موجودہ الیکشن ایک خطرہ اور ایک چیلنج۔ قسط چہارم
(Mian Karim Ullah Qureshi, )
اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ
پاکستان کے عوام کو کشمیریوں کی ان بے پناہ قربانیوں کا احساس ہے لیکن ایک
دو کے سوا پاکستان کے تمام حکمران شروع سے ہی کشمیریوں کی قربانیوں اور ان
کی پاکستان سے اس قدر محبت اور عقیدت کے اعتراف میں بخل سے کام لیتے رہے
ہیں۔ اس لیئے ان کے اذہان میں ریاستی تشخص کی اہمیت اجاگر نہیں ہو سکی۔ یہ
ایک فطری عمل ہے کہ کوئی بھی تنازعہ خواہ وہ کتنی بھی طوالت کا شکار کیوں
نہ ہو ایک نہ ایک دن ضرور حل ہو کر رہتا ہے اور اس دوران میں جب انسان نے
اپنی ہلاکت اور تباہی کے لیئے ایٹم بم، ہائیڈروجن بم اور نہ جانے اور کیا
کیا سامان تیار کر رکھا ہے جنگوں کا ہونا پورے عالم کے لیئے قہر الٰہی کے
سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔ اور کسی بھی ملک کے حکمران خواہ وہ کتنے بھی ظالم
اور درندہ صفت ہی کیوں نہ ہوں قہر الٰہی کو دعوت نہیں دیں گے۔ لہذا یہ دور
تنازعات کے مذاکرات کے ذریعہ حل کا دور ہے اور اس حقیقت کو سبھی جانتے ہیں۔
لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ہم ایسی غلطیاں کیئے جا رہے ہیں جن کے باعث
ہمیں مذاکرات کے میز پر بھی کامیابی حاصل کرنا خاصا مشکل لگتا ہے۔ ہم اس
طرح کی غلطیاں مسلسل کر رہے ہیں جن سے ریاست کے اسلامی تشخص اور جغرافیائی
پر حرف آ سکتا ہے جس مسلم اکثریت کے علاوہ ہندو، سکھ، بدھ اور عیسائی عوام
پر مشتمل ہے اور یہ لوگ ریاست کی ایک منفردہ جغرافیائی شکل و صورت کے باعث
مختلف زبانیں بولتے ہیں اور مختلف تہذیبوں کے مالک ہیں اور ان سب کی تہذیب
و تمدن سے ریاست کا جو مجموعی تمدن اور امتزاج بنتا ہے وہی اس ریاست کا اصل
حسن اور دلکشی ہے جو بہر صورت بحال رہنا چاہیے جس کی بحالی کے لیئے مسلم
کانفرنس نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ شیخ محمد عبداﷲ کو مسلم کانفرنس سے
علیحدگی کی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا تھا۔ اس کا اظہار انھوں نے بستر مرگ
پر اُن کی عیادت کے لیئے گئے ہوئے مسلم کانفرنس بعد میں محاذ رائے شماری کے
نامور رہنما سوپور کے صوفی اکبر صاحب سے بر ملا کیا تھا کہ ’’صوفی صاحب آپ
ثابت قدم رہے جب کہ مجھ سے غلطی ہوئی لہذا مجھے معاف کرنا اور میرے حق میں
مغفرت کی دعا کرنا‘‘۔ یہ بات اُس وقت کے اخبارات میں آ چکی ہے۔ مزید یہ بات
بھی خالی از معنی نہیں کہ شیخ صاحب نے اپنے دورہ پاکستان اور آزاد کشمیر کے
دوران کوہالہ کے مقام پر مجاہد اول سے ملاقات پر بڑے تجس کا اظہار کرتے
ہوئے کہا تھا کہ ’’سردار قیوم صاحب آپ کی جگہ ادھر نہیں بلکہ اُدھر ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھائی جائے اس بات کا تذکرہ بھی خالی از معنی نہ ہو
گا کہ سکوت ڈھاکہ کے وقت نہ صرف پورے ملک کے عوام بلکہ حکمران بھی ایک
مایوسی اور خوف کی سی کیفیت میں تھے۔ ایک افراتفری کا عالم تھا۔ اس وقت
مسلم کانفرنس کے عظیم اور صاحب بصیرت قائد جناب مجاہد اول نے پورے ملک میں
’’استحکام پاکستان‘‘ کی تحریک چلائی جس سے پورے ملک میں مایوسی اور خوف کے
بادل چھٹ گئے اور عوام میں ایک نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہوا۔ استحکام
پاکستان کی تحریک جسے اہلیان پاکستان نے بہت سراہا اور اس میں بڑھ چڑھ کر
حصہ لیا اس کی پاکستان میں جتنی آج ضرورت ہے اتنی پہلے کبھی نہ تھی۔ یہاں
اس تاریخی حقیقت کا تذکرہ اس لیے ضروری خیال کیا گیا کہ اس وقت پرنٹ اور
الیکٹرانک میڈیا ملک کے سیاسی معاشی اور انتظامی بحران سے عوام کو لمحہ
لمحہ اور قریہ قریہ کی خبریں پہنچا رہا ہے۔ اور عوام خوف و حشت اور تذبذب
کی کیفیت میں مبتلا ہے۔ اب اپنے معزز قارئین کو ریاست کے اسلامی تشخص کو
تحلیل کرنے کے ماضی میں ہوئے ایک اہم واقعے کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں
اور وہ یہ کہ اسی کی دھائی کے وسط میں غالباً جب بھارت میں جتنا پارٹی کی
حکومت تھی بھارت نے اپنی وزارت خارجہ کو یہ ذمہ داری سونپی کہ ریاست جموں
وکشمیر کے پہاڑی خطہ لداخ کو مرکز کے زیر کنٹرول لانے کے لیئے اقدامات
اٹھائے جائیں اور عالمی تنقید اور مخالفت سے بچنے کے لیئے جواز یہ بنایا
جائے کہ اگر پاکستان شمالی علاقہ جات یعنی ’’گلگت بلتستان‘‘ کو آزاد کشمیر
کی زیر کمان دینے کی بجائے براہ راست مرکز کے کنترول میں رکھ سکتا ہے تو
بھارت خطہ لداخ کو مرکز یعنی دہلی کے زیر کنٹرول کیوں نہیں رکھ سکتا۔
چنانچہ بھارت نے لداخ کی بدھ آبادی جو اکثریت میں ہے کو زیادہ مراعات کا
لالچ دے کر اپنے شیشے میں اتار لیا اور ’’لداخ ہل کونسل‘‘ کے نام سے ایک
نیا مطالبہ شروع کروا دیا کہ لداخیوں کے مفادات سرینگر کی ریاستی حکومت
بہتر طور پر نہیں دیکھ سکتی اور ہمارا استحصال ہو رہا ہے اس لیے جس طرح
پاکستان نے گلگت بلتستان کو براہ راست اسلام آباد کے زیر کنٹرول رکھا ہے
لداخ کو بھی ’’لداخ ہل کونسل‘‘ کے نام سے براہ راست دہلی کے کنٹرول میں دیا
جائے۔ لداخ اور کرگل کے مسلمانوں نے بدھوں کے اس مطالبے کی مخالفت کی اور
خانہ جنگی میں سیکڑوں مسلمان شہید جب کہ ہزاروں زخمی اور بے گھر ہو گئے۔ تا
ہم بھارت لداخ میں منافرت اور ریاست سے علیحدگی کا بیج بونے میں کامیاب ہو
گیا لیکن ریاست کی متنازعہ حیثیت کے پیش نظر عالمی رد عمل کے خطرے کے باعث
عملاً کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ (جاری ہے) |
|