ہسپتال یا چڑیا گھر؟

وزیراعلیٰ پنجاب اچانک ساہیوال کے ڈسٹرکٹ ہسپتال پہنچے تھے، لوگوں کے لئے اگرچہ یہ دورہ اچانک تھا۔اس دورے کے پیچھے دو عناصر اہم تھے، ایک یہ کہ وزیراعلیٰ اس سے قبل یہ اعلان بارہا کر چکے ہیں کہ اب وہ ہسپتالوں کے معاملات کو سیدھا کرکے دکھائیں گے، انہیں یہ دعویٰ اس لئے کرنا پڑا کہ ان کے برادرِ بزرگ جو کہ لندن میں اپنے دل کا علاج کروانے گئے تھے، مخالفین نے تنقید کا نشانہ بنایا کہ اگر خود پاکستان میں معقول ہسپتال ہوتا تو وزیر اعظم کو علاج کے لئے لندن نہ جانا پڑتا۔ اس ہنگامہ کے بعد وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے ہسپتالوں کی بہتری کا بیڑہ اٹھا لیا، یار لوگوں نے کلمہ شکر ادا کیا، ’دیر آید ، درست آید‘۔ چلیں عشروں کی تاخیر سے ہی سہی، بہتری تو آئے گی۔ دوسری اہم وجہ یہ بنی کہ ساہیوال میں جھولا ٹوٹ گیا، بچے زخمی ہوگئے، وزیراعلیٰ دراصل انہی کی عیادت کے لئے وہاں پہنچے تھے،انہوں نے ڈی سی او کو معطل کردیا۔ ہسپتال میں گندگی کے ڈھیر دیکھ کر صاحب کا موڈ بہت خراب ہوا، انہوں نے ہسپتال کے ایم ایس کی بھی سخت سرزنش کی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہسپتال ہے یا چڑیا گھر؟ انہوں نے جھولا گرنے سے زخمی ہونے والے ہر بچے کے لئے ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا۔ ہسپتال کے لئے وزیراعلیٰ کے یہ ریمارکس حسبِ حال ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ انہیں بخوبی علم ہے کہ پنجاب کے اکثر ضلعی ہسپتالوں کی یہی صورت حال ہے، وہ اِن ہسپتالوں کی نقشہ کشی بھی کرتے رہتے ہیں، وہاں کی مشینری کے خراب ہونے اور ڈاکٹرز کی غفلت وغیرہ کے قصے بھی سناتے رہتے ہیں۔

وزیراعلیٰ نے ہسپتال کو چڑیا گھر نہ جانے کن خصوصیات کی بنیاد پر قرار دیا، حالانکہ وہاں بات ہوئی تھی گندگی کے ڈھیروں کی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ چڑیا گھرو ں میں گندگی کے ڈھیر ہونا کوئی انوکھی بات نہیں۔ ممکن ہے کہ وزیراعلیٰ نے ہسپتال میں بلیاں، کُتے، چوہے اور کوّے وغیرہ وافر تعداد میں دیکھے ہوں، جن کی بنا پر انہوں نے ہسپتال کو چڑیا گھر کہا۔ مگر پنجاب کے ہسپتالوں میں چڑیا گھر کے جانور دیکھنے کے لئے چند لمحات کو آنکھیں بند کرنا پڑیں گی۔ ایسے میں سب سے پہلے تو ہاتھی دکھائی دے گا۔ ایسے ہاتھی صرف ہسپتالوں میں ہی نہیں، اکثر سرکاری اداروں میں ہوتے ہیں۔ ان ہاتھیوں کی ایک خوبی بھی ہوتی ہے کہ ان کا رنگ سفید ہوتا ہے۔ یہ ہسپتال یا اداروں کے وسائل ڈکارنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں ، جہاں یہ وسائل گھاس کی طرح چرنے کا کام کرتے ہیں، وہیں پر یہ چھوٹے موٹے اہلکاروں کو اپنے قدموں تلے روندنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ جب یہ ہاتھی مست ہو جاتے ہیں، پھر یہ کچھ بھی کر گزرتے ہیں۔ ہاتھیوں کے علاوہ ان ہسپتالوں میں بندر بھی ہوتے ہیں، جو کرتے کراتے تو کچھ نہیں، بس آنے والوں کو پریشان کرتے ہیں۔

ممکن ہے وزیراعلیٰ کی کسی چوہے پر بھی نظر پڑ گئی ہو، کیونکہ چوہوں کا تو ہر طرف راج ہے، یہ مخلوق ہسپتالوں سے لے کر پارلیمنٹ ہاؤس تک ہر جگہ موجود ہے۔ پشاور کے چوہے تو بہت عرصہ اپنی کارکردگی کے حوالے سے چھائے رہے، جن کی باز گشت شہر اقتدار میں بھی سنائی دی۔ پارلیمنٹ ہاؤس اور معزز ممبران کی رہائش گاہوں میں بھی چوہے پائے جاتے ہیں، یہ معاملہ بھی کسی خاص حکومت یا افراد تک محدود نہیں، سالہا سال سے پارلیمنٹ میں چوہے قابض ہیں، کوئی بھی حکومت اس کی ذمہ داری قبول نہیں کرتی اور کوئی بھی حکومت اس مصیبت سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب بھی نہیں ہوسکی۔ چڑیا گھر سے مراد ایسا مقام بھی ہے جہاں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے جانور رہتے ہیں، گویا چڑیا گھر ایک جنگل کا نام ہے، جہاں جانور اور پرندے کسی حد تک قید ہیں اور قانون انسان کا چلتا ہے۔ انسان کے قانون کی بات کریں تو جنگل کا قانون سامنے آجاتا ہے، جنگل کے قانون کا ذکر کریں تو انسان کا قانون نظر آنے لگتا ہے۔وزیراعلیٰ صاحب! یہ ہسپتال چڑیا گھر ہی تو ہیں، اسی لئے تو یہاں جنگل کا قانون رائج ہے، اسی لئے تو یہاں درندگی کی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں، اسی لئے تو یہاں کسی کا کوئی پرسانِ حال نہیں، اسی لئے تو یہاں ہمدردی کے جذبات مفقود ہیں۔ معاملات اچانک چھاپے مارنے سے درست نہیں ہونگے، ہسپتالوں کے وسائل کا جائزہ لیا جائے، وہاں کی ضرورتوں کا حساب کیا جائے ، مشینری، ادویات اور دیگر فنڈز کی سخت مانیٹرنگ کی جائے، تب جا کر بہتر نتیجہ برآمد کرنے کے کچھ امکان پیدا ہو سکتے ہیں، ورنہ یہ اچانک دورے اچانک ہی بے اثر ہو تے رہیں گے۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 472576 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.