اسلامیت ،پاکستانیت اور انسانیت
(Muhammad Nasir Iqbal Khan, Lahore)
انسان کی نیت صاف اوراس کے اراد وں میں
استقامت ہو توراہ میں آنیوا لے پہاڑ بھی ریزہ ریزہ ہوجاتے
ہیں۔عبدالستارایدھی نے بھی زندگی میں کئی چیلنجز کاسامنا کیا مگران کی صاف
نیت اور مستقل مزاجی نے انہیں ہرمیدان میں بینظیر کامیابی سے ہمکنارکیا ۔عبدالستار
ایدھی اسلامیت ،پاکستانیت اورانسانیت کے علمبردارتھے۔ورلڈکالمسٹ کلب بھی
اسلامیت ،پاکستانیت،انسانیت سے محبت اورکمٹمنٹ کی بنیادپرمعرض وجودمیں آیا
ہے جبکہ اس کے حامی سچائی تک رسائی کیلئے کوشاں ہیں ۔عبدالستارایدھی نے
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں سادگی کواپناشعاربنایا اورزندگی بھر آسودگی
کامزالیا۔وہ زمین پربیٹھتے تھے اسلئے انہیں گرنے کاڈرنہیں تھا ۔ان کیخلاف
بھی حاسدین نے منفی پروپیگنڈا کیا مگر ان کی دنیا سے آبرومندانہ رخصتی نے
انہیں سرخرواورسرفراز کردیا۔پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت دنیا بھرمیں ان کی
موت کاسوگ منایا جارہا ہے۔الخیرفاؤنڈیشن کے چیئرمین امام قاسم رشیداحمد نے
عبدالستارایدھی کی وفات کو انسانیت کیلئے بڑادھچکاقراردیا ۔امام قاسم
رشیداحمدکاکہنا ہے کہ عبدالستارایدھی زندگی بھر دوسروں کے دکھ دردسمیٹ کران
کے دامن میں خوشیاں بھر تے رہے۔عبدالستارایدھی کی زندگی انسانیت کی خدمت
کیلئے وقف تھی۔ان کی وفات نے دنیا بھرمیں انسانیت سے محبت کرنیوالے
افرادکوسوگوارکردیا ۔امام قاسم کے مطابق عبدالستارایدھی کے انتقال سے خدمت
خلق کاایک روشن باب بندہوگیا۔ محروم طبقات کی بحالی ا ورخوشحالی کیلئے
عبدالستارایدھی کی انتھک خدمات کوفراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ امام قاسم
کاکہناتھا عبدالستارایدھی کے انتقال نے مجھے کس قدرغمزدہ اور رنجیدہ کیاہے
میں اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا ۔مجھے عبدالستارایدھی مرحوم سے
ملنے کااتفاق ہوا ، ان کی شخصیت انکساری اورسادگی کابہترین نمونہ تھی ۔زیتون
کے چیف ایگزیکٹومیاں ایازانور بھی عبدالستارایدھی کی شخصیت اورخدمات کے
زبردست مداح ہیں۔میاں ایازانورنے کہا مجھے پاکستانیوں پراعتماد ہے وہ
عبدالستارایدھی کی وفات کے بعدایدھی فاؤنڈیشن کوپہلے سے کئی گناء زیادہ
عطیات دیں گے ۔ ایدھی مرحوم کو شہرقائدؒ میں قومی اعزاز کے ساتھ دفنایا
گیا،وہ بجاطورپر اس کے مستحق تھے۔ان کی نمازجنازہ کے دوران کسی فوٹوگرافرنے
صدرمملکت ممنون حسین اورچیئرمین سینٹ رضاربانی کاہنستا چہرہ محفوظ کرلیا،ان
شخصیات کااس قسم کارویہ قوم کیلئے تکلیف کاسبب بنا جبکہ پاک فوج کے سپہ
سالارجنرل راحیل شریف اسی تصویرمیں عبدالستار ایدھی مرحوم کے فرزند کوحوصلہ
دیتے ہوئے نظرآئے جوقوم کواچھا لگا۔دبنگ جنرل راحیل شریف کی سنجیدگی سے ان
کا وقار مزید بڑھ جاتا ہے ۔قوم کواپنے نڈرجرنیل راحیل شریف سے بڑی امیدیں
ہیں انہیں ریٹائرمنٹ کے سلسلہ میں اپنا فیصلہ تبدیل کرنا ہوگا۔پاکستان
اوراس کی فوج حالت جنگ میں ہے لہٰذاء سپہ سالار کی تبدیلی کیلئے یہ وقت
مناسب نہیں۔
اگلے جہان میں مال نہیں اعمال نے کام آناہے۔عبدالستارایدھی کی طلسماتی
شخصیت ،انتھک محنت اورایمانداری کے نتیجہ میں اس وقت ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس
کئی ارب کے اثاثہ جات ہیں جبکہ افرادیااداروں کی ساکھ انمول
ہے۔عبدالستارایدھی نے اپنے اوراپنے خاندان کیلئے کچھ نہیں بنایاکیونکہ
انہیں علم تھا''قبر میں مال ساتھ نہیں جاتا مگر اعمال ضرور ساتھ جاتے ہیں''
۔ آج سے بیس برس قبل ہمارے گھروں میں سادگی اورآسودگی کے ڈیرے تھے جبکہ آج
کل ہمارے گھروں میں دولت اورٹیکنالوجی کی فراوانی ہونے کے باوجود ہماری
زندگیوں میں بے برکتی،ویرانی اورپریشانی ہے ۔عبدالستارایدھی سے اظہارمحبت
کیلئے ان کی طرح زندگی گزارناہوگی اورانہوں نے انسانیت کی خدمت کاجومقدس
مشن شروع کیا تھا اسے جاری رکھنا ہوگا ۔عبدالستارایدھی نے زندگی بھر سماجی
سرگرمیوں جاری رکھیں۔انہوں نے پاکستانیوں سے لیا اورپاکستانیوں کودیا،کسی
دوسرے ملک کے عوام سے مانگنا ان کے ضمیر نے گوارہ نہیں کیا۔ ان کی خوداری
درحقیقت ان کی اسلام اور پاکستان کے ساتھ گہری کمٹمنٹ کانتیجہ تھی ۔انہیں
محمدعلی جناح ؒ اورجناح کیپ سے والہانہ محبت تھی ۔ عبدالستارایدھی صاحب
ایمان تھے ،ان کااﷲ تعالیٰ پرتوکل کامل تھا ،وہ متقی،پرہیزگار،باضمیر
اورباکردارتھے ۔ مسلمان ہوناکافی نہیں صاحب ایمان ہونا بھی ضروری ہے۔جس طرح
اشفاق احمد مرحوم نے فرمایا تھا مسلمان وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کو مانے جبکہ
مومن وہ ہے جو اﷲ تعالیٰ کی مانے ۔اس طرح صاحب ایمان وہ ہے جس کے کلام اور
ہرکام سے ایمان جھلکتا ہو۔
عبدالستارایدھی نے انسانوں کوانسانیت کامفہوم سمجھایااور صلہ رحمی کادرس
دیا۔ عبدالستارایدھی بابائے قوم محمدعلی جناحؒ کی طرح تھے،ان کی وفات سے
قوم پھرسے یتیم ہوگئی۔ایدھی کوشہرت کی بھوک نہیں تھی مگردنیا میں ان کے نام
کاڈنکا بجتا تھااوربجتا رہے گا۔محمدعلی جناح ؒ نے پاکستان بنایا جبکہ
عبدالستارایدھی نے پاکستانیوں کوسہارادیااوریتیم بچوں کوسینے سے
لگایا۔ایدھی کادل یتیم، مستحق اوربے سہارا بچوں کے ساتھ
دھڑکتاتھا۔عبدالستار ایدھی کے وجود کی برکت سے ہمارامعاشرہ زندہ لگتا تھا
،ان کے بعدمعاشرے کوزندہ رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔عبدالستارایدھی اپنے کردار
اورانسانیت کیلئے اپنے صادق جذبوں کی بدولت زندہ رہیں گے۔عبدالستارایدھی سے
اظہارمحبت اورایدھی فاؤنڈیشن کے رضاکاروں سے اظہار یکجہتی کیلئے اب ہرکوئی
مرحوم کے مشن کواپنامشن بنالے تویقینابہشت میں عبدالستار ا یدھی کی روح
کومزید راحت ملے گی۔ پاکستان میں ہر حکمران اورسیاستدان کانعم البدل ہے مگر
عبدالستارایدھی کاکوئی متبادل نہیں۔ عبدالستار ایدھی کی باعزت موت اورقابل
رشک تدفین قدرت کی طرف سے ان کیلئے انسانیت کی انتھک خدمت کاانعام ہے ورنہ
بڑے بڑے حکمران، سرمایہ داراوروڈیرے خاموشی سے دنیا چھوڑجاتے ہیں ۔
عبدالستارایدھی مرحوم کانام ،مقام اوراحترام انسانیت کیلئے ان کی اعلیٰ
خدمات کانتیجہ تھا ۔ ایدھی مرحوم انسانیت کے علمبرداراور پاکستان کاسرمایہ
افتخار تھے۔ اجل نے پاکستانیوں سے عبدالستارایدھی کوچھین کر انہیں ایک شفیق
ومہربان باپ کی شفقت سے محروم کردیا۔ اگرعبدالستارایدھی مرحوم کو نجات
دہندہ کہا جائے توبیجا نہ ہوگا،انہوں نے جاتے جاتے بھی اپنی آنکھوں کاعطیہ
دے کردوافرادکی تاریک دنیا روشن کردی۔ موت نے عبدالستارایدھی کی زبان
اورآنکھوں کوبندکردیا مگران کی دنیا سے رخصتی کے بعدبھی ان کاکام بولتا رہے
گا۔عبدالستارایدھی کی وفات سے ایدھی فاؤنڈیشن کے زیرکفالت یتیم بچے پھرسے
یتیم ہوگئے۔ عبدالستارایدھی کی پیدائش اوروفات والے دنوں کوقومی دن قراردیا
جائے۔
عبدالستارایدھی نے بامقصداورقابل رشک زندگی گزاری ۔ایدھی نے انسانیت کی
خدمت کواپنا مشن بنایا اورزندگی بھراس پرکاربندرہے ۔جوانسان دوسرے انسانوں
کیلئے آسانیاں پیداکرتا ہے قدرت کی غیبی مدد سے اس کیلئے بھی قدم قدم پر
آسانیاں پیداہوجاتی ہیں۔عبدالستارایدھی نے اپنا سب کچھ انسانیت کی خدمت
کیلئے نچھاورکردیا اوردنیا بھر کے انسانوں نے اس مسیحا کی موت کاسوگ مناکر
ان سے محبت اورعقیدت کاحق اداکردیا ۔موت ایک حقیقت ہے مگر باضمیر لوگ
عبدالستارایدھی جیسی موت کی آرزو اوراس پررشک کرتے ہیں۔ ایدھی فاؤنڈیشن محض
ایک فلاحی ادارہ نہیں بلکہ ایک تحریک اورایک مقدس مشن ہے ،قوی امید ہے فلاح
ِ انسانیت کی یہ تحریک نہیں رکے گی ۔ایدھی فاؤنڈیشن ہمارے پاس
عبدالستارایدھی کی ایک بیش قیمت امانت ہے اورپاکستانیوں کو اس کی
بھرپورحفاظت کرناہوگی۔عبدالستارایدھی کی وفات کے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کومزید
موثراورمنظم ادارہ بنانے کیلئے کوئی کسر نہ چھوڑی جائے اوراس سلسلہ میں
ریاست بھی اپنا کرداراداکرے ۔حکمران اورسرمایہ دار عبدالستارایدھی کی صاف
شفاف حیات ،گرانقدرخدمات اورقابل رشک موت سے کچھ سیکھیں کیونکہ دولت عزت کی
ضمانت نہیں ہے۔عبدالستارایدھی نے تنہا دکھی انسانیت کیلئے جوکارہائے نمایاں
انجام دیے وہ انسانی تاریخ کاروشن باب ہیں ۔ پاکستان اورپاکستانیوں کوایک
اورعبدالستارایدھی کی اشدضرورت ہے جوان کی راہوں سے کانٹوں کوہٹادے ۔
عبدالستارایدھی ایک عہد کانام تھا اورعہد کبھی نہیں مرتا ۔انہوں نے سماجی
خدمت کے شعبہ میں انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ عبدالستارایدھی کی انسانیت کیلئے
انتھک خدمات کودیکھتے ہوئے کئی ثروت مندلوگ سماجی خدمت کے شعبہ سے وابستہ
ہوئے۔عبدالستارایدھی ابدی نیندسوگئے مگران کے ہزاروں رضاکار جاگ رہے
ہیں۔عبدالستارایدھی کے ادارے یقینا بدستوراورمسلسل اپناکام کرتے رہیں
گے۔جنت الفردوس عبدالستارایدھی کی منتظرتھی لہٰذاء انہیں جاناپڑا ۔ وہ
زندگی بھرخلق خداکی خدمت کرتے کرتے خالق حقیقی سے جاملے ۔ عبدالستارایدھی
کسی ریاستی منصب کے محتاج نہیں تھے مگرپاکستان میں حکمرانوں سے زیادہ ان کی
عزت کی جاتی تھی۔ووٹ توکسی کو بھی مل جاتے ہیں مگرزیادہ قابل اعتمادوہ ہے
جس کولوگ نوٹ دیں، عوام کو عبدالستارایدھی کی جھولی میں نوٹ ڈالناپسندتھا
اورمرحوم مستحقین کی جھولیاں بھردیاکرتے تھے ۔ عبدالستارایدھی نے ثروت مند
انسانوں کومستحق اورمفلس انسانوں کی خدمت اورکفالت کادرس دیا ۔ایدھی
فاؤنڈیشن کانیٹ ورک ریاستی مشینری سے زیادہ فعال ،مضبوط اورموثرہے ۔ زمینی
وآسمانی اورسانحات کے دوران عبدالستارایدھی کی قیادت میں ایدھی فاؤنڈیشن کی
خدمات ناقابل فراموش ہیں۔عبدالستارایدھی کسی شفیق ومہربان باپ کی طرح
ہزاروں یتیم بچوں کی کفالت کرتے رہے اوریقینا انہوں نے جوخدمت کاسفرشروع
کیا تھا وہ کارواں ان کے بعدبھی رواں دواں رہے گا ۔ عبدالستارایدھی نے
بیواؤں کوبھی سہارا دیا ،مستحق اورمفلس افراد کی ضروریات پوری کرنا زندگی
بھرعبدالستارایدگی کانصب العین رہا ۔
عبدالستارایدھی خدمت انسانیت کی علامت تھے ۔خدمت خلق کے دوران
عبدالستارایدھی نے کئی چیلنجز کاسامنا کیا مگرانہوں نے کسی مرحلے پربھی ہمت
نہیں ہاری اور اپنے کردارسے اپنے کاز کومنوایا ۔ عبدالستارایدھی نے شہرت کی
بجائے انسانیت کی خدمت کواپناشعاراورمشن بنایا اوراس میں کامیاب رہے
۔اگرہمارے معاشرے میں عبدالستارایدھی سے دوچارلوگ مزید پیداہوگئے تواس کی
کایاپلٹ جائے گی ۔لوگ عطیات اورصدقات دینے کیلئے تیار ہیں مگر
عبدالستارایدھی کی طرح ہرکسی پراعتماد نہیں کیاجاسکتا ۔خدمت خلق
کوروزگارکاذریعہ بنانے والے کچھ عاقبت نااندیش افراد نے اس مقدس مشن کوبھی
بدنام کردیا ہے۔مادہ پرستی کے اس دورمیں عبدالستارایدھی کادم غنیمت تھا ،وہ
دنیا بھر کے باضمیر انسانوں کیلئے سرمایہ افتخار تھے۔عبدالستارایدھی نے موت
کی آغوش میں جاتے جاتے بھی دوانسانوں کی تاریک دنیا روشن کردی اوران کایہ
صادق جذبہ دیکھتے ہوئے ہزاروں انسانوں نے مرنے کے بعد اپنے اعضاء عطیہ کرنے
کااعلان کردیا ۔ عبدالستارایدھی نے زندگی بھرنہ صرف خودبھی نیک کام کئے
بلکہ دوسروں کوبھی صلہ رحمی کی تعلیم اورتر غیب دی ۔ عبدالستارایدھی سے
متاثرہوکرکئی لوگ خدمت خلق کے شعبہ کی طرف آئے اوران کی زندگی تبدیل ہوگئی
۔ عبدالستارایدھی کومارناموت کے بس کی بات نہیں ، عبدالستارایدھی نے زندگی
بھر انسانیت کی خدمت کیلئے جوکام کیا اس نے ان کے نام کوامرکردیا ۔ ہم
عبدالستارایدھی کے عہدمیں جی رہے تھے یہ ہم سب کیلئے ایک اعزازتھا ،ہمیں ان
کے ساتھ محبت برقراررکھنے کیلئے ان کامشن زندہ رکھناہوگا۔ |
|