گستاخیاں

وزیر اعظم پاکستان جناب نواز شریف بالآخر لوٹ کر اپنے گھر سے آ گئے ہیں۔ وہ بھی صرف اڑتالیس (48) دن کے بعدکچھ دن کے لئے۔آخر حکومت کی ذمہ داری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔انہیں قوم کا شدید درد اٹھا۔ پہلے دل کا درد ہی کیا کم تھا۔ اب جب دو دو درد اکٹھے ہوگئے تو سوچا چلوں کہ قوم بہت سے دردوں کا شکار ہے اور ان دردوں کا مداوا کرنے کا ٹھیکہ صرف فوج نے تو نہیں لے رکھا۔بس پاکستان پہنچ گئے۔ اب دو دن کی بات ہے سفر کی تھکاوٹ دور اور قوم کے درد کا علاج شروع۔ویسے تو حکیم اسحاق ڈار صاحب کے نسخے بھی کچھ کم نہ تھے ۔پتہ نہیں لوگ ان پر پوری طرح بھروسہ کیوں نہیں کرتے جو وزیر اعظم کو مجبوراً آنا پڑا۔جناب نواز شریف نے جہاز سے اترتے ہی ارشاد فرمایا، میں الحمدوﷲ بالکل ٹھیک ہوں اور بالکل ٹھیک ٹھیک تھا۔ ویسے وہ یہ نہ بھی بتاتے تو بھی ساری قوم کو پتہ تھا۔ ان کی مہربانی کہ خود تصدیق کر دی۔ انہوں نے کہا کہ وہ مسائل کا حل چاہتے ہیں، ہر چیلنج سے نمٹنا جانتے ہیں پہلے کی طرح فعال ہیں اور اب نئے جذبے سے قوم کی خدمت کرتے رہیں گے۔اسلئے کہ خدمت نہ کریں گے تو لندن کے چشمے خشک ہونے کا اندیشہ ہے اور بیچارے صاحبزاگان تو انہی چشموں کی وجہ سے سر اٹھا کر چلتے ہیں۔ایک صحافی نے دبے لفظوں میں تائید کی اور کہا کہ وزیر اعظم سچ کہتے ہیں اس سے پہلے بھی دو دفعہ یہ بہت فعال ہوئے اور چیلنجوں سے یوں نمٹا کہ نہ چیلنج رہے نہ خود۔

ویسے اخبارات میں اور بھی بہت سے لوگوں کے ارشادات پڑھنے کو ملے کچھ لطیفہ نما بیانات تھے اور کچھ بیانات نما لطیفے۔ حکمران اور سیاستدان چونکہ عوامی اور جمہوری ہوتے ہیں۔ اس لئے ان کی چھوٹی موٹی غلطیوں پراور ان کے لطیفوں یا بیان کہہ لیں پر لوگ ان کے ساتھ چھوٹی موٹی گستاخیاں کرنے سے دریغ نہیں کرتے ۔ یہی اصل میں جمہوریت کا حسن ہے۔پاکستان میں جمہوریت نہ بھی ہو حسن قائم رہتا ہے۔مغربی ممالک میں چونکہ جمہوریت اپنی صحیح شکل میں ہوتی ہے اس لئے وہاں لوگ لیڈروں کے سامنے کھڑے ہو کر انہیں بہت کچھ کہہ لیتے ہیں۔ وہاں لیڈر لوگوں کی ایسی گستاخیوں کا برا نہیں مانتے بلکہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت چونکہ ففٹی ففٹی ہے یعنی ہر جمہوریت آدھی آمریت اور ہر آمریت آدھی جمہوریت ہوتی ہے۔اسلئے گستاخیاں ذرہ احتیاط کا تقاضا کرتی ہیں۔ یہاں لیڈر کے سامنے گستاخی ایسے ہی ہے جیسے کسی اڑیل گھوڑے کی پچھلی ٹانگوں کے قریب کھڑے ہونا ۔ بس ایک خوبصورت دولتی آپ کا مقدر ہو گی۔ یہاں کے سیاستدانوں کو سیاسی اختلاف کی صورت میں سوائے دولتیوں مارنے کے کچھ نہیں آتا۔میں بنکاک کے بازار میں ایک دکان پر کھڑا تھا۔ دکان پر ایک دس گیارہ سال کا بچہ موجود تھا شکل سے پاکستانی یا بھارتی نظر آرہا تھا۔ میں نے بچے سے ایک چیز کا ریٹ پوچھا۔ اس نے اپنی ماں کوآواز دی ۔ ایک تھائی عورت بھاگتی ہوئی آئی۔ میں نے پوچھا یہ آپ کا بیٹا ہے ۔ جواب ملا ہاں۔ مگر یہ تو پاکستانی یا بھارتی لگتا ہے۔ عورت نے ہنس کر جواب دیا یہ ففٹی ففٹی ہے۔ پاکستانی جمہوریت کی جب بھی بات ہوتی ہے مجھے وہ لڑکا یاد آ جاتا ہے۔

ہمارے وزیر اطلاعات جناب پرویز رشیدبھی بہت خوب ہیں۔ ان کا ہر بیان لطیفہ ہوتا ہے مگر سناتے اس سنجیدگی سے ہیں کہ مرحوم اداکار لہری یاد آ جاتے ہیں۔ سننے والے لوٹ پوٹ ہو جاتے ہیں مگر ان کے چہرے سے یوں لگتا ہے کہ برسوں سے کبھی ہنسے ہی نہیں۔ان کا آج کا تازہ لطیفہ یہ کہ فرمایا، وزیراعظم کے بیماری کے دوران تمام اخراجات ان کے بیٹوں نے برداشت کئے۔ موصوف نے صاف نہیں بتایا کہ کونسے بیٹے۔کچھ بیٹوں کو صرف سمیٹنے کا کام سونپا گیا ہے۔ انہیں خرچہ کرنا آتا ہی نہیں، کیسے کر سکتے ہیں۔ویسے وزیر اعظم کی عالی ظرفی اور خاص شفقت ہے کہ وہ ہر پاکستانی نوجوان کو اپنا بیٹا سمجھتے ہیں۔اور لندن میں بہت سے ایسے بیٹے موجود ہیں جو واقعی ایسی حرکت کے مرتکب ہو سکتے ہیں مگر یہ جہاز کا پہاڑ جیسا خرچہ کس بیٹے نے ادا کرنا ہے اس کا جواب پرویز رشید نے دینا ہے یا خود محترم نواز شریف اس کے بارے قوم کو اعتماد میں لیں گے ابھی کچھ واضع نہیں۔ایک اور بیان میں جناب پرویز رشید کہتے ہیں کہ ملک کی تعمیر و ترقی کی ہر اینٹ پر نواز شریف کا نام تحریر ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح پنجاب کی تمام جامعات اور بورڈوں کی ڈگریوں اور سندوں پر جناب شہباز شریف کی تصویر ہے۔ پرویز رشید کو یاد رکھنا چاہیے کہ پتھروں پرجو مرضی تحریر ہو جائے مگر یہ بڑے بے وفا ہوتے ہیں۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ تحر یر کرنے والوں پر ہی برس جاتے ہیں۔ ذرا سنبھل کے کہ وہ وقت قریب لگتا ہے۔

سماجی، فلاحی اور انسانی خدمات کے حوالے سے بین الاقوامی شہرت حاصل کرنے والے پاکستان کے عظیم سپوت عبدالستار ایدھی کا انتقال ایک عظیم سانحہ ہے۔ برسوں اس قوم کی بے لوث خدمت کرنے والا شخص ، جس کی عظمت کا ہر ایک شخص قائل ہے آج ہم میں نہیں۔پوری دنیا اور پوری قوم نے شاندار الفاظ میں انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔وہ اپنی سادہ طرز زندگی اور عاجزانہ طبیعت کی وجہ سے لوگوں کے مقبول تریں انسان تھے۔وہ پاکستان کے غریبوں ، یتیموں، مسکینوں ، ضرورت مندوں اور بے سہاروں کے ہیرو تھے۔ان کی وفات پر قوم سوگوار تھی مگر کچھ سیاسی لوگ سوگ کے ساتھ ساتھ پوائنٹ سکورننگ بھی کرنے میں مصروف تھے۔ یعنی ایک پنتھ دو کاج۔ ویسے بھی سیاستدان جانتے ہیں کہ ان کا اداس اداس چہرہ ہمارے لوگوں کو بہت بھاتا ہے۔

پنجاب کے وزیر اعلی جناب شہباز شریف فرماتے ہیں، میرا غریبوں سے جو طرز عمل ہے وہ میں نے عبدلستار ایدھی صاحب سے سیکھا ہے۔ واہ ، واہ۔ کہاں وہ سادگی ، کہاں وہ عاجزی جو عیدی صاحب کا خاصہ تھی اور کہاں وہ کروفر، کہاں وہ جاہ وجلال جو شہباز شریف کی ذات کا لازمی جزو ہے ۔ کون سی چیز مشترک نظر آتی ہے۔ شیخ سعدی سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے عقل کہاں سے سیکھی۔ جواب ملا جاھلوں سے۔لگتا ہے شہباز شریف نے بھی ہر چیز الٹی سیکھی ہے ۔ ان کو ایدھی صاحب کی سادگی بالکل پسند نہیں تھی سو یہ شان و شوکت اپنا لی۔ میاں صاحب نے ایدھی صاحب کو اپنا استاد بتایا ہے ۔ معذرت سے کہوں گا۔ استاد اور شاگرد میں کچھ تو مشترک ہوتا ہے یہاں تو کچھ بھی نہیں۔ لگتا ہے استاد سکھانے میں اور شاگرد سیکھنے میں مکمل ناکام ہیں۔ ہاں البتہ مماثلت کی بات چلی تو مصطفے کھر زندہ باد ۔ آپ دونوں میں ایک دوسرے سے ملتی جلتی بہت سی خوبیاں موجود ہیں اور کل کو مورخ انہیں بڑی وضاحت سے بیان کرے گا۔اسلئے کہ اس وقت نہ آپ حکمران ہونگے نہ لکھنے والے کو کوئی ڈر۔ٓ

خوشی تو اس بات کی ہے کہ میاں نواز شریف نہ صرف صحتمند ہوئے ہیں بلکہ دنوں میں پہلے سے زیادہ توانا اور فعال ہیں۔ میرے گھر کے ارد گرد لا تعداد بینر لگے ہیں جن پر امت مسلمہ کی خصوصی دعاؤں کے نتیجے میں میاں صاحب کوصحت یابی پر مبارکباد پیش کی گئی ہے۔ جب تک میڈیکل سائنس نے اسقدر ترقی نہیں کی تھی جتنی کہ آج ہے۔ لوگ بزرگوں اور مذہبی لوگوں کے پاس شفا حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔ ایک بزرگ کے بارے مشہور تھا کہ کوئی دل کا مریض بد ترین حالات میں بھی ان کے پاس پہنچ جاتا تو شفایاب ہو جاتا۔ وہ دل پر ہاتھ رکھ کر سینے پر ہاتھ گھما دیتے ۔ گھیں گھیں کرتا دل یکدم پورے زور شورسے دھک دھک کرنے لگتا اور مریض ہنستا کھیلتا گھر واپس لوٹ جاتا۔ لوگ کہتے اس کے ہاتھ میں شفا ہے۔ میاں صاحب کے ڈاکٹر نے بھی کمال کیا ایک ہی نشتر میں دل کے سارے عیب نکال دئیے۔ یقیناً اس نے ہاتھ نہیں دکھایا اس کے ہاتھ میں شفا ہے اب مبارکباد کے معاملے میں ہم بھی کسی سے پیچھے کیوں رہیں۔میاں صاحب کے ڈاکٹر کو اس کی کارکردگی پر اور محترم میاں صاحب کو شفا یابی پر بہت بہت مبارکباد۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500640 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More