سوگ منانا انسانی فطرت کا حصہ ہے ، سوگ
منانا اور شہدا کو خراج عقیدت پیش کرنا ہر زندہ قوم کی علامت ہے ، آزادی کی
تمام تحریکوں سمیت تحریک آزادی ءِ پاک و ہند کے شہدا کے سوگ اور خراج عقیدت
کے لیے عوام الناس نکلا کرتے تھے ، رنج و غم کی کیفیت میں مغموم متوصلین کو
خون میں نہلا دینا بہر طورپر انتہائی غیر جمہوری اور غیر انسانی عمل ہے ،جس
کی دنیا کی کسی آئین و قانون میں گنجائش نہیں ہے ،مقبوضہ کشمیر میں جس طرح
کی داستانِ کشت و خون قابض بھارتی مسلح افواج نہتے ، معصوم و مغموم
کشمیریوں پر رقم کر رہی ہے اس بد ترین تشدد، کشت و خون اور ریاستی جبرِ
مسلسل کی مثال دنیا کی کسی تاریخ میں نہیں ملتی۔تشدد کی اس تازہ ترین لہر
میں قابض بھارتی افواج نے اب تک تئیس نہتے اور بے گناہ کشمیری نو جوانوں کو
شہید کر دیا ہے اور چار سو کے قریب نو جوانوں کوبدترین تشدد، آنسو گیس اور
گولیوں سے خون میں نہلا دیا گیا ہے جن میں سے اکثر کی حالت نازک ہے ۔ اور
پوری وادی گولیوں کی تڑ تڑاہٹ سے گونج رہی ہے ۔یہ سارا معصوم خون حزب
المجاہدین کے ہر دل عزیز کمانڈر برہان وانی کی شہادت کے بعد ان سے اظہار
عقیدت اوراس کی تعزیت کے جرم بہایا گیا ہے ۔برہان وانی کی شہادت سے پوری
وادی کو مغموم و رنجور نظر آتی ہے ۔ حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی
صرف وادی میں 45 مقامات پر غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی اور مرکزی جنازہ
اجتماع میں لاکھوں لوگوں نے شہید کمانڈر کی نمازِ جنازہ اور آخری رسومات
میں شرکت کی ہے ، نماز جنازہ کے اتنے زیادہ اور اتنے بڑے بڑے اجتماعات چیخ
چیخ کر کشمیر کاز کو نظر انداز کرنے والی پاکستانی حکومت ، پوری دنیاسمیت ،
بھارت کی مرکزی حکومت اور وادی میں قائم کٹھ پتلی حکومت اور انتظامیہ کو
انتہائی واضح پیغام دے رہی ہے کہ جس بھی مٹی کو اس طرح خون سے سینچا جائے
گا وہاں ہزاروں برہان وانی پیدا ہوتے ہیں یہ سلسلہ تادمِ آزادی جاری و ساری
رہتا ہے ۔ جس کا اعتراف وادی کے سابق کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداﷲ نے بھی
کیا ہے اور کہا ہے جو کام برہان وانی نہیں کر سکے وہ کام برہان وانی کی قبر
کر سکے گی برہان وانی کو شہید کر کے یہاں ہزاروں برہان پیدا کیے جا رہے ہیں۔
کشمیریوں کے ان انسانیت سوز مظالم اور انتہائی غیر انسانی بدسلوکی سے نجات
کب ملے گی ، کیا اقوام متحدہ اور مغرب جو انسانی حقوق کے چیمپئن بنے پھرتے
ہیں ان کو کشمیر میں بھارتی نسل کشی اور ظلم وستم نظر نہیں آتے ، کیا اقوام
متحدہ اور مغرب جو ایسٹ تیمور اور ساؤتھ سوڈان میں ان انسانی حقوق اور
مذہبی آزادی کا واویلا کر کے توڑ سکتی ہیں انہیں آج تک کشمیر میں ہونے والے
ظلم و جبر کی ان مٹ داستانیں نظر نہیں آتیں ۔کیا 1951ء میں اقوام متحدہ کے
قائم کردہ فوجی مبصر گروپ کوبھارتی فوج کی طرف سے اتنے بڑے پیمانے پر ہونے
والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں۔کیا اقوام متحدہ کو اپنی
پاس کردہ وہ قرار دادیں یاد نہیں جن کے تحت کشمیر میں آزادانہ رائے دہی کے
ذریعے کشمیرویوں کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ریفرنڈم کا انعقاد ہونا ہے ۔
بھارت نے ہمیشہ سے کشمیر کاز کو دبانے اور اس پر سے دنیا کی توجہ ہٹانے کے
لیے تمام تر حربے استعمال کیے ہیں تحریک آذادی کوروکنے کے لیے بھارت نے
تمام اخلاقی ، قانونی اور انسانی حدیں عبور کی ہیں، غیر انسانی کالے قوانین
کے ذریعے وادی کے باسیوں پر ہر طرح سے عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ریاستی
دہشت گردی سے لاکھوں نوجوانوں کو شہید کیا گیا، مختلف ہتھکنڈوں سے نو
جوانوں کو مقدمات میں پھنسایا گیا، ان گنت لوگوں کو گھروں اٹھایا گیا
سینکڑوں آج تک لاپتہ ہیں، گھرگھر تلاشی کے نام پرروزانہ بے جا صعوبتیں کھڑی
کی گئی،عورتوں کی عصمت دری کی گئی، تحریک آزادی کے رہنماؤں پر مسلسل قدغنیں
لگائی جاتی ہیں اور انہیں روزمرہ کے نجی امور کی انجام دہی سے بھی روک دیا
جاتا ہے ۔ فون اور انٹرنیٹ جیسی بنیادی سہولتوں بارہا بغیر کسی نوٹس کے بند
کر دیا جاتا ہے ،
ان تمام حالات کے تناظر میں پاکستانی حکومت کی سرد مہری ، اور قیمتی انسانی
جانوں کے ضیاع اور اس قدر انسانی حقوق کی پامالی کے باوجود بھارت کے ساتھ
کاروبار کی پینگیں بڑھانا فہم و فراست سے بالاتر ہے ، حالانکہ یہ بات روزِ
روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاک بھارت تعلقات اس وقت جمود کا شکار رہیں گے جب
تک ان کے مابین مسئلہ کشمیر کو حل نہیں کیا جاسکتا ۔بظاہر تو پاکستان
امریکہ کا سٹریٹجک پارٹنر ہے لیکن امریکہ نے ہمیشہ اپنے مفاد کی جنگ میں
پاکستان کی بلی چڑہائی ہے ،مسئلہ کشمیر پر بارہا پاکستان کے مطالبے کے
باوجود امریکہ نے چپ سادھ رکھی ہے ۔پاکستان حکومت کو بھر پور طریقے سے
سفارتی سطح پر مسئلہ کشمیرکو اجاگر کرنا چاہیے اور اس مسئلے کو ایک خصوصی
ایجنڈے کے طور پر لانچ کرنا چاہیے اور پوری دنیا یہ واضح کرنا چاہیے کہ پاک
بھارت تعلقات اور خطے میں پائیدار امن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر ناممکن ہے
۔بھارت حکومت پر واضح کرنا چاہیے کہ وادی میں نہتے کشمیریوں کے خون کے ساتھ
کھلوار بند کیا جائے اور بیش قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع کو روکا جائے ۔اوربھارت
پر واضح کر نا چاہیے کے مسئلہ کے حل کے بغیر کسی قسم کے تجارتی ،اور سفارتی
تعلقات عملی طور پر ممکن نہیں ہیں۔ |