’’سیاسی بازی گری کی مجبوریاں الگ چیز ہے۔
حقائق کا سامنا دوسری چیز ہے۔ بھاجپا کو سمجھ لینا چاہیئے کہ وجوہات سے قطع
نظر زمینی حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں جنگجویانہ سرگرمیوں کو عوامی پشت پناہی
مل رہی ہے۔ لوگ مجاہدین کو پناہ دیتے ہیں۔ ان کو چندہ دیتے ہیں۔ ان کی
حفاظت کرتے ہیں۔ وہ محاصرے میں پھنس جائیں تو ان کو چھڑانے کے لئے بھارتی
فوج پر سنگ باری کرتے ہیں۔ ان پر ڈندوں سے حملہ آور ہوجاتے ہیں۔ تصادم میں
مارے جائیں تو جلوس جنازہ میں عوامی ہجوم امڈآتا ہے۔ ‘‘
یہ حقائق سرینگر سے شائع ہونے والے اخبار روزنامہ چٹان نے اپنے تازہ اداریہ
میں پیش کئے ہیں۔ جو ’’بھاجپا کی ریاستی شاخ کا جنگی جنون‘‘کے زیر عنوان
شائع ہو اہے۔ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی
کے ارکان نے جب پاکستان کے خلاف نعرہ بازی کی ، آزاد کشمیر پر حملے کا
مطالبہ کیا ۔ یہ اسی تناظر میں لکھا گیا ہے، اس اداریہ سے کئی روز قبل ہم
نے ’’آزاد کشمیر پر بمباری کی دھمکی ‘‘ کے عنوان سے ایک کالم میں بے جے پی
حکومتی ارکان کے آزاد کشمیر پر حملہ کے مطالبے کو زیر بحث لایا ۔ جب کہ زیر
نظر حقائق کو وقتاً فوقتاً اجاگر کیا گیا۔
عوام کشمیر کی تحریک کے پشتبان ہیں۔ وہی اسے آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔
خاندانوں کے خاندان تحریک پر قربان ہو چکے ہیں۔ 28سال سے عوام نے اپنا سب
کچھ اس تحریک پر نچھاور کر دیا ہے۔ مسلح جدو جہد کی تیسری دہائی میں بھی
لوگ مایوس نہیں۔ ان کا عزم ہے کہ انہیں آزادی کی منزل ضرور ملے گی۔ یہ ان
کا پختہ یقین ہے ۔ عوام کے ان پر عزم جذبات کا نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی
سمیت دیگر سیاستدان استحصال کرتے ہیں۔ عوام کے نام پر ہی حریت پسند قائدین
بھی تقسیم در تقسیم ہیں۔ پالیسی اور سٹریٹجی چاہے کچھ بھی ہو۔ یہ حقیقت
سمجھ لینی چاہیئے کہ ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘کے فارمولے کے برعکس اس
تقسیم کا سب سے زیادہ نقصان اور گھاٹا کشمیر اور پاکستان کو ہو رہا ہے۔
بھارت کو اس کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ڈیڑھ اینٹ کی مساجد تعمیر کرنے سے آزادی
دشمنوں کا بھلا ہوتا ہے۔ قوم خلفشار میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ پہلے سیکروں
مسلح تنظیمیں وجود میں آئیں۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ یہ دشمن کے بجائے ایک
دوسرے کے خلاف صف آراء ہونے لگیں۔ ان کی توانائیاں یوں ضائئع ہوئیں۔ ان کے
اہداف ہاتھ سے نکل گئے۔ پھر بھی ان سب حالات اور خانہ جنگی جیسی کیفیت کے
باوجود کشمیری تہذیب نے انہیں محتاط رہنے پر آمادہ کیا۔ انہیں غلطی کا
احساس ہو گیا۔ آپسی لڑائیاں ختم ہو گئیں۔ لیکن ایک چنگاری یہاں ڈال دی گئی
ہے۔ یہ ایک دوسرے پر شہری دیہی زندگی اور لسانی برتری کی چنگاری ہے۔ جو آج
بھی سلگائی جاتی ہے۔ اگر مختلف عناصر احساس کر لیں۔ اس پیچیدگی کو حل کیا
جائے۔ مفروضوں کو آپسی رسہ کشی سے الگ کیا جائے۔ تو بات اب بھی بن سکتی ہے۔
یہاں اس انتشار کا ایک تسلسل موجد ہے۔ پہلے جو لوگ بندوق کو ہی سب کچھ
سمجھتے تھے۔ وہی بعد ازاں گفتگو پر بھی آمادہ ہوئے۔ سفارتی کاری اور ابلاغ
پر بھی توجہ دی جانے لگی۔ مگر کسر ابھی باقی ہے۔ کیوں کہ ان سب عناصر کو
معاون و مددگار بنانے کے بجائے انفرادی یا گروہی حد تک ہی محدود کیا جا تا
ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جو کامیابی میدان جہاد میں حاصل کی
جاتی ہے۔ اس کو نتیجہ خیز بنانے پر کم توجہ دی جاتی ہے۔ اسے دوسرے گروہ کے
کارنامے کے بجائے اس کی خامیوں کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ لوگ مختلف
بریفنگز میں دوسروں کی کامیابیوں کو ناکامیوں کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ جو
کام بھارت کو کرنا ہوتا ہے وہ یہ خود ہی انجام دیتے ہیں۔ اس طرح فائدے میں
بھارت ہی رہتا ہے۔
چٹان نے حقائق بھارت کے لئے پیش کئے ہیں۔ اس نے بھاجپا کو زمینی صورتحال
سمجھنے کی دعوت دی ہے۔ اس کا موقف یہ ہے کہ بھارت کی جانب سے فوجی ہتھکنڈے
کافی نہیں اور نہ پاکستان سے پنگا لینا مسلے کا علاج ہے۔ محفوظ راستہ اگر
ہے تو بس یہ کہ مسلے کی نزاکت کو سمجھ کر ڈائیلاگ کے دروازے کا قفل توڑ دیا
جائے اور پاک و بھارت کو سنجیدہ مکالمے پر تیار کیا جائے۔ یہ تجویز صائب ہے۔
ہر باشعور اور انسانیت کا ہمدرد فرد اسی لائن پر سوچتا ہے۔ بھارتی حکمرانوں
کا جنگی جنون صرف عوام کو مشتعل کرنا ہے۔ عوام کو ترقی کے راستے سے ہٹا کر
ان کے جذبات کو مشتعل کرنے سے ان حکمرانوں کا مقصد تباہی پھیلاکر اقتدار کو
تحفظ دینے کے سوا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔
آ ج جب کہ پاکستان اور بھارت نے ایٹمی تنصیابات اور اور قیدیوں کی فہرستوں
کا تبادلہ کیا ہے۔ جو کہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ دونوں ایٹمی تباہ
کاریوں سے واقف ہیں۔ وہ یہ سمجھ تے ہیں کہ زرا سی حماقت پور ے خطے کی تباہی
کا پیش ضیمہ ثابت ہو گی۔ ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ بھی اسی وجہ
سے کیا جا تا ہے تا کہ کسی غلطی سے کوئی ایٹمی گھر نشانہ بن نہ سکے۔ بھارت
کو کشمیر کی زمینی صورتحال اور حقائق سے ثشم پوشی نہیں کرنی چاہیئے۔ ابھی
برطانیہ میں بھی ریفرنڈم ہو ا ہے۔ بھارت سے یہ کوئی نہیں کہتا کہ وہ مقبوضہ
کشمیر کو پاکستان کے حوالے کر دے۔ بلکہ یہ کہا جا رہا ہے کہ عوام کی رائے
پوچھی جائے۔ بھارتی انتخابات اس عوامی ریفرنڈم کا متبادل نہیں ہو سکتے۔
بھارتی پالیسی سازجب زمینی حقائق کی جانب توجہ دیں گے تو پاک بھارت جنگ کے
امکانات کے بجائے ترقی کے امکانات کی توقع کی جا سکے گی۔ سوال صرف زمینی
حقائق کو تسلیم کرنے کا ہے۔
|