آزاد کشمیر الیکشن،ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں!

رمضان کے مہینے میں اور عید کی چھٹیوں کے دوران بھی الیکشن مہم اپنے انداز میں جاری رہی اور ساتھ ہی سیاسی جماعتوں کو چھوڑنے اور شامل ہونے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ تاہم آزادکشمیرکے الیکشن میں کامیابی کے لئے الیکشن مہم کے آخری ہفتیسیاسی جماعتوں کے درمیان مخالفانہ کشمکش میں شدت آنے کے امکانات ہیں۔پیپلز پارٹی کے لئے بلاول بھٹو فریال تالپور سمیت مرکزی رہنما،مسلم لیگ(ن) کے لئے وزیر اعظم پاکستان کے سیاسی امور کے مشیر آصف کرمانی ، امور کشمیر اور اطلاعات و نشریات کے وفاقی وزراء برجیس طاہر اور پرویز رشیدانتخابی مہم کے سلسلے میں آزاد کشمیر کے مختلف شہروں کے دورے کر رہے ہیں،جبکہ عمران خان نے بھی دوروں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔آخری ہفتے کی انتخابی مہم خصوصی اہمیت کی حامل ہے کہ اسی دوران ووٹروں کے رجحانات قطعی طور پر طے ہوں گے اور تینوں سیاسی جماعتوں کے مرکزی رہنماؤں کے جلسے سیاسی جماعتوں کی ہر ضلع میں قوت کو ظاہر کریں گے۔بلاول بھٹو نے آزاد کشمیر کے مختلف شہروں میں ہونے والے جلسوں میں سیاسی مخالفت سے بڑھ کر ،وزیر اعظم نواز شریف اور مسلم لیگ(ن ) پر ملک دشمنی کے الزامات لگائے ہیں اور آزاد کشمیر کے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کوہندوستانی وزیر اعظم مودی کی کامیابی سے تعبیر کیا ہے۔یوں پیپلز پارٹی کے مرکزی سربراہ کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف پر بھارتی وزیر اعظم مودی کی دوستی میں ملکی مفادات کو نقصان پہنچانے کے الزامات سے واضح ہو اہے کہ پیپلز پارٹی آزادکشمیر کے الیکشن میں کامیابی کے لئے سیاسی حریفوں پر ملک دشمنی کے الزامات کے لگاتے ہوئے مخالفت کی انتہاؤں کو پہنچ چکی ہے۔کچھ ہی عرصہ قبل ہندوستان کی ایک ریاست میں بھی اسمبلی الیکشن کے وقت ’بی جے پی‘‘ نے سیاسی مخالفین کی کامیابی کو پاکستان کی فتح سے تعبیر کیا تھا۔یوں نوجوان بلاول بھٹو زرداری رونمائی کے جلسوں کے ذریعے سیاست میں آمد کے بعد سیاسی مخالفین کو ملک دشمن،ہندوستان دوست قرار دیتے ہوئے انتہا پسند ی،غیر سنجیدگی اور غیر ذمہ داری کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔

میر پور ڈویژن کے اضلاع،میرپور ،بھمبر،کوٹلی کی12،پونچھ ڈویژن کے راولاکوٹ،پلندری،باغ اور فاروڈ کہوٹہ اضلاع کی 10 ، مظفر آباد ڈویژن کے اضلاع مظفر آباد،نیلم،ہٹیاں بالا کی7سیٹیں اور مہاجرین جموں و کشمیر مقیم پاکستان کی12سیٹوں پر الیکشن کے نتائج سے نئی حکومت کا فیصلہ ہو گا۔تین سیاسی جماعتوں کے مقابلے کے باوجود کامیاب ہونے والے آزاد امیدوار حکومت سازی کے لئے تعداد پوری کرنے کے حوالے سے اپنے روائیتی کردار کے ساتھ نظر آئیں گے۔اس الیکشن میں آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد جو پاکستان کے مختلف شہروں میں آباد ہیں،کی ایک بڑی تعداد نے اپنے ووٹوں کا اندراج جموں کے حلقوں میں کرایا ہے۔مسلم لیگ (ن) نے آزاد کشمیر پیپلز پارٹی(خالد ابراہیم) اور جماعت اسلامی کے ساتھ اور تحریک انصاف نے مسلم کانفرنس کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا ہے۔اس الیکشن میں آزاد کشمیر کے نیک نام سیاستدانوں میں شامل سردار خالد ابراہیم اور جماعت اسلامی آزاد کشمیر کو اسمبلی میں آنے کا موقع ملا ہے۔یوں آزاد کشمیر میں روایت سے ہٹ کر اس مرتبہ تین سیاسی جماعتیں(پیپلز پارٹی،مسلم لیگ(ن) اور تحریک انصاف) میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے درمیان ہی متوقع ہے۔اس الیکشن کی ایک اہم بات مسلم کانفرنس کا سیاسی مستقبل بھی ہے۔مسلم کانفرنس کے بزرگ رہنما سیاب خالد اس وقت رکن اسمبلی بھی ہیں لیکن مسلم کانفرنس نے ان کی جگہ صغیر چغتائی کو ٹکٹ دے دیا جس پر سیاب خالد نے آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے۔مسلم کانفرنس اپنی بقاء کے مسئلے سے دوچار ہے اور اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) اور پھر پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد میں ناکامی پر ’پی ٹی آئی‘ سے اتحاد کا انتہائی اقدام پر مبنی فیصلہ کیا گیا ہے۔

آزاد کشمیر اسمبلی کے یہ الیکشن ایسی صورتحال میں ہو رہے ہیں کہ جب پیپلز پارٹی کی رواں حکومت کی بدعنوانی اور اقرباء روری نے آزاد کشمیر کے سرکاری ڈھانچے کو بھی شدید طور پر متاثر کیا ؂اور اس حکومت میں عوامی مشکلات کے خاتمے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔یوں یہ’’ اعزاز ‘‘ بھی پیپلز پارٹی کو ملتا ہے کہ اس نے پہلی مرتبہ اپنے پارٹی کے مرکزی رہنماؤں کوتعیناتیوں، تقرریوں،تبادلوں اور جلسوں وغیرہ کے نام پر بھاری رقوم دینے کا سلسلہ شروع کیا۔پیپلز پارٹی حکومت کی دھڑلے سے کی جانے والی بدعنوانیوں اور نااہلی سے سیاسی اور سماجی طور پر بھی برے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کرنے والے نوجوان آزاد کشمیر کے اس چلن سے نالاں اور پریشانی کا اظہار لئے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی طرف سے بہتری کے مختلف اقدامات،طرز حکومت تجویز تو کرتے ہیں لیکن ان کی طرف سے یہ بنیادی حقیقت نظر اندازکی جاتی ہے کہ آزاد کشمیر میں طرز حکومت اور آزاد خطے کے معاملات پاکستان کی وفاقی حکومت کی ایسی صوابدید ہیں جس میں آزاد کشمیر کی کوئی مشاوت شامل نہیں ہوتی اور آزاد کشمیر کے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کی اولین ترجیحات میں اس طرح کی کوئی سوچ ،سرگرمی نظر نہیں آّتی کہ آزاد کشمیر میں تحریک آزادی کشمیر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ایک با اختیار، ذمہ دار اور باوقار حکومت قائم ہو۔دوسرے الفاظ میں آزاد کشمیر کا سیاسی چہرہ اس طرح کی سوچ پر مبنی مطالبات میں نا صرف عدم دلچسپی لئے بلکہ اس کی اہلیت سے بھی محروم نظر آتا ہے۔

الیکشن مہم میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان نفرت آمیز مخالفانہ بیانات کا تبادلہ تو ہو رہا ہے لیکن اس کے باوجود الیکشن کے بعد حکومت بنانے کے کوشش کے طور پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے درمیان اتحاد کے تانے بانے بننے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔مختصر یہ کہ مسلم لیگ(ن) کو آزاد کشمیر میں حکومت بنانے سے روکنے کے لئے تمام مخالف جماعتیں ہر انتہا کو جانے کو بے تاب نظر آ رہی ہیں۔غیر جانبدارمبصرین کا کہناہے کہ اگر مسلم لیگ(ن) کی حکومت قائم نہ ہوئی تو آزاد کشمیر کا خطہ آئندہ پانچ سال بھی بری طرح متاثر ہو گا۔2011ء کا الیکشن مسلم لیگ(ن) نے اپوزیشن میں بیٹھنے کے لئے ہی لڑا تھا تاہم 2016کے الیکشن میں مسلم لیگ(ن) آزاد کشمیر میں حکومت بنانے کے لئے سازگار ماحول رکھتی ہے اور حکومت بنانے کے لئے پرعزم ہے۔مسلم لیگ(ن)آزاد کشمیر کی طرف سے سیاسی اور سرکاری بدعنوانی کے خاتمے ،انصاف کے میرٹ کی بالادستی ،تعمیر و ترقی اور بڑے منصوبوں کے عزم کا اظہار تو ہو رہاہے تاہم حقیقی طورمسلم لیگ(ن) کااصل امتحان حکومت میں آنے کے بعد شرو ع ہو گا۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت بننے کی صورت حکومت کی تشکیل،تشکیل کے میرٹ اورحکومتی ٹیم کے انتخاب سے ہی معلوم ہو جائے گا کہ مسلم لیگ(ن) کا عزم اور عمل ایک ہی پیج پہ ہیں یابیان،تاثر اور عمل میں فرق ہے!آزاد کشمیر میں ا چھی ،نظریاتی روایات کی ترویج کی جائے گی یا روائیتی سیاسی مصلحتوں کی پیروی کی جائے گی؟آزاد کشمیر میں اختیارات،وسائل و دیگر امور سے متعلق خطے کے امور کے حوالے سے بہتری کے علاوہ یہ بات بھی بنیادی اہمیت کی حامل ہو گی کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا میرٹ کیا طے کیا جائے گا اور حکومت کو کس ٹیم کے ساتھ کس طور چلایا جائے گا۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699494 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More