زہریلی زبان پر پابندی ؟

ہاں یہ حقیقت ہے کہ جب سے ملک میں نئی حکومت بنی ہے اس وقت سے شر پسند عناصر کے حوصلے بلند ہیں ۔وہ تو خود حکومت وقت کو چیلنج کررہے ہیں۔جگہ جگہ مسلح ٹریننگ کیمپ کھل رہے ہیں اعلی العلان مسلح وج بنانے کی بات ہو رہی ہے ،کسی خاص فرقے کے خلاف بیان بازی ہو رہی ہے ،وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو کسی بھی حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔اگر یہی حال رہا تو وہ حکومت وقت سے بھی دو دو چار کرنے میں گریز نہیں کریں گے ۔ابھی حال ہی میں متھرا میں کیا ہوا ،اس کا نظارہ دنیا نے کیا ،اس سے قبل پال بابا نے چیلنج کر کے اپنے قلعے پر حفاظتی مسلح افراد کو کھڑا کر رکھا تھا اس کا بھی نظارہ پوری دنیا نے کیا ۔یہ سب کیا ہے ؟اسی کو تو کھتے ہیں حکومت کے خلاف بغاوت ،یہ عناصر اسی طرح پروان چڑھتے ہیں ۔اپنے بیان بازی کے ذریعے وہ جارح بن جاتے ہیں اور پھر حکومت کو حزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔لیکن سوال یہ ہے کہ سادھوی پراچی اور ان کے ہم خیال اور ہم نظریہ رہنماؤں کے بیانات کو کتنی سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے کیونکہ نہ ایسی بات پہلی مرتبہ کہی گئی ہے، اور نہ مسلمانوں کو پاکستان یا کہیں اور چلے جانے کا یہ آخری مشورہ ہوگا۔اس کے لیے ہندوستان کے سیاسی منظرنامے کو سمجھنا ضروری ہے۔ یہاں ایک طبقہ ’جارح مسلمان بادشاہوں کی ایک ہزار سال کی حکمرانی‘ کا نام و نشان مٹانا چاہتا ہے اور وقفے وقفے سے اس نوعیت کے اشتعال انگیز بیانات دینے والے رہنما اسی نظریہ اور نصب العین کی عکاسی کرتی ہیں۔لیکن یہ بیان دینے والوں کو بھی معلوم ہے اور جن کے لیے یہ بیان دیے جاتے ہیں انھیں بھی، کہ کوئی کہیں نہیں جائے گا۔تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ ان کا مقصد صرف مذہب کی بنیاد پر صف بندی کرنا ہے تاکہ انتخابات میں اس کا فائدہ اٹھایا جا سکے اور یہاں عام تاثر یہ ہے کہ آئندہ برس اتر پردیش کے اسمبلی انتخابات مکمل ہونے تک اس طرح کے بیانات سے سیاسی ماحول کو گرم رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ہندوستان کی سیاست میں اتر پردیش کی خاص اہمیت ہے، یہاں مسلمانوں کی سب سے زیادہ آبادی ہے اور روایتی طور پر جو اتر پردیش کو کنٹرول کرتا ہے، دہلی پر اسی کا راج ہوتا ہے۔اس لیے اتر پردیش کی اس انتخابی جنگ میں تاریخ اور مذہب دونوں سے جس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، اٹھایا جائے گا۔شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ اس طرح کے بیانات کو سنجیدگی سے نہیں لیتے لیکن دیہات میں، جہاں ہر چوپال پر سیاسی بحث مباحثے ہوتے ہیں، کوئی کسی کی کہی ہوئی بات نہیں بھولتا۔ اور اس کا خطرہ یہ ہے کہ مذہبی کشیدگی بڑھتی جاتی ہے، اور جو نقصان ہوتا ہے چاہ کر بھی الیکشن کے بعد اس کی تلافی نہیں کی جاسکتی۔سوال یہ ہے کہ اس طرح کے بیانات کو روکا کیسے جائے۔ ماضی میں جب بی جے پی کے کچھ سینیئر رہنماؤں نے ان مسلمانوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا جو وزیراعظم نریندر مودی کو پسند نہیں کرتے، یا گاؤ کشی کے نام پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا، تو تجزیہ نگاروں کا یہ مشورہ تھا کہ وزیراعظم کو پہل کرنی چاہیے، وہ یہ واضح پیغام دیں کہ کوئی اشتعال انگیز بیان برداشت نہیں کیا جائے گا۔انھوں نے یہ تو کہا کہ ہندوستان میں ہر مذہب کے ماننے والوں کو برابر حقوق حاصل ہیں، لیکن کسی رہنما کے ِخلاف کارروائی نہیں کی گئی حالانکہ یوگی آدتیہ ناتھ جیسے بہت سے رہنماؤں نے کئی مرتبہ مہذب سیاسی بحث کی حدود کو پار کیا۔دوسرا مسئلہ ان قوانین کے اطلاق کا ہے جو نفرت آمیز بیانات کو روکنے کے لیے بنائے گئے ہیں۔ شاید ہی کبھی کسی بڑے رہنما کو نفرت پھیلانے کے جرم میں سزا ہوئی ہو۔سادھوی پراچی کا تعلق وشو ہندو پریشد سے تھا۔ وی ایچ پی اور حکمراں بی جے پی دونوں نے ان کے بیان سے کنارہ کشی اختیار کی ہے۔لیکن جب تک ان لوگوں کے دلوں میں، جنھیں اپنی زبان پر یا تو قابو نہیں یا وہ کرنا نہیں چاہتے، قانون کا خوف گھر نہیں کرے گا، اس طرح کی بیان بازی ہوتی رہے گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت اس پر سخت ایکشن لے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ثابت کرے کہ ملک میں کسی کو بھی کسی کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کی ہمت نہیں ہے ۔آج دو سال کی حصولیابی بتانے کی مہم چل رہی ہے اور اس مہم کو ناکام کرنے والے بیان بازی آزاد گھوم رہے ہیں ،ان جیسے لوگوں سے خود حکومت بدنام ہو رہی ہے اور حکومت کے لئے درد سر بننے کے علاوہ یہ حکومت کے لئے خطرہ ہیں اس لئے حکومت اپنے فرض کو پورا کرے یہی آرزو ہر ایک ہندوستانی کے دل میں ہے۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 112386 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.