دنیابھرمیں برطانیہ کوجمہوریت کی ماں
سمجھاجاتاہے اوریہ حقیقت بھی ہے کہ یہاں کے سیاسی جماعتیں انتخابات سے قبل
عوام کے سامنے جب اپناانتخابی منشورپیش کرتی ہیں توپھر کامیابی کی صورت میں
عوام سے کئے گئے وعدوں کوپورا کرنااپنافرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔
کنزرویٹوپارٹی نے انتخابی منشورمیں عوام سے آئندہ یورپی یونین میں رہنے
یارخصت ہونے کیلئے ریفرنڈم کا وعدہ کیاتھاجس پرعمل پیرا ہوتے ہوئے
بالآخربرطانوی عوام کی اکثریت نے تاریخی ریفرنڈم میں یورپی یونین سے
علیحدگی اختیار کرنے کے حق میں فیصلہ دے دیا۔ ووٹنگ کی شرح ۷۲ فیصدسے زیادہ
رہی جو۱۹۹۲ء کے الیکشن کے بعدسب سے زیادہ ہے۔ نتائج کے بعدبرطانیہ کے
وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ پرپریس کانفرنس میں اعلان کیاہے
کہ وہ اکتوبرمیں اپنے عہدے سے الگ ہوجائیں گے۔ کنزر ویٹوپارٹی کانفرنس کے
آغاز کے موقع پرملک میں نیاوزیراعظم ہونا چاہئے۔
اس تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق۵۲٪عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی اور۴۸٪نے
یورپی یونین کاحصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا،اس نتیجے کی صورت میں برطانیہ
یورپی یونین کو الوداع کہنے والاپہلاملک بن گیاہے،تاہم علیحدگی کے حق میں
ووٹ کامطلب برطانیہ کایورپی یونین سے فوری اخراج نہیں ہے،اس عمل میں کم
ازکم دوبرس لگ سکتے ہیں،وزیر اعظم ڈیوڈکیمرون نے کہاہے کہ وہ آنے والے
ہفتوں میں ملک کو سنبھالنے کیلئے کام کریں گے ،لیکن ان کے خیال میں یورپی
یونین کے ساتھ مذاکرات کاعمل ایک نئے کپتان کی سربراہی میں شروع ہوناچاہئے۔
ان کاکہنا تھا کہ ملک کواب نئے وزیراعظم کی ضرورت ہے جویورپی یونین سے
اخراج کے عمل کوپایہ تکمیل تک پہنچائے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہاکہ اگرچہ یورپی
یونین سے علیحدگی وہ راستہ نہیں جس پروہ چلنے کامشورہ دیتے لیکن وہ پہلے
بھی کہہ چکے ہیں کہ برطانیہ یورپی یونین کے بغیررہ سکتا ہے ۔
ریفرنڈم میں برطانوی شہریوں نے یورپی یونین سے نکلنے کے حق میں فیصلہ
دیا۔شمال مشرقی انگلینڈ،ویلزاورمڈلینڈکے ووٹرزنے یورپی یونین سے الگ ہونے
جبکہ لندن ،اسکاٹ لینڈاورشمالی آئرلینڈکے زیادہ ترووٹرزنے یورپی یونین کے
ساتھ رہنے کے حق میں اپنی رائے کااظہارکیا۔ریفرنڈم میں عام انتخابات سے
زیادہ ووٹ ڈالے گئے۔برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق ایک کروڑ۷۴لاکھ۱۰
ہزار۷۴۲ووٹرزیورپی یونین سے الگ ہونے کے حامی نکلے جبکہ ایک کروڑ
۶۱لاکھ۴۱ہزار۲۴۱ووٹرزنے یورپی یونین میں رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔ برطانوی
عوام کے اس فیصلے سے عالمی مارکیٹ سونے کی قیمت کوبھی پر لگ گئے اور اس کی
قیمت۱۰۰ڈالراضافے سے۱۳۶۰ڈالرفی اونس تک جاپہنچی جبکہ برطانوی اسٹاک مارکیٹ
میں شدیدمندی کارحجان آیاہے اورسٹاک ایکسچینج میں۱۰۰/انڈیکس میں۸٪سے
زائدکمی ہوئی۔ سب سے زیادہ مندی کا رحجان بینکوں کے شیئرز میں دیکھا گیا۔
۲۰۰۸ ء کے بعدسے ایک دن میں اسٹاک مارکیٹ میں کمی کی سب سے بڑی شرح
ہے۔برکیلے اورآربی ایس کے حصص ایک وقت میں۳۰٪ تک گر گئے۔ اس سے پہلے پاؤنڈ
کی قدرمیں۱۰٪تک کی کمی ہوئی اورڈالرکے مقابلے میں پاؤنڈ ایک اعشاریہ ٣٣سینٹس
پرآگیا،جو۱۹۸۵کے بعدسےپاؤنڈکی کم ترین سطح ہے۔
ریفرنڈم کے نتائج کے بعدتیل کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے اوربرنٹ کروڈ٢.٥٪پرآگیاہے۔برنٹ
کروڈ میں ٦٨.٢ ڈالرفی بیرل کمی ہوئی ہے۔ برطانیہ میں ریفرنڈم میں یورپی
اتحادسے نکلنے کے حق میں فیصلہ آنے کے بعدلندن میں ہزاروں افرادنے ایک
پٹیشن پردستخط کئے جس میں شہرکے میئرصادق خان سے کہاگیاہے کہ وہ لندن
کوآزاد ریاست بنانے کااعلان کریں۔دوسری طرف یورپی یونین سے اخراج کے حامی
یوکے آئی پی جماعت کے سربراہ نائیجل فاراج نے ریفرنڈم کے اگلے روزجمعہ
کوبرطانیہ کا''یومِ آزادی'' قرار دیا ۔ برطانیہ میں ریفرنڈم کے نتائج کے
بعد حزبِ اختلاف کی جماعت لیبرپارٹی کے دو اراکین پارلیمان نے اپنی جماعت
کے رہنماء جیری کوربن کے خلاف عدم اعتمادکی تحریک جمع کرائی ہے۔
یورپی یونین سے علیحدگی کے برطانوی فیصلے کویورپ میں سیاسی زلزلہ سے تشبیہ
دی جارہی ہے اورلگ بھگ ٢٣برس قبل تشکیل دی جانے والی تنظیم میں ٹوٹ پھوٹ
شروع ہوگئی ہے۔ برطانوی عوام کے فیصلے کے بعد دیگررکن ممالک میں اتحادکی
مخالف اوریورپی یونین سے اختلاف رکھنے والے گروپوں نے بھی ریفرنڈم کامطالبہ
کردیاہے۔اتحادمیں شامل دیگر ممالک کے رہنماؤں نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ برطانیہ
کے یورپی یونین سے انخلاء کے اثرات مثبت نہیں ہوں گے اورمزیدممالک میں بھی
علیحدگی کارحجان پیداہوسکتاہے۔ان یورپی رہنماؤں نے تنظیم میں یکجہتی اور
استحکام کے ساتھ اصلاحات کامطالبہ بھی کیاہے اگرچہ یورپی یونین کے
صدرڈونلڈٹسک نے کہاہے کہ باقی ماندہ۲۷ارکان متحدرہنے کیلئے پرعزم ہیں تاہم
اٹلی کے وزیراعظم میٹیورینزی سمیت کئی رہنماؤں کاکہناہے کہ یورپی یونین
کوبدلنا چاہئے اورمزید''انسان دوست اور منصفانہ''ہونا چاہئے۔
فرانس کے صدرفرانسو اولاندسمیت بعض یورپی رہنماؤں نے بھی اپنے اپنے ملک میں
بحران کے حوالے سے بات چیت کی ہے۔یورپی پارلیمنٹ کے صدر مارٹن سکلز،یورپین
کونسل کے صدرڈونلڈٹسک،یورپی کمیشن کے سربراہ جین کلاڈ جنکراور ڈنمارک کے
وزیراعظم مارک زوتے نے بھی ہنگامی اجلاس منعقدکئے۔آسٹریاکے وزیرخارجہ سمیت
کئی رہنماؤں نے خدشہ ظاہرکیاہے کہ تنظیم سے برطانیہ کے انخلاء سے پوری
تنظیم کوخطرہ ہوگا۔ یورپی یونین کی مخالف تنظیموں نے فرانس ،ہالینڈاوراٹلی
نے بھی ریفرنڈم کے نتائج پریورپی یونین کے رہنماؤں نے صدمے اور مایوسی کا
اظہارکیاہے۔جرمنی کے وزیر خارجہ فرینک والٹرکا کہناتھاکہ ریفرنڈم کادن یورپ
اوربرطانیہ کیلئے انتہائی دکھ بھرادن تھا۔ڈنمارک کے وزیراعظم لارس لوئکے
راسموسین نے اپنے ملک پرزوردیاہے کہ وہ یورپی یونین سے جڑارہے ۔یورپی
پارلیمان میں جرمنی کے رکن اورانجیلا مرکیل کے پارٹی کے مین فریڈ ویبرنے
سخت روّیہ اختیار کرتے ہوئے اصرارکیا ہے کہ برطانیہ کیلئے کوئی خصوصی سلوک
نہیں ہوناچاہئے ۔واضح رہے کہ یورپی یونین کی بنیادپریکم نومبر١٩٩٣ء کو یورپ
کے چھ ممالک فرانس،بلجیم،ہالینڈاوردیگرممالک نے رکھی تھی اوراس کاپہلااجلاس
نیدرلینڈمیں ہواجبکہ صدر دفتربرسلزمیں قائم کیاگیا۔دوسری طرف یورپی رہنماؤں
نے برطانیہ سے کہاہے کہ وہ جتناجلدی ہو سکے یورپی یونین سے نکل جائے کیونکہ
اس میں تاخیرغیریقینی کوہوادے گی۔گویایورپی یونین کے رہنماؤں کے اس بیان سے
واضح ہوتا ہے کہ تنظیم کے سربراہان برطانیہ کے انخلاء سے اب یورپی یونین کے
مستقبل کے بارے میں غیریقینی کاشکار ہو چکے ہیں۔
برطانوی ریفرنڈم نے دنیابھرکی تجارت میں بھی ہلچل مچادی ہے۔برطانیہ کا
یورپی یونین سے علیحدگی کافیصلہ سرمایہ کاروں کی توقعات کے برعکس آیا جس سے
عالمی اسٹاک مارکیٹ سمیت پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی مندی سے نہ بچ سکی۔
برطانوی پاؤنڈ عالمی سطح پرکمزورپڑنے سے یہ مقامی اوپن مارکیٹ میں۹٪تک
گرگیا۔امریکی ڈاؤجونزاسٹاک میں۷۰۷ /پوائنٹس کی کمی دیکھنے میں آئی جبکہ
جاپان کانکئی انڈیکس۱۲۶۳پوائنٹس گرگیا۔ بھارت کی ممبئی اسٹاک مارکیٹ اور
پاکستان اسٹاک ایکسچینج بھی ٹریڈنگ کے آغازپرہی ہزار پوائنٹس گنوابیٹھی،نہ
صرف حصص بازاربلکہ دیگرممالک کی کرنسیاں بھی برطانیہ کے یورپی یونین سے
علیحدگی کے فیصلے سے اپنے آپ کوسنبھال نہ سکیں۔جاپان،ہانگ کانگ سمیت
دیگرایشیائی اسٹاک مارکیٹوں میں شدیدمندی نظر آئی۔ پاؤنڈ،یوروسمیت پاکستانی
اوربھارتی کرنسی کی قدرمیں بھی واضح کمی دیکھنے کوملی۔تیل کے عالمی نرخوں
میں بھی نمایاںکمی آئی تاہم سونے کے نرخ۱۰۰ڈالرفی اونس تک بڑھ گئے،برطانوی
ریفرنڈم کے پاکستانی معیشت کے بارے میں اثرات کے حوالے سے یورپ میں رہنے
والے پاکستانیوں پراس کے منفی اثرات ہوں گے کیونکہ یورپ میں کاروبارکرنے
والے پاکستانیوں کا بزنس رینک برطانیہ سے بنتاہے اوراس فیصلے کے بعدتجارت
کے نئے ٹیرف آئیں گے اورنیاطریقہ کاروضح کیاجائے گا جس سے یورپ میں
پاکستانی تاجروں پربھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
اس کے علاوہ یورپ کے دیگرممالک سے برطانیہ جانے والے پاکستانیوں کیلئے بھی
خطرات بڑھ گئے ہیں۔برطانوی پارلیمنٹ کی رکن سعیدہ وارثی کاکہنا ہے کہ
ریفرنڈم کانتیجہ بہت بڑادھچکاہے۔ماہرمعاشیات کے مطابق فری پورٹ میں
پاکستانی مارکیٹ کا۳۵ فیصدحصہ غیرملکیوں کے پاس ہے اورعالمی ری ایکشن کی
صورت میں اس کے اثرات توآئیں گے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کی خبرکے
ساتھ ہی پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ میں شدیدمندی دیکھی گئی اوراایک موقع
پرانڈیکس میں چودہ سو پوائنٹس کی کمی آئی،بعدازاں انڈیکس ۱۰۰۰/پوائنٹس تک
گرجانے سے سرمایہ کاروں کے دوسوارب ڈوب گئے ، تیل کی عالمی قیمتیں
چارفیصدگرنے سے پاکستان کی مقامی تیل کی تلاش اورپیداواری کمپنیوں پربھی اس
کے اثرات آئے۔ریفرنڈم کے نتیجے کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل برآمدات بھی
متاثرہونے کا خدشہ ہے۔
برطانوی کرنسی گرنے سے جاپانی کرنسی ''ین''کی قیمت میں اگرچہ اضافہ ہوا
تاہم اس کامنفی اثرپاکستان کے آٹوسیکٹر پر پڑے گا کیونکہ اس شعبے میں
ادائیگی ین میں کی جاتی ہے جبکہ پاؤنڈ اوریوروکی قیمت کمزورہونے سے پاکستان
کی ٹیکسٹائل برآمدات مہنگی ہوجائیں گی۔سونے کی عالمی قیمت میں اضافے کے
بعدپاکستان میں بھی سونے کی قیمت میں پانچ فیصد اضافہ ہوگیاہے۔ ریفرنڈم کے
بعدپاکستان کی کرنسی مارکیٹ سے پاؤنڈاوریورو غائب ہوگئے ہیں کیونکہ افواہیں
تھیں کہ پاؤنڈکی قیمت میں اضافہ ہوگاجس کی وجہ سے لوگوں نے بڑی تعدادمیں
پاؤنڈخریداجوایک روزقبل۱۵۶ روپے پر بندہواتھالیکن اب اس کی قیمت۱۴۵ روپے رہ
گئی ہے،اسی طرح یوروبھی پانچ فیصدتک گرگیاہے۔اب پاکستانی تاجروں کویورپی
یونین اور برطانیہ سے الگ الگ تجارتی معاہدے کرنا ہوں گے جس کیلئے اب پہلے
سے زیادہ محنت درکارہوگی۔
ادہریورپی پارلیمان کے رکن سجادکریم نے کہاہے کہ برطانیہ کے یورپی یونین سے
نکلنے کے فیصلے کے بعدیورپی یونین اب برطانیہ سے اپنی شرائط پر بات کرے گی
اورشرائط وہ ہوں گی جوکہ یورپ کیلئے موزوں ہوں نہ کہ برطانیہ کیلئے۔یورپی
یونین اب ڈرائیونگ سیٹ پرآکرکنٹرول سنبھالے گی۔دوسری جانب برطانوی ریفرنڈم
کے بعدیورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کے بعداسکاٹ لینڈنے برطانیہ سے
علیحدگی کانعرہ بلندکرنے کی تیاری کرلی ہے۔ برطانیہ میں رہنے سے متعلق
اسکاٹ لینڈمیں بھی ایک ریفرنڈم کاقوی امکان ہے جبکہ اسکاٹش پارٹی کی سربراہ
نکولااسٹرجن نے کہاہے کہ اسکاٹ لینڈ کے ٦٢فیصدعوام یورپی یونین میں رہنے کی
حامی تھے۔یورپی یونین سے اخراج سے متعلق برطانوی فیصلے کے بعد اسکا ٹ لینڈ
کی کابینہ کے اجلاس میں پارٹی سربراہ کے مطابق اسکاٹ لینڈکیلئے یہ جمہوری
طورپرقابل قبول نہیں کہ اس کی مرضی کے خلاف اسے یورپی یونین چھوڑنے
پرمجبورکیا جائے ۔ریفرنڈم کے فیصلے سے یہ واضح ہے کہ اسکاٹ لینڈ اورباقی
برطانوی عوام کے خیالات میں واضح فرق ہے جوقابل افسوس ہے۔ہم وہ سب کچھ کرنے
کیلئے تیارہیں جس سے اسکاٹش عوام کی خواہشات پوری ہو سکیں۔
اسکاٹ لینڈکی فرسٹ منسٹر نے کہاہے کہ اسکاٹ لینڈ کی حکومت ایسی قانون سازی
کی تیاری کرے گی جس سے اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے حوالے سے ایک
اور ریفرنڈم کراناممکن ہوسکے گا۔دوبرس قبل اسکاٹ لینڈکے عوام نے برطانیہ کے
ساتھ رہنے کے حق میں ووٹ دیاتھا۔ نکولاسٹرجن نے کہا کہ برطانوی عوام
کافیصلہ برطانوی آئین میں اہم تبدیلیوں کا موجب بنے گا۔جن لوگوں نے۲۰۱۴ء
میں اسکاٹ لینڈ کی برطانیہ سے علیحدگی کے خلاف ووٹ نہیں دیاانہیں اپنے
فیصلے کا دوبارہ جائزہ لیناہوگا۔اسکاٹش عوام کو ان کے مستقبل سے متعلق یقین
دلاناان کی اوّلین ترجیح ہے اوروہ اسکاٹ لینڈ کی یورپی یونین میں پوزیشن
محفوظ بنانے کیلئے تمام امکانات پرغورکریں گی۔
یورپی یونین سے نکل جانے سے برطانیہ کوسب سے پہلانقصان تویہ ہوگاکہ
ڈیوڈکیمرون نے گزشتہ فروری میں یونین کے ساتھ بات چیت کے ذریعے جو خصوصی
معاہدہ طے کیاتھا وہ اب ختم ہوجائے گا۔اس معاہدے کے تحت برطانیہ کواس بات
کی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اگروہ بعض معاملات پریوروزون سے باہربھی
رہے توبھی اس کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں برتاجائے گا،اب اگر برطانیہ بات
چیت کے بعدیورپی یونین کی مارکیٹ تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب بھی
ہوجاتاہے، تب بھی اسے خصوصی معاہدے کے تحت حاصل ہونے والے اختیارات نہیں
ملیں گے ۔ وزیراعظم ڈیوڈکیمرون نے کہاتھاکہ یورپی یونین سے الگ ہونے کیلئے
شرائط طے کرنے کی غرض سے مذاکرات کے طورپر یورپی یونین کی دفعہ۵۰کااستعمال
کریں گے لیکن اب جب کہ خودمستعفی ہو چکے ہیں،یہ عمل اور پیچیدہ ہوگیاہے۔
آرٹیکل۵۰کے تحت یونین سے الگ ہونے کیلئے دوبرس کاوقت ہے،یہ بہت
مختصرمیعادہے اوراس میں توسیع بھی تبھی ممکن ہے جب تمام ٢٨ ممالک متفق
ہوں۔الگ ہوتے وقت جائدادکی تقسیم ، یونین کابجٹ اور یورپی یونین کے شہری
جوبرطانیہ میں ہیں اورجوبرطانوی شہری یونین ممالک میں ہیں،ان کاکیا
ہوگا۔یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کیلئے جو مذاکرات شروع ہوں گے،اسی کے ساتھ
ہی تجارتی روابط پربھی بات چیت کی جاسکتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایساہی
ہو،اگرنئے تجارتی روابط پر بات چیت طویل ہوتی ہے اورکوئی معاہدہ طے نہیں
پاتاتواس مدت تک برطانیہ کویورپی یونین کے ساتھ عالمی تجارتی تنظیم ڈبلیوٹی
اوکے اصول وضوابط کے تحت تجارت کرناہوگی،اس کامطلب یہ ہوا کہ دنیاکی سب سے
بڑی فری مارکیٹ میں برطانیہ کوچین اور امریکاکی طرح تجارت کرنی پڑے گی جس
تک اسے اب تک آزادانہ رسائی حاصل تھی۔یورپی یونین نے دنیاکے جن دیگرممالک
کے ساتھ خصوصی تجارتی معاہدے کئے ہیں، برطانیہ اس سے بھی محروم ہوجائے گا۔
یہ بات ضرورہے کہ ایک باریونین سے باہرآنے کے بعدبرطانیہ کویورپی بجٹ نہیں
دیناپڑے گا۔برطانیہ یورپی یونین کوسالانہ تقریباًبارہ ارب ڈالرکی رقم فراہم
کرتاہے ۔یہ رقم اب گھرمیں رہے گی اوراس کاستعمال فلاحی کاموں میں کیا جا
سکتاہے لیکن اس کے بدلے برطانوی کسانوں کو یورپی یونین کی جانب سے براہِ
راست ملنے والی امدادرک جائے گی ۔ ۲۰۱۵ء میں یہ امدادی رقم چارارب ڈالرتھی
جبکہ برطانیہ یورپی یونین سے آنے والے تارکین وطن کو کنٹرول کرنے کی کوشش
کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہوگاکہ صرف اعلیٰ درجے کے ماہرین کوہی ترجیح دی جائے
گی جبکہ نچلے درجہ کے کام کرنے والوں کوروکنے کی کوشش کی جائے گی۔یورپی
یونین سے برطانیہ میں کام کی تلاش میں آنے والے بہت سے لوگوں کو ملک سے نکل
جانے کوبھی کہاجائے گا۔ یہ بھی بڑاپیچیدہ عمل ہے جواتناآسان نہیں ہوگا۔ابھی
دوبرس تک جب الگ ہونے سے متعلق مذاکرات مکمل نہیں ہوجاتے ،اس وقت تک اس
سلسلے میں کوئی قدم اٹھانامشکل ہوگا۔
ادہربرطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے کے بعدمختلف یورپی ممالک میں
دائیں بازوکی جماعتوں نے بھی یورپی یونین میں شامل رہنے کے معاملے پرعوامی
ریفرنڈم کرانے کامطالبہ کیاہے۔فرانس میں دائیں بازوکی جماعت کی سربراہ
میرین لی پین نے ٹوئٹرپیغام میں کہاکہ ''آزادی کی جیت'' اور کہاکہ فرانس
کوبھی اب یہ حق ہے کہ وہ اس بارے میں فیصلہ کرے۔تارکین وطن کوپناہ دینے کے
مخالف ڈچ سیاستدان گریٹ ویلڈر نے کہاہے کہ نیدر لینڈ کو بھی چاہئے کہ وہ
''نی ایگزٹ''کوووٹ دے۔ اٹلی میں بھی ایسے ہی مطالبات زرو پکڑ رہے
ہیں،گویااب یورپی یونین کے مستقبل پرکئی خدشات نے سراٹھانا شروع کر دیاہے
اورممکن ہے کہ یہ اب تیزی کے ساتھ اپنے انجام تک پہنچیں! |