بحیرہ جنوبی چین اور عالمی ثالثی عدالتی فیصلہ
(Muhammad Arshad Qureshi (Arshi), Karachi)
جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے دیے گئے فیصلے سے خطے میں امن و استحکام اور طاقت کا توازن بگڑے گا کیوں کہ فیصلہ سازی کے عمل میں دونوں فریقین کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے مگر عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے فلپائن کی سابقہ حکومت کی جانب سے یک طرفہ عالمی ثالثی عدالت کا رخ کیا گیا تھا جب کہ موجودہ حکومت اس مسئلہ پر مذاکرات کی حامی نظر آتی ہے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں جنوبی بحیرہ چین کے مسئلے کو متعلقہ فریقین کے درمیان باہمی مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے۔اس ضمن میں عالمی ثالثی عدالت کو بھی متنازعہ فیصلہ سازی کی بجائے فریقین کے درمیان باہمی مذاکرات سے مسائل کے حل کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ |
|
|
چین بحیرہ جنوبی چین کے سمندری علاقے میں
جزائر تون شا، شی سان ، جون شا اور نان شا پر اقتدار اعلی اور تاریخی حقوق
رکھتاہے جس کی تاریخ ایک طویل ہے اور اس مسلمہ حقیقت کو کسی صورت جھٹلایا
نہیں جاسکتا لیکن ایک عرصہ سے چلے آرہے فلپائن کے ساتھ اس مسلہا پر کشیدہ
تعلقات اس وقت شدت اختیار کر گئے جب امریکہ کےاکسانے پر فلپائن نے عالمی
ثالثی عدالت سے رجوع کرتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا امریکہ اور
چین کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں اور یہ ایک فطری بات بھی ہے کہ کوئی
طاقت ور کسی دوسرے کو اپنے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑا ہوتے
برداشت نہیں کرسکتا ۔ گوکہ چینی صدر نے کچھ عرصہ قبل ہی امریکہ کا دورہ کیا
تھا اور دنیا کو باور کرایا تھا کہ چین ایک پر امن ملک ہے اور دنیا کو
پرامن بنانے کے لیئے تمام دنیا کے ساتھ مل کر چلنا چاہتا ہے لیکن اپنی خود
مختاری پر کسی صورت کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔
جنوبی بحیرہ چین کے حوالے سے عالمی ثالثی عدالت کی جانب سے دیے گئے فیصلے
سے خطے میں امن و استحکام اور طاقت کا توازن بگڑے گا کیوں کہ فیصلہ سازی کے
عمل میں دونوں فریقین کا متفق ہونا ضروری ہوتا ہے مگر عالمی ثالثی عدالت کی
جانب سے اس پہلو کو نظر انداز کیا گیا ہے فلپائن کی سابقہ حکومت کی جانب سے
یک طرفہ عالمی ثالثی عدالت کا رخ کیا گیا تھا جب کہ موجودہ حکومت اس مسئلہ
پر مذاکرات کی حامی نظر آتی ہے بین الاقوامی اصولوں کی روشنی میں جنوبی
بحیرہ چین کے مسئلے کو متعلقہ فریقین کے درمیان باہمی مذاکرات کے ذریعے حل
کیا جانا چاہیے۔اس ضمن میں عالمی ثالثی عدالت کو بھی متنازعہ فیصلہ سازی کی
بجائے فریقین کے درمیان باہمی مذاکرات سے مسائل کے حل کی حوصلہ افزائی کرنی
چاہیے۔
عالمی ثالثی عدالتی فیصلے پر چین نے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس
فیصلے کی حیثیت محض ردی کے کاغذکے سوا کچھ نہیں چین ایسے کسی یک طرفہ اور
غیرمنصفانہ فیصلے کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا۔عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے پر
سو سے زیادہ ملکوں کی دو سو تیس سے زائد پارٹیوں اور سیاسی تنظیموں نے
بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے پر چین کے موقف کی حمایت کا اظہار کیا ہے اور
پاکستان کی پارلیمانی ممبر شیریں مزاری نے کہا کہ امریکہ بحیرہ جنوبی چین
میں تصادم چھیڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقیاتی
احسن اقبال نے کہا کہ دوسرے ممالک کو بحیرہ جنوبی چین کے امن و امان کے لیے
تعمیری نوعیت کا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
اس وقت امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ عالمی ثالثی عدالت کے فیصلے کو من و عن
مانا جائے اور ایسا نہ کرنے پر بزور طاقت جنوبی بحیرہ چین پر اپنا قبضہ
جمایا جائےجب کہ چین واضح کرچکا ہے کہ اگر اس مسلےق پر طاقت کا استمال کیا
گیا تو چین پوری طاقت سے اپنی خودمختاری کی حفاظت کرے گا۔فلپائن کے صدر
ڈوریٹ ردریگو نے کہا ہے کہ وہ سابق صدر والدیز راموس کو بطور خصوصی ایلچی
چین بھیجیں گے تاکہ وہ بحیرہ جنوبی چین کے مسئلے پر فلپائن اور چین کے
درمیان مذاکرات کے آغاز میں تعاون کو فروغ دے سکیں۔ فلپائن کے صدر کا یہ
بیان حوصلہ افزاء ہے جس سے امید کی جاسکتی ہے کہ پرامن طریقے سے اس مسئلے
کا حل نکل آئے گا ۔ لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا امریکہ بہادر فلپائن کو ایسا
کرنے دے گا یا پھر اپنا بحری جہاز بحیرہ جنوبی چین میں روانہ کرکے ایک نیا
محاذکھولے گا یہ تو شائید وقت ہی بتائے گا لیکن دانشمندی یہی ہے کہ دنیا
میں امن کی پرورش کی جائے مزید تنازعات پیدا نہ کیئے جائیں اور عالمی ثالثی
عدالت اور اقوام متحدہ کو بھی ممالک کے درمیان ہونے والی کشیدگی میں اپنا
منصفانہ کردار ادا کرنا ہوگا ۔ |
|