واپسی!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
حکومت تقریباً پنتالیس روز سے اپنے سربراہ
کے بغیر چل رہی تھی، کہ صاحب نے دردِ دل پال لیا تھا، یہ درد چونکہ زندگی
کی بقا کے لئے خطرناک ہوتا ہے، اس لئے اس کا مداوا ضروری تھا۔ وزیراعظم نے
اس درد سے جان خلاصی کے لئے انگلستان کا انتخاب کیا، کہ وہاں کے ڈاکٹرمیاں
صاحب کے دل کے رموز سے پہلے سے واقف تھے۔سعودی عرب کے زمانے میں بھی یہی
درد ایک آدھ مرتبہ جاگا تھا، لندن کے ڈاکٹروں نے اس کا بندوبست کر دیا تھا،
کئی سال بعد ایک مرتبہ پھر اسی درد نے سر اٹھایا تولندن کے ڈاکٹروں کی
ضرورت پیش آئی۔ میاں صاحب تو سنا ہے چیک اپ کے بعد واپس آنا چاہتے تھے، مگر
ڈاکٹروں نے اجازت نہ دی۔اوپن ہارٹ سرجری ہوئی، پاکستان میں بیسیوں بکروں کی
قربانی دی گئی، قوم کی دعائیں رنگ لائیں اور بکروں کا صدقہ اﷲ تعالیٰ کے
ہاں شرفِ قبولیت پا گیا، سربراہِ حکومت چند روز میں ہی چلنے پھرنے، واک
کرنے اور شاپنگ وغیرہ کرنے کے قابل ہو گئے، ان کی اس قدر تیز رفتاری سے
بہتر ہوتی ہوئی صحت کو دیکھ کر مخالفین نے اس آپریشن پر ہی شکوک کا اظہار
کردیا۔
وزیراعظم کی غیر موجودگی میں حکومت کا بندوبست اُن کے ایک عزیز وفاقی وزیر
نے سنبھالے رکھا، اگر چہ ان کا رویہ کسی کو بھی پسند نہیں آیا ، کہ اپوزیشن
کا تو کام ہی تنقید ہے، خود ’ن‘ لیگ کے ارکان اسمبلی بھی موصوف کی تقریر کے
دوران واک آؤٹ کر گئے، اُن کی طرف سے دی گئی افطار پارٹی میں بھی نہ گئے،
اور پھر روایت کے عین مطابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے کہنے پر
ناراضگی ختم کرکے اپنی ڈگر پر واپس آگئے۔ یوں وزیراعظم کی عدم موجودگی میں
دو افراد نے ہی نظامِ حکومت چلایا، ایک اسحاق ڈار کہ بجٹ کا زمانہ تھا ، یا
یوں کہیے کہ اسحاق ڈار کا زمانہ تھا، بجٹ بناتے، ٹیکس لگاتے، غریبوں کا
تمسخر اڑاتے، مہنگی دال والوں کو مرغی کھلاتے، اسحاق ڈار نے بجٹ منظور
کروالیا۔ بہت سے امور مریم نواز کے ہاتھ میں بھی ہیں، فیصلے ان کی مرضی سے
ہوتے ہیں، یہ بھی جمہوریت کا حُسن ہی ہے ، کہ سیاست میں وراثت تو تھی ہی ،
اب حکومت میں بھی وراثت کا کلچر فروغ پا رہا ہے۔ وزیراعظم اپنی صاحبزادی کو
تربیت کا موقع دے رہے ہیں،یہی جمہوریت کا فطری تقاضا ہے۔ مسلم لیگ ن کا
خیال تھا کہ وزیراعظم کی آمد کے موقع پر تاریخی استقبال کیا جائے، دس لاکھ
افراد کے اکٹھا کرنے کی منصوبہ بندی ہوئی تھی، تاہم بعد ازاں قیادت کے
مشورے پر یہ منصوبہ ختم کردیا گیا۔ اگر استقبال ہوتاتو حکومت کو مزید تنقید
کا سامنا کرنا پڑتا، اگر نہیں کیا جاتا تو حکومت کے بارے میں نرم گوشہ پیدا
ہو سکتا ہے۔ تاہم اب بھی ایک سو کے قریب افراد اس بوئنگ طیارے پر آئیں گے،
جن میں وزیراعظم کے خاندان کے افراد کے علاوہ ان کے عملہ کے لوگ اور وہ
قریبی افراد جو وزیراعظم کی عیادت کے لئے لندن گئے ہوئے تھے۔ سو کے قریب
افراد کو لینے جانے والے اگرا ستقبال کا ماحول نہ بھی بنائیں تو ہزاروں لوگ
تو جمع ہو ہی جائیں گے۔ (یہ کالم وزیراعظم کا طیارہ اترنے سے پہلے لکھا گیا
)
دوسری طرف اپوزیشن بھی وزیراعظم کے استقبال کے لئے تیار ہے، وزیراعظم
پانامہ لیکس کے معاملے کے جہاں سے ادھورا چھوڑ گئے تھے، بات وہیں سے شروع
ہوگی، بیماری اور خوشی غمی توا نسان کے ساتھ ہے، مگر مسائل سے منہ موڑنا
ممکن نہیں، اس لئے حالات جیسے بھی ہوں پانامہ لیکس کا مسئلہ تو حل کرتے ہی
بنے گی۔ شاید ایک مرتبہ پھر ایسا ہنگامہ اٹھے گا کہ کان پڑی آواز سنائی
نہیں دے گی، اپوزیشن والے اپنے ڈھول بجائیں گے،حکومت اور اس کے حامی جوابی
ہنگامہ کریں گے، یوں اس ہنگامہ آرائی میں سچ اور حقیقت کہیں دب جائے گا،
کون سچا ہے، کون غلطی پر ہے، کون ظالم ہے، مظلوم کون ہے، کرپشن کس درجے پر
ہے، ایمانداری کی کہانی کہاں تک ہے؟ نقار خانے میں تُوتی کی آواز کون سنے
گا؟ عوام کچھ نہیں جان پائیں گے۔ ویسے بھی یار لوگ موجودہ حکومت کو بادشاہ
کہتے ہیں، حقیقت میں پاکستان کے عوام بادشاہ ہیں۔ جو جہاں کھڑا ہے، اسی کا
حامی ہے، اسی کی دلیلوں کو اپنے منہ کا لقمہ بناتا اور اسی کی جگالی کرتا
ہے، کیا وزیر ، کیا مشیر اور کیا حکومت کے حامی۔یہی کچھ اپوزیشن کا سامان
ہے۔ حبس زدہ موسم میں احتجاج کی سیاست ہوگی، دیکھیں کوئی نتیجہ نکلتا ہے،
یا یہ طویل میچ ’ڈرا‘ ہوتا ہے،اور پاکستانیوں کی قسمت اور حالات جوں کے توں
رہتے ہیں۔ |
|