ترکی بغاوت۔سیاستدانوں کے لئے ایک سبق
(Roshan Khattak, Peshawar)
بے شک جمہوریت (پاکستان جیسی نقلی
جمہوریت نہیں )ایک بہترین طرزِ حکومت ہے،اس کا ثبوت ہمیں حال ہی میں
ترکیمیں ہو نے والے فو جی بغاوت کی ناکامی سے ہو تا ہے جہاں ترکی کے عوام
نے باغی فو جیوں کے ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر یہ ثابت کیا کہ اگر ملک میں
صحیح معنوں میں جمہو ریت ہو تو عوام ایسی جمہوریت کو بچانے کے لئے تن من
دھن کی قر بانی دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ماضی کے جھروکوں میں جھا
نکیں تو مسلم ممالک میں ایسی مثال نہیں ملتی کہ جمہوریت کو بچانے کے لئے
عوام نے اس طرح سینہ سپر ہو کر فوجی انقلاب کا راستہ روکا ہو بلکہ عموما
مسلم ملکوں میں سیاسی حکومتوں کے خاتمے کے لئے فوجی بغاوتیں تقریبا ہمیشہ
ہی کامیاب ہو کر انقلاب کا نام پا تی رہی ہیں۔مگر گزشتہ روزدنیا نے ٹی وی
اسکرین پر یہ عجیب منظر دیکھا کہ فوج کے ایک گروپ کی جانب سے اہم مراکز پر
قبضے ، حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد ترکی کے صدرِ مملکت جنا ب طیب اردوان
کی جانب سے بیرونِ ملک سے ٹی وی پر قوم سے کی گئی اپیل پر چند لمحوں میں
ملک کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد جمہوریت کی حفاظت کے لئے گھروں سے
باہر نکل آئے اور گن شپ ہیلی کاپٹروں سے گولیوں کی بارش کی پروا کئے بغیر
ایوانِ وزیراعظم کی جانب بڑھتے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے اور یوں فوجی بغاوت
کو ناکام بنا دیا۔
اس ناکام بغاوت میں ہمارے حکمرانوں کے لئے ایک بہت مفید اور دلچسپ سبق مو
جود ہے۔ہم سب جانتے ہیں کہ وطنِ عزیز میں جب بھی مارشل لاء لگا تو عوام نے
اس پر خو شی کا اظہار کیا بلکہ مٹھائیاں تک تقسیم ہو ئیں، ترکی میں بھی اس
سے پیشتر چار مرتبہ فو جی بغاوتیں ہو ئیں اور سب کامیاب رہیں، اب پانچویں
ناکام ہو ئیں، یہ کیوں ناکام ہو ئی ؟ چار بار فوج نے قبضہ کیا تو کو ئی
باہر نہ نکلا ، اب ترک عوام کیوں باہر نکلے۔ ؟پاکستان میں ایسا کیوں نہیں
ہو تا ؟․․اگر ہم ان باتوں کا تجزیہ کریں تو تو روزِ روشن کی طرح یہ بات
عیاں ہو جاتی ہے کہ عوام اپنے ان قائدین کے لئے جان نچھاور کو تیار ہو تے
ہیں جو ان کے لئے کچھ کر گزرتے ہیں۔طیب اردوان استنبول کا مئیر تھا تو اس
نے اس شہر کی تاریخ ہی بدل دی۔نچلے سطح پر عوام کی ایسی خدمت کی کہ عوام اس
کے گرویدہ ہو گئے اور اسے ملک کا وزیراعظم اور پھر صدر بنا دیا تو اپنے ملک
میں عوام کی بھلائی اور قومی ترقی کے لئے نتیجہ خیز کام کر کے دکھایا ، بد
ترین کرپشن سے ملک کو نجات دلائی، ڈوبی ہوئی معیشت کو مسلسل محنت سے ترقی
کی شاہراہ پر گامزن کیا، تعلیمی نظام کو قومی ضروریات سے ہم آہنگ کرکے ترقی
یافتی ملکوں کے ہم پلہ بنیا، بین ا لاقوامی معملات میں جراء ت مندانہ
فیصلوں سے ترکی کو ایک خود دار اور خود مختار ملک کا مقام دلایا، ان وجوہ
کی بناء پر عوام نے آج اس کے خلاف فوجی بغاوت ناکام بنا دی ۔’’
ہمارے ہاں فوجی حکومت کو خوش آمدید اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارے سیاستدان
دورانِ اقتدار ترقی و خوشحالی دینے کی بجائے غربت، مہنگائی، بے روزگاری اور
زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محرومی جیسے عوامی مسائل کو نظر انداز کرتے
ہیں۔میرٹ کے بجائے رشوت، سفارش اوراقرباء پروری کو فروغ دیتے ہیں ،کرپشن کے
مختلف حربوں سے قومی وسائل کی لوٹ کھسوٹ میں ملوث ہو تے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں فوجی انقلابات پر مٹھائیاں بانٹتے رہے ہیں۔ترکی
میں اردوان بلدیاتی نظام سے طاقت حاصل کرتے ہیں اور عوام کے دل جیتتے ہیں
جبکہ ہمارے حکمران بلدیاتی نظام سے نفرت کرتے ہیں کیونکہ ان کے اختیار میں
کمی کا خدشہ ہو تا ہے ، یہاں فوجی حکمران بلدیاتی ادارے متعارف کراتے ہین
جبکہ سیاسی حکمران انہیں تباہ کرتے ہیں جنرل مشرف کے بلدیاتی اداروں کی مدت
ختم ہو ئی تو زرداری اور اس کے بعد نواز حکومت نے ان کا نام تک نہ لیا، آخر
بہت مجبور ہو کر بلدیاتی انتخابات ہو ئے بھی تو برائے نام،، الغرض ترکی میں
ناکام بغاوت پوری دنیا کے سیاستدانوں کے لئے با لعموم اور پاکستان کے
سیاستدانوں کے لئے با لخصوص ایک سبق ہے اور وہ یہ کہ عوام کی محبت کو
بہترین طرزِ حکمرانی سے خریدا جا سکتا ہے ، عوام اپنے ان حکمرانوں سے محبت
کر تے ہیں جو ان کی ترقی و خوشحالی کے لئے نتیجہ خیز کام کرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ |
|