتی کونسل کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ وفاق المدارس العربیہ کے جنرل
سیکرٹری قاری حنیف جالندھری کا کہنا تھا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی
سفارشات کو پارلیمنٹ میں زیربحث لاکر قانون کا حصہ بنایا جائے۔ معاشرے میں
خرابی کی اصل ذمہ دار حکومت ہے، یہاں مجرموں کو سزائیں دینے کی بجائے تحفظ
فراہم کیا جاتا ہے، جس کے باعث جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ اگر قانون پر عمل
ہو تو مظالم ختم ہوسکتے ہیں۔ امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر
پروفیسر ساجد میر کا کہنا تھا کہ سینیٹ کی انسانی حقوق کی فنکشنل کمیٹی کی
چیئرپرسن نسریل جلیل کو اسلامی نظریاتی کونسل کے خاتمے کا مطالبہ زیب نہیں
دیتا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات سے اختلاف رائے کیا جاسکتا ہے، مگر
اس کے خاتمے کا مطالبہ سراسر ناجائز ہے۔ اس ادارے کی آئینی حیثیت ہے، اسے
کوئی بھی مائی کا لعل ختم نہیں کرسکتا۔ |
|