کیا پاکستان جعل سازوں کا گڑ اور
فراڈیوں کی آماجگاہ بنا رہے گا.....؟
گزشتہ دنوں میڈیا کے خلاف پنجاب اسمبلی میں جعلی ڈگری کے حامل اراکین کی
جانب سے منظور کی جانے والی متفقہ قرارداد کے بعد ملک بھر کے صحافی حضرات
اِس قرار داد کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور اِن سطور کے رقم کرنے تک اِن کا
یوم سیاہ منانے اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے جن کے ساتھ نہ صرف سیاستدان
شامل ہیں بلکہ وکلا برادری اور ملک کے عام شہری بھی پنجاب اسمبلی کی
قرارداد کے خلاف صحافیوں کے شانہ بشانہ اِن کے اِس احتجاج کا حصہ بنے ہوئے
ہیں اور یہ عزم مصصم کئے ہوئے ہیں کہ پنجاب اسمبلی سے اِس قرارداد کی واپسی
تک ہونے والے ہر احتجاج میں یہ سب صحافیوں کے ساتھ شامل رہیں گے۔ اِس صورتِ
حال میں ایک خبر یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں
ایک تقریب سے خطاب کے دوران کہا ہے کہ صحافیوں کا احتجاج جائز ہے اور اَب
ہم قرار داد واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں “ اَب دیکھتے ہیں کہ یہ واقعی
کچھ کرتے ہیں....؟ یا وہ یہی کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں۔
ویسے کہا جاتا ہے کہ جعلی ڈگری والے اراکین پنجاب اسمبلی نے میڈیا کے خلاف
متفقہ قرار داد جو منظور کی ہے اِس کے پیچھے پنجاب اسمبلی میں واضح اکثریت
رکھنے والی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز
شریف کا بھی ایک بڑا حصہ ہے جن سے متعلق بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان میں
صحافیوں کے خلاف پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والوں سے متعلق کہا ہے
کہ پنجاب اسمبلی میں قرارداد پیش کرنے والے رکن ایوان جانے سے قبل وزیراعلیٰ
پنجاب شہباز شریف سے اِس کی منظوری لے کرآئے تھے جنہوں نے اِس قرار داد کی
اپنی خاموش حمایت کی تھی۔ اور پھر پاکستانی صحافیوں کے خلاف یہ زور دار
قرار پیش کی گئی۔ جس کے بعد پاکستان بھر میں صحافی برادری میں ایک بھونچال
آگیا ہے۔
اِس منظر اور پس منظر میں اَب میں یہ سمجھتا ہوں کہ اِس کا مناسب جواب تو
شہباز شریف ہی دیتے سکتے ہیں کہ اِس میں کتنی صداقت ہے....؟؟؟بہرحال! میں
اِس موقع پر حضرت معروف کرخیؒکا قول نقل کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہوں گا وہ
فرماتے ہیں کہ” بدی کرنے والے سے میل جول رکھنا بھی بدی پر راضی ہونا ہے“۔
اَب باقی باتیں میرے قارئین خود سمجھ جائیں کہ میں کیا کہنا .....؟اور
اِنہیں سمجھانا چاہتا ہوں ....؟
اُدھر لندن میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نواز شریف نے ایک پریس
کانفرنس کے دوران پنجاب اسمبلی کے جعلی ڈگری رکھنے والے اراکین کی جانب سے
میڈیا کے خلاف لائی جانے والی قرارداد کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے اور
اپنے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلی ٰ شہباز شریف کو اپنے مخصوص اور سیاسی
انداز سے مشورہ دیا ہے کہ اُنہیں میڈیا کے خلاف قرارداد پیش کرنے والے
ثناءاللہ مستی خیل کو پارٹی سے نکال دینا چاہئے ہاں البتہ! نواز شریف نے
اپنی اِس پریس کانفرنس میں اتنا ضرور کہا ہے کہ جعلی ڈگری والے اپنا غصہ
میڈیا پر نہ نکالیں یہ حقیقت ہے کہ جعلی ڈگری والے ناقابلِ معافی ہیں
کیونکہ اُنہوں نے قوم کو دھوکا دیا ہے اِن کا کہنا تھا کہ میڈیا اِن کا
کھوج لگائے(یہاں میرا نواز شریف سے یہ کہنا ہے کہ میڈیا جب اِن کا کھوج
لگاتا ہے تو میاں نواز شریف صاحب! آپ کے بھائی خود اِن جعلی ڈگری والوں کی
پشت پناہی کر کے اِن سے اپنی اسمبلی میں میڈیا کے خلاف قرارداد پیش کرا
دیتے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ میڈیا جعلی ڈگری والوں کا کھوج لگائے یہ
دوغلہ پن کیسا....؟؟؟)اور میاں نواز شریف آپ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم جعلی
ڈگری والوں کو پارٹی بلیک میل کرنے کی اجازت نہیں دیں گے....؟؟مگر میرا
خیال یہ ہے کہ میاں صاحب! یہ جعلی ڈگری والے تو بڑے پاورفل نکلے .... وہ تو
پہلے ہی آپ کا حکم ہی نہیں مان رہے ہیں اور یہ مٹھی بھر جعلی ڈگری والے آپ
کو، آپ کے بھائی کو اور آپ کی پارٹی کو مسلسل بلیک میل کررہے ہیں اِس پر آپ
اور آپ کے بھائی خاموش ہیں آخر ایسا کیوں ہے......؟؟؟
ویسے یہ تو حقیقت ہے کہ گزشتہ62سالوں سے پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے
کہ اِس مملکت ِ خداداد کے حکمرانوں، سیاستدانوں، اپوزیشن ومذہبی جماعتوں
اور ملک کے فلاحی اداروں کا دوغلہ پن ہی اِس کی ترقی اور خوشحالی میں سب سے
بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے میں اَب بھی یہ سمجھتا ہوں کہ اگر آج بھی یہ سب
اِس(دوغلے پن کے) ناسور سے نکل جائیں اور اپنی اِس عادت کو چھوڑ دیں تو
کوئی وجہ نہیں کہ ہمارے ملک میں بھی ترقی اور خوشحالی کی راہیں یوں نہ کھل
جائیں جیسی دنیا کے اَن ممالک میں کھل چکی ہیں جہاں کے حکمران، سیاستدان،
اپوزیشن، مذہبی جماعتیں اور اُس ملک میں فعل چھوٹے بڑے فلاحی ادارے (دوغلے
پن کی غلیظ عادت )سے آزاد رہ کر اپنے اپنے مؤقف پر قائم ہیں اور سب اپنے
دائرہ کار میں رہ کر صاف وشفاف طریقے سے اپنے ملک اور قوم کی ترقی اور
خوشحالی کے لئے اپنی ذمہ داریاں اَحسن طریق سے نبھا رہے ہیں اور اپنے ملک
کو ترقی دے رہے ہیں۔ مگر انتہائی افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے
یہاں ایسا کچھ نہیں ہے بلکہ ہم اور ہمارے حکمران، سیاستدان، اپوزیشن، مذہبی
جماعتیں اور سماجی فلاحی ادارے ہاتھی کے اُس دانت کے ما نِند ہیں جو کھانے
کے کچھ اور دکھانے کے کچھ ہوتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ہمارے ملک میں حکمرانوں سے
لیکر ایک عام مزور تک کا یہ عالم ہے کہ یہ کہتے کچھ مگر کرتے کچھ ہیں۔ یعنی
یہ کہ ہم سب اپنے اپنے دائرے میں رہ کر مختلف طریقوں سے جعل سازی اور فراڈ
کا سہارا لے کر ملک اور قوم کی خدمت کے نام پر اپنی ذمہ داری کی گاڑی
زبردستی کی کھینچے جارہے ہیں اور اُوپر سے یہ کہ اگر کسی نے ہمیں سیدھا
راستہ دکھانے اور صحیح بات سمجھانے کی کوشش کی تو اُلٹا اِس پر ہی راشن
پانی لے کر چڑھ دوڑنے کی ایک ایسی غلط اور گندی عادت بھی ہم پاکستانیوں میں
پیدا ہوگئی ہے کہ ہم کسی کی اچھی بات بھی سننے اور برداشت کرنے کو تیار
نہیں...اپنی اِس حرکت پر کیا کبھی کسی نے سوچا....؟یا یہ سوچنے کی کوشش بھی
کی کہ ہماری یہ بُری عادت نہ صرف ہمارے ہی لئے نہیں بلکہ ہمارے ملک اور قوم
کے لئے بھی کتنی نقصان کا باعث بن سکتی ہے.....؟ یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ
شائد کسی نے بھی اِس جانب غور و فکر کرنا گوارہ ہی نہیں کیا ہے ....تب تو
ہم کسی کی کوئی اچھی بات برداشت کرنا تو درکنار اُسے سُننا ہی نہیں
چاہتے......
اَب اِسی کو ہی لے لیجئے! جب ہمارے ملک کے آزاد میڈیا نے کچھ اراکین
پارلیمنٹ کی اہلیت سے متعلق اِن کی حاصل کی گئیں جعلی ڈگریوں کے بارے عوام
کو سچائی سے آگاہ کیا تو ہمارے یہ اراکین جنہوں نے کسی بھی طریقے سے اپنے
آپ کو ایوانوں تک پہنچانے اور ہمارا مسیحا بننے کے بہانے قومی خزانے سے
اپنی عیاشیوں کے لئے دولت لوٹنے کا خواب دیکھا تھا جس کے لئے اُنہوں نے یہ
جعلی ڈگریاں حاصل کیں تھی اِس پر اِن جعلی ڈگری والے اراکین نے میڈیا کو
سبق سکھانے اور اِسے لگام دینے کے لئے گزشتہ دنوں ایک ایسا حربہ استعمال
کیا کہ جس سے دنیا دنگ رہ گئی کہ اِن جعل سازوں نے پنجاب اسمبلی میں اپنی
نوعیت کی انوکھی اور حیران کن میڈیا کے خلاف ایک ایسی متفقہ قرار داد منظور
کی گئی جس میں جعلی ڈگری حاصل کرنے والے وہ تمام اراکین پنجاب اسمبلی شامل
تھے جن کا تعلق بھلے اقتدار جماعت سے تھا یا حزب اختلا ف سے وہ آگ بگولہ
ہوگئے اور آتش فشاں کی طرح پھٹ گئے اور سب نے اپنے اپنے مفادات کا تحفظ
کرنے کے لئے میڈیا کے خلاف اپنے اتحاد کی ایک ایسی زنجیر بنائی اور میڈیا
کے خلاف اپنے متعلق عوام کو حق و سچ آشکار کرنے پر ایک متفقہ اقرارداد پیش
کی جس میں جعلی ڈگری والے اراکین پنجاب اسمبلی یہ مؤقف سامنے لائے کہ
جمہوریت اور سیاستدانوں کے خلاف پروپیگنڈہ بند کیا جائے اور کیونکہ ذرائع
ابلاغ کے بعض حصے غیر ذمہ دارانہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں اِس کے بعد یہ قرار
داد بھاری اکثریت سے منظور کرلی گئی۔ جعلی ڈگری والوں کے اِس رویے سے ایسا
محسوس ہوتا ہے کہ وہ اِس قسم کے حربے استعمال کر کے اپنی مرضی میڈیا اور
قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں اِسی لئے ایسے لوگوں کے لئے فرانسس بیکن کہتا
ہے کہ اُس شخص سے بچو جو اپنی بُرائیاں لوگوں میں فخر سے بیان کرتا ہے“۔
یہاں میرا یہ کہنا ہے کہ پارلیمنٹ میں موجود اے! جعل سازوں میڈیا سے ملک،
جمہوریت اور عوام کو کوئی خطرہ نہیں اصل میں میڈیا سے خطرہ تم لوگوں کو ہے
جو میڈیا سے اوجھل رہ کر ملک کو نقصان پہنچانا اور قومی خزانہ دونوں ہاتھوں
سے لوٹنا چاہتے ہو۔ اِسی لئے تم لوگوں نے میڈیا پر پابندی لگانے کا یہ حربہ
استعمال کیا ہے جس کی ہر سطح پر آج پُرزور مذمت کی جارہی ہے۔
اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ آج نہ صرف ملک میں بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کے
اراکین پارلیمنٹ کی جعلی ڈگریوں سے متعلق جو غلغلہ زبان ِ عام ہے اِس سے
جہاں پاکستانیوں کا اپنے اراکین پارلیمنٹ پر سے اعتماد اور اعتبار اٹھ چکا
ہے تو وہیں دنیا بھر میں پاکستانیوں کا امیج بھی بُری طرح سے مجروح ہوکر رہ
گیا ہے آج اراکین پارلیمنٹ کی اِس جعل سازی اور فراڈ کی وجہ سے ایسا محسوس
ہوتا ہے کہ جیسے پاکستان جعل سازوں کا گڑ اور فراڈیوں کی آمجگاہ بن گیا ہے
جہاں ہر قدم اور ہر لمحہ فراڈی افراد اسمبلیوں میں بیٹھ کر ملک کے سیدھے
سادے ساڑھے سولہ کروڑ عوام کو اپنی جعل سازیوں سے بے وقوف بناکر اپنا
کاروبارِ زندگی جاری رکھے ہوئے ہیں اور آج اِن جعلی ڈگریوں والے اراکین
پارلیمنٹ کے اِس فعلِ شنیع کی وجہ سے ہی ملک کا ہر فرد اِن سے کھٹکا کھانے
لگا ہے۔ ایک بار ایک شخص نے رسول ﷺ سے سوال کیا : یارسول اللہ ﷺ گناہ کیا
ہے...؟ اِس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔” جو دل کو کھٹکے“تو اَب سمجھ لو کہ جو
دل کو کھٹکے تو گناہ ہے اور ہمارے اِن جعلی ڈگری والے اراکین پارلیمنٹ نے
وہ گناہ کیا ہے وہ بھی ناقابلِ معافی ہے۔ اِسی طرح اِس کے گناہ اور جعل
سازی کی وجہ سے عوام کا اِن پر سے اعتماد اور اعتبار ختم ہوگیا ہے اور
اعتماد ایک ایسی چیز کا نام ہے جس سے متعلق کہا جاتا ہے کہ اعتماد وہ انمول
نگینہ ہے جِسے بس ایک بار ٹھیس پہنچ جائے تو پھر وہ اپنی اصلی حالت میں
نہیں آسکتا۔ اور اِس کے بعد یہ جعلی ڈگری رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ کے
لئے کتنے شرم اور ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جاتا ہے
کہ کتنا بُرا ہے وہ انسان جو اِس بات کی پروا ہی نہ کرے کہ لوگ اِسے بُرا
کہتے ہیں۔ اور اپنی دھن میں لگا رہے تو ایسا شخص معاشرے کے لئے تباہی کا
باعث ہوسکتا ہے اور اِسی طرح بدی کرنے والا اگر اپنے کئے پر پشیمان نہیں
ہوتا تو اِسے یاد رہے کہ وہ بدی کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔
اور آخر میں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اراکین پنجاب اسمبلی کا ڈنکے کے زور پر
اِن کے جعلی ڈگری سے متعلق کرتوتوں کو عوام کے سامنے لانے والے میڈیا پر
پابندی لگانے کا گھناؤنا عمل اِن کے زوردار الفاظ اور تلخ کلامی کمزور
استدلال کی دلیل ہے۔ اور اِسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ دلائل جتنے کمزور ہوں
گے الفاظ اتنے ہی سخت ہوں گے۔ اِس موقع پر سائرس کا مجھے یہ قول یاد آرہا
ہے کہ نااتفاقی اور تکرار میں سب سے پہلے سچائی کا ہی گلا گھونٹا جاتا ہے۔
اور اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کے اِن اراکین پارلیمنٹ جن کے پاس
جعلی ڈگری ہے اُنہوں نے اپنے کمزور استدلال کی دلیل اور تکرار سے اپنے
متعلق عوام کو حق و سچ بتانے والے میڈیا کے خلاف سخت رویہ اپنا کر سچائی کا
گلا گھونٹ دیا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اِن جعلی ڈگری والے اراکین
پارلیمنٹ کو اپنے متعلق یہ حقیقت عوام کے سامنے آجانے پر خاموشی سے استعفیٰ
دے دینا تھا جس سے اِن کی پردہ پوشی بھی قائم رہ جاتی اور میڈیا کا بھی
حوصلہ بلند ہوتا اور یہ بھی اپنی ذمہ داریاں مزید بہتر طریقے سے انجام
دیتا۔ |