بھارتی عدالت کا شرمناک انصاف۔ خونِ مسلمان کی ارزانی
(Mian Muhammad Ashraf Asmi, Lahore)
رمضان المبارک کی اِن ہی عظیم ساعتوں میں
مدینہ ثانی ریاست کا وجود ظہور پذیر ہوا۔ اِس ریاست کو وجود میں لانے کی
قیادت ایک ایسی ہستی کو عطا ہوئی جنہیں محمد علی جناح ؒ کا نام سے یاد کیا
جاتا ہے۔محمد علی جناحؒ جب دل برداشتہ ہو کر واپس لندن چلے گئے تھے تو
واپسی کے لیے حضرت اقبالﷺ نے اُن پر کافی زور ڈالا۔حضرت علامہ شبیر احمد
عثمانی کے مطابق کے جناب محمد علی جناحؒ نے فرمایا تھا کہ وہ نبی پاکﷺ کے
حکم پر واپس ہندوستان آئے۔محمد علی جناحؒ سو رہے تھے کہ وہ بیان کرتے ہیں
کہ اُن کو بیدار کیا گیا اور نبی پاکﷺ اُن کے فلیٹ پر تشریف فرماء ہوئے اور
کہا کہ محمد علیؒ اپنا رخت سفر ہندوستان کے لیے باندھو ہم نے تم سے بہت بڑا
کام لینا ہے۔اِس پاک سر زمین کے ساتھ جو سلوک، وڈیروں، جاگیر داروں، سرمایہ
داروں نے کیا وہ ایک ایسی کہانی ہے کہ پاکستانی معاشرئے عذاب میں مبتلا ہو
چکا ہے۔ ایسی آزادی کس کام کی کہ نہ انصاف نہ تعلیم نہ روزگار۔ چند ہزار
اشرافیہ پر مشتمل گروہ نے عوام کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اگر تو یہ تن کی
آزادی تھی تو ہمیں حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن اُس کے باوجود مایوس ہونے کی ضرورت
نہیں۔ ہمیں حضرت بلال ؒ کے صبر سے فیض لینا ہوگا۔ ہمیں صلاح الدین ایوبی کا
پیرو کار بننا ہوگا۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو
سلوک ہورہا ہے اُس کی حالت زار اتنی دردناک ہے کہ مسلمانوں کو وہاں تیسرے
چوتھے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے۔بھارت میں بھی کرپشن اتنی زیاد ہ ہے کہ
پاکستان سے بھی زیادہ۔ لیکن بھارت میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے
کا عمل بہت افسوسناک ہے۔بھارتی ریاست گجرات کے دارالحکومت احمد آباد میں
قائم خصوصی عدالت نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے 2002ء کے
بدترین فسادات کے دوران احمد آباد کے پوش ایریا گلبرگ سوسائٹی کمپلیکس میں
69 مسلمانوں کو زندہ جلانے والے 11انتہا پسند ہندووں کو عمر قید 12 کو محض
7سال قید بامشقت اور ایک قاتل کو 10برس قید کی سزا سنائی۔ یہ خصوصی عدالت
جو بھارتی سپریم کورٹ کے احکامات پر قائم کی گئی کے جج پی پی ڈیسائی نے
مودی سرکار اور انتہا پسندی ہندو تنظیموں کے دباو پر 2 جون کو 36قاتلوں کو
’’بے گناہ‘‘ قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا جبکہ محض 24 کو مجرم قرار
دیا۔ جج پی بی ڈیسائی نے سرکاری وکیل کے مطالبے اور مسلمانوں کو زندہ جلائے
جانے کے ثبوت ہونے کے باوجود 24 مجرموں کو قرار واقعی یا سزائے موت دینے سے
انکار کر دیا اور اپنے متنازعہ اور نرالے فیصلے میں لکھا ہے کہ اس کیس کے
90فیصد ملزم ضمانتوں پر رہا ہوئے اور اس طویل عرصے میں انکا کوئی اور
مجرمانہ ریکارڈ یا سرگرمی دیکھنے میں نہیں آئی اسلئے انہیں عادی مجرموں کی
سزا نہیں دی جا سکتی۔ عدالت کے فیصلے کے تحت جن مجرموں کو ساری زندگی جیل
میں گزارنی پڑے گی ان میں کیلاش دھوبی‘ یوگیندر شیخاوت‘ دنیش مشر‘ دلیپ
پرامار‘ سندیب پنجابی‘ وشوا ہندو پرشید کا غنڈہ رہنما اتول وید اور کانگریس
کا سابق کونسلر میگھ جی شامل ہے تاہم ان مجرموں کی عمرقید مودی سرکار چاہے
تو ختم یا کم کر سکتی ہے۔ واضح رہے گجرات میں 28فروری کو گودھرا میں
شرپسندوں کی طرف سے ہندو زائرین کی ٹرین نذر آتش کرنے کا ردعمل ظاہر کرتے
ہوئے پوری ریاست گجرات کو سرکاری سرپرستی میں آگ اور خون سے نہلا دیا گیا
اس وقت نریندر مودی وزیراعلیٰ تھے انکی آشیرباد سے 400سے زائد ہندو غنڈوں
نے احمد آباد کی گلبرگ سوسائٹی پر حملہ کرکے 69مسلمانوں کو تلواروں سے
کاٹنے کے بعد پٹرول چھڑک کر زندہ جلا دیا ان میں زیادہ تر عورتوں اور بچوں
کے علاوہ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی شامل تھے جنہوں نے ہندو
حملہ آوروں جنہوں نے ان مصیبت زدہ مسلمانوں کو پناہ دینے اور ہندو غنڈوں سے
مزاحمت کا ’’جرم‘‘ کیا تھا 14سال سے اپنے شوہر کا مقدمہ لڑنے والی باہمت
بزرگ خاتون ذکیہ جعفری نے خصوصی عدالت کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کرتے
ہوئے اسے کمزور فیصلہ قرار دیا اور کہا کہ انہیں اس فیصلے سے بہت مایوسی
ہوئی میں مجرموں کو سزا دلانے کے لئے دوبارہ سے اپنی جنگ شروع کرونگی اور
گجرات ہائیکورٹ میں اپیل کرونگی۔ انہوں نے کہا عدالت کو تمام 60مجرموں کو
سزا دینی چاہئے تھی۔ دوسری طرف سوشل میڈیا پر لوگ عدالت کے متعصبانہ فیصلے
کو ’’گلبرگ ورڈکٹ‘‘ ہیش ٹیگ کے تحت سخت تنقید کا نشانہ بناتے رہے۔ آل انڈیا
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسد الدین اویسی نے ٹویٹر پر لکھا: اگر سول
سائٹی کی تاریخ میں گلبرگ قتل عام سب سے سیاہ باب تھا‘ تو اس میں مجرم کو
سزائے موت دی جانی چاہئے‘ عمر قید یا 10سال کی سزا کافی نہیں ہے‘۔ انہوں نے
لکھا: بڑے مجرموں کو چھوڑنا چاہئے۔ اس پر اپیل کی جانی چاہئے اور سازش کے
الزامات بھی عائد کئے جانے چاہئیں۔ ایک بھارتی شہری اشیش ترویدی نے طنزیہ
طور لکھا ہے: کمال ہے‘۔ میں نے ریپ کیا‘ آگ لگائی‘ قتل کر سکتا ہوں اور پھر
بھی مجھے صرف 7 سال کی سزا ملے گی․․․․ وہ بھی 14برسوں کے بعد․․․․ گجرات میں
ہندو ہوتے ہوئے مجھے فخر محسوس ہو رہا ہے۔ ایک اور بھارتی شہری راکیش بٹکری
نے لکھا: ’کیا اس ملک میں موت کی سزا صرف مسلمانوں کیلئے ہے۔ کرم ویو سنگھ
برار نے لکھا ہے: ’کسی کو بھی موت کی سزا نہیں۔ یہ بڑی شرم کی بات ہے۔ وہ
انتہا پسند ہیں اور انہیں ویسی ہی سزا ملنی چاہئے۔ دریں اثنائمودی سرکار نے
گجرات فسادات میں ہندو تنظیموں کی بربریت کو متواتر سامنے لانے اور متاثرین
کے مقدمات لڑنے والی معروف سماجی کارکن تیستا سیتلواڈ کی مصیبتیں اب اور
بڑھ گئی ہیں۔ غیر سرکاری تنظیم ’سبرنگ ٹرسٹ‘ کا ایف سی آر اے لائسنس منسوخ
کر دیا ہے۔ ایف سی آر اے وہ قانون ہے جس کے تحت بھارت میں کام کرنے والی
غیر سرکاری تنظیمیں یا تعلیمی ادارے بیرون ملک سے مالی امداد حاصل کر پاتے
ہیں۔ گذشتہ برس اسی قانون کی خلاف ورزی کرنے کے الزام میں وزارت داخلہ نے
’سبرنگ ٹرسٹ‘ کی رجسٹریشن چھ ماہ کے لیے معطل کر دی تھی۔ حکومت کا الزام ہے
کہ تیستا سیتلواڈ اور ان کے شوہر جاوید آنند نے تنظیم کو بیرونی ممالک سے
ملنے والی امداد کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کیا۔ حالانکہ تیستا
سیتلواڈ اور ان کے شوہر ان الزامات کو کئی بار غلط قرار دے کر مسترد کر چکے
ہیں۔ انہوں کہا کہ بی جے پی کی حکومت انتقامی کارروائی کے تحت ان کے خلاف
ایسے اقدامات کر رہی ہے۔ مرکز میں برسرِاقتدار مودی حکومت نے تیستا کے خلاف
مرکزی تفتیشی بیورو سی بی آئی سے تفتیش شروع کروائی تھی۔ اس سلسلے میں ان
کے گھر اور دفتر پر کئی بار چھاپیمارے جا چکے ہیں، ان کے بینک اکاونٹس
منجمد کر دیے گئے، سوشل میڈیا پر مسلسل ان پر تنقید کی جاتی رہی ہے اور
دھمکیاں بھی دی جاتی رہی ہیں۔ لیکن تفتیش کار ان پر 2003 ئسے چلنے والے 7
مقدمات میں سے کسی میں بھی الزام ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدالتیں ان
کے حق میں نظر آتی ہیں۔ ان کو 5 مرتبہ ضمانت پر رہائی مل چکی ہے۔ مبصرین کا
کہنا ہے کہ حکومت ان کو اس وجہ سے جیل بھیجنا چاہتی ہے کیونکہ یہ دلیر
خاتون بھارت اور دنیا کو یہ بات بھلانے نہیں دیتی کہ 2002ء میں گجرات میں
کیا ہوا تھا۔ بھارتی ریاست گجرات کے 2002 ئکے فسادات میں 1000 سے زیادہ
افراد ہلاک ہو گئے تھے اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔پاکستان نظریہ
پاکستان اور نظریہ اسلام خوب یاد دلادیا ہے مودی سرکار نے ۔اﷲ پاک بھارتی
مظلوموں پر رحم فرمائے۔ |
|