کسی قوم کی تہذیب و تمدن اور ترقّی کا حال
معلوم کرنا ہوتو دیکھو اسکے معاشرے میں عورت کا درجہ کیا ہے بہترین معیار
یہی ہے جس زمانے میں اﷲ کے رسول محمد رسولﷺ اﷲ کا پیغام پہچانے کیلئے مبعوث
ہوئے عورت ساری دنیا میں محکوم تھی وہ بہت سے قانونی حقوق سے محروم تھی
لڑکیوں کو زندہ دفن کردینے کے ساتھ زنا کاری پر بے حیائی کے ساتھ عمل تھا
رسول اﷲﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ جواﷲ کی جانب سے آپ نے انسانیت کو
پہنچائیں تو ان باتوں کا یکسر خاتمہ کر دیا خداوند تعالیٰ کی بارگاہ میں
عورت اور مرد مساوی سطح پر ہیں نیکو کاری کے معاملے میں بھی اور اس کی جزا
اور انعام کے معاملہ میں بھی قرآن حکیم میں اسی پر بار بار زور دیا گیا (
ترجمہ کنزالایمان)
جو شخص کوئی نیک کام کرے خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطِ کہ صاحبِ ایمان ہو
اس شخص کو (دنیا) میں اسکے اچھے کاموں کے عوض میں انکا اجر دینگے سورہ نحل
آیت نمبر 97
خدا بیزارذہینت کا شاخانہ محض ظاہر فوائد کو نظر رکھ کر کسی شئی کے اچھے
برے ہونے کا فیصلہ کر نا صحیح نہیں ہے بلکہ اسکی معنویت اور پوشیدہ نتیجہ
خیزی کو بھی بحر حال ضرور مد نظر رکھنا چاہیئے
اخباری رپوٹوں کے مطابق یوروپ میں بہت سے لوگ بن بیاہ رہتے ہیں تو انکی
نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے کے لیئے کچھ ایسی عورتوں کا ہونا بھی ضروری ہے
جو انہی کی طرح محض نفسانی تکمیل حاجات کی تجارت کرتی ہوں لھذا عورتیں جو
عسمت فروشی کا پیشہ اختیار کئے ہوئے ہیں شوشل(Social Workers) ورکرس کے
زمرے میں داخلِ ہیں نعوذ باﷲ اب اندازہ لگائیں معیار فکر کا جس نے انسانی
نظام ِ حیات کی چولیں ہلا کر رکھ دئی ہیں -
کیا ایڈس (Aids) خدائی عذاب نہیں ہے آج ایڈس (Aids) نے ذنیا میں بلکہ
ہندوستان میں یہ مرض بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے صحت محکمہ کے وزیر غلام
نبی آزاد کا ابھی حال ہی میں بیان اخبار بینوں نے پڑھا ہوگا اس مہلک بیماری
نے ہلچل مچا رکھی ہے نہایت تیزی کے ساتھ ہزاروں مریضوں کا دم توڑدینا کیا
اس خدا بیزار سائنسی دنیا کے منھ پر قدرت کا تماچہ نہیں ہے ……………………
خواہشاتِ نفسانی انسانی وقار کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے خواہشات کی
اتباع کرنا شانِ بندگی کو مسخ کرکے رکھ دیتا ہے سماج کے صالح فرد میں
خواہشات و شہوات کی زیادتی سماج کیلئے رسوائی بنتی ہے جیسے ابھی دہلی میں
دامنی نام کی لڑکی (ریپ کیس Rape case ) کا واقعہ ہوا اور پھر مسلسل حادسات
ہوتے چلے آرہے ہیں یہ بات مسلم ہے کی عورت کی آزادی کے نام پربلا روک ٹوک
دیر رات تک (Boy Friend) کے ساتھ گھو منا پھرنا اس سے جنسی اختلاط پروان
چڑھیے گا تو انجام کار اِفعالِ شنیعہ (برے کام ) کا ارتکاب ضرور ہوگا-
اسی لئے محمد عربی ﷺ نے واضع قانون کا نفاذ فرماتے ہوئے خدائی حکم قرآن کا
اعلان فرمایا سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 17 ( ترجمہ کنزالایمان) زنا کے
قریب نہ جاو یہ بڑی بری راہ ہے اور برا چلن ہے
زنا انتہائی برا فعل ہے صرف اس سے اجتناب اور پرہیز ضروری بلکی اس کے دواعی
اور تقریب و تمہد کے کاموں سے بھی بچنا ضروری ہے کیونکہ شرافت و نجابت کا
یہ تقاضہ ہے کی اس فعل سے نہیں بلکی اس کے جتنے دواعی ہیں اس سے اجتناب و
احتراز کیا جائے-
اسی لئے اسلام نے ان تمام حرکات و سکنات کو جو بے حیائی بے شرمی بدکاری میں
معمولی رول ادا کرتے ہیں حرام قرار دئیے ہیں اور معاشرے کو ان سے پاک و صاف
کرکے صالح معا شرہ (Society) بنانے کی ہرممکن کوشش فرمائی انسانی جان کی
اہمیت ہر مذہب و ملّت میں موجود ہے اسلام میں انسانی جان کے قتل میں قصاص
کی سزا مقرر ہے مگر ناموس (عزت) (بلات کاریRapist ) انسانی کو داغ دار کرنے
کا جرم( سزا) صرف اور صرف موت ہے اگر کسی کے ہاتھوں کوئی ہلاک ہو جاے اور
مقتول کے ورثا اگر رضا مند ہو جائیں تو جان کے بدلے مال فدیا یعنی (دیت
جرمانہ) لیکر قاتل کی جان بخشی کر سکتے ہیں با خلاف اسکے (بلات کاریRapist
) زانی اور زانیہ کے سلسلے میں (both side)ترفین کی مصالحت کی بنیاد پر بھی
اس جرم کی تلافی کا کوئی راستہ نہیں………………
معلوم ہوا اسلام میں ناموس و عصمت کو انسانی زندگی سے زیادہ اہمیت دیتا ہے
اور زنا کے مجرم کو خدائی مجرم قرار دیکر موت کی سزا مقرر کرتا ہے اور حکم
دیتا ہے سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 17 ( ترجمہ کنزالایمان) زنا کے قریب نہ
جاو یہ بڑی بری راہ ہے اور برا چلن ہے آج بھی وہ تمام برائیاں ہمارے معاشرے
میں موجود ہیں جو ایا م جاہلیت میں کی جارہی تھیں لیکن فرق اتنا ہے کی
تاریکی میں کئی جارہی تھیں آج علم و فن تہذیب و آزاوی کے نام پر کیجارہی
ہیں لھذا ضرورت ہے کی محمد عربی ﷺ کی نافذ کردہ اصلاحات کو عام کیا جائے اس
پر عمل کرنے کی ترغیب دلائی جائے اور معاشرہ کو صالح اور پاکیزہ ماحول عطا
کیا جائے
نوٹ قارئین سے گذارش ہے مضمون کو زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پڑھایا جائے اردو
اخبار خرید کر پڑھا جائے تاکی دین کی اشاعت و تبلیغ ہو آمین ثمہ آمین |