ترکی میں فوجی بغاوت کی ناکامی پر پاکستانی
حکومت کے حامی بہت سے عظیم صحافی، نامور تجزیہ کار اور باکمال اینکر اسے
پاکستان حکومت کے لئے ایک اچھا شگون قرار دے رہے ہیں۔ان کے نزدیک اس حادثے
کے بعد پاکستان میں موجود جمہوریت نما جمہوریت کا مستقبل اب بہت تابناک
ہے۔اردگان ایک نظریاتی کارکن تھا جو بتدریج اپنی محنت کی وجہ سے موجودہ
مقام پر پہنچا۔ اس کی جماعت بھی نظریاتی ہے اور اس کی جماعت کا ہر کارکن
نظریاتی ہے۔نظریاتی کارکن بے لوث ، اخلاقی قدروں کاحامل، دلیر، فدائی اور
نظریے کی خاطر ہر قربانی دینے والا ہوتا ہے۔ یہاں کی حکمران جماعت میں لیڈر
سے لے کر ادنی ترین کارکن تک ہر شخص مالی قدروں کا اسیر ہے ۔ لوٹ مار جن کا
نظریہ ہے۔ایسے میں پاکستان اور ترکی کے حالات کا موازنہ ممکن ہی نہیں۔ وہاں
تو صدر کی اپیل پر لوگ حکومت بچانے کے لئے ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے اور وہ
کر دکھایا جس کی تاریخ میں مثال کم ملتی ہے۔وہاں کی اپوزیشن بھی حکومت کے
ساتھ کھڑی تھی۔ بغاوت کرنے والا بھی فوج کا ایک دھڑا تھااصل بات یہ ہے کہ
عوام کو فوج یا جمہوریت سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ عوام کے اپنے مفادات ہیں جن
کے تحفظ کے لئے وہ بہتر نظام کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اردگان کا کمال یہی ہے
کہ اس نے عوام کو ایک بہتر نظام دیا۔لوگوں نے جمہوریت نہیں بچائی ایک بہتر
نظام بچایا ہے۔
احسان علی شاہ میرے ہمدم دیرینہ ہیں۔ 70 کی دہائی کے ابتدا میں ہم اسلام
آباد (موجودہ قائداعظم) یونیورسٹی میں ہم کلاس، ہم مکتب، ہم پیالہ ، ہم
نوالہ اور بہت کچھ تھے۔ شاہ صاحب اک عرصہ سے اامریکہ میں مقیم ہیں مگر ان
کا دل پاکستان کے ساتھ ہی دھڑکتا ہے۔ پاکستان کے معاملات پر ان کی گہری نظر
ہے۔وہ نظریاتی آدمی ہیں۔ اردگان کے خلاف خبروں نے ساری رات شاہ صاحب کو بے
چین رہے۔ ان کے بس میں اگر ہوتا تو وہ بھی انقرہ میں کسی ٹینک پرسوار ہوتے۔
مگر وہ دعاگو رہے اورجب تک مثبت خبریں نہ آہیں وہ پریشان رہے۔ سوچتا ہوں کہ
جس شخص کے لئے غیر لوگ اتنے خوبصورت جذبات رکھتے ہوں اسے کون مات دے سکتا
ہے۔شاہ صاحب نے مجھے بہت اچھا تجزیہ بھیجا ہے۔ وہ کہتے ہیں یہ کسی گروپ کی
بات نہیں۔ کسی خاص گروہ کی بات نہیں۔ یہ عوام کی خدمت کی بات ہے۔ یہ ادارے
ڈویلپ کرنے کی بات ہے۔ یہ کسی کی کارکردگی کی بات ہے۔اردگان عوام میں سے
تھا۔ اس نے عوام کی خدمت کی ہے اور یہی اس کی مقبولیت کی وجہ ہے۔ لوگ عوام
کے لئے ایک کام کرکے پھولے جاتے ہیں جبکہ اس کے کاموں کی فہرست انتہائی
طویل ہے جن میں چند یہ ہیں:
1۔اردگان نے حکومت سنبھالی تو ترکی آئی ایم ایف کا ساڑھے تیےس (23.5) بلین
ڈالر کا مقروض تھاجو 2012 میں کم ہو کراعشاریہ نو (0.9) بلین ڈالر رہ گیا۔
چند مہینوں میں باقی ماندہ قرضہ بھی ختم ہو گیااور ترکی ایک آزاد معاشی ملک
قرار پایا۔ 2012 میں ترکی کی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب آئندہ آئی ایم ایف
سے کوئی معائدہ نہیں کیا جائے گا اور سب سے خوبصورت بات یہ کہ ترکی نے آئی
ایم ایف کو قرضہ دینے کی پیشکش کر دی۔
2 ۔2002 سے 2012 تک اردگان دور میں ترکی کی گی ڈی پی(GDP) میں حقیقی اضافہ
چونسٹھ (64) فیصد ہوا جبکہ عام آدمی کی آمدن ( GDP per Capita) میں اضافہ
ترتالیس (43) فیصد رہا۔
3۔ 1996 میں آپ ڈالر لے کر جائیں تو چند ڈالروں کے بدلے آپ ایک بوری بھر کر
لے آتے تھے کیونکہ ایک ڈالر کے بدلے آپ کو دو سو بائیس ) (222 ترکی لیرے مل
جاتے تھے۔آج ترکی معاشی طور پر اس قدر بہتر پوزیشن پر ہے کہ اب ایک ڈالر کے
فقط دو اعشاریہ نو چار (2.94) یعنی تین ڈالر سے بھی کم ملتے ہیں۔
4 ۔ تعلیم کسی بھی ملک کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔اردگان عہد
میں اس بات کو تسلیم کیا گیا اور تعلیم کا بجٹ جو 2002 میں فقط ساڑھے سات
(7.5) بلین لیرے تھا 2011 تک بڑھا کر چونتیس (34) بلین لیرے کر دیا گیا۔
قومی بجٹ میں یہ کسی بھی وزارت کا سب سے بڑھا حصہ ہوتا ہے۔
5 ۔ 2002 میں ترکی میں 98 یونیوسٹیاں تھیں۔ ہائر ایجوکیشن میں اردگان حکومت
کی خصوصی دلچسپی کے سبب 2012 میں ان کی تعداد بڑھ کر 186 ہو گئی۔
6 ۔ تر کی کے مرکزی بنک کے ریزرو 2002 میں چھبیس اعشاریہ پانچ (26.5) بلین
تھے ۔ 2011 میں یہ ریزروہ بانوے (92) بلین سے بھی زیادہ ہو گئے تھے۔
7۔ مہنگائی کی شرح (inflation Rate) جو 2002 میں بتیس (32) فیصد تھا صرف دو
سال کے قلیل عرصے میں کم ہو کر فقط نو (9) فیصد پر آگیا۔
8 ۔ اردگان دور میں ترک ریلوے میں انقلابی تبدیلیاں نظر آئیں۔ ترکی کی
تاریخ میں پہلی دفعہ 2009 میں ہائی سپیڈ ٹرین کا آغاز کیا گیا ۔ دس سو
چھہتر) (1076 کلو میٹر نئی پٹری بچھائی گئی۔ریلوے کی پانچ ہزار چار سو
انچاس (5449) کلو میٹر پرانی پٹری کی مرمت کا کام کیا گیا۔
9 ۔ اردگان عہد سے پہلے ملک میں کل چھبیس (26) شہروں میں ائیر پورٹ تھے ۔
اس وقت ملک میں پچاس (50) سے زیادہ ائیر پورٹ ہیں۔
10 ۔ لا تعداد چھوٹی بڑی سڑکوں کی تعمیر کے علاوہ تیرہ ہزار پانچ سو
(13500) کلو میٹر موٹر ویز کی تعمیر سے ملک کے تمام حصوں کے درمیان تیز
رفتار آمدورفت کا بندوبست کیا۔
11 ۔ صحت کے بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا۔ پورے ملک میں ہیلتھ گرین کارڈ
کا اجرا کیا گیا جس سے ہر شہری کو مفت علاج کی سہولت حاصل ہوئی۔
12 ۔ 2010 میں ترکی کے قرضوں کے پانچ سالہ دو طرفہ معاہدے (CREDIT DEFAULT
SWAP) ریکارڈ نچلی سطح یعنی صرف ایک اعشاریہ ایک سات (1.17) فیصدپر ٹریڈ
ہوئے۔ یہ شرح یورپ اور روس کے ٹریڈ ہونے والے معادوں سے بھی بہت کم ہے۔
ایسے بہت سے اور بھی دوسرے اقدامات تھے جن کی وجہ سے عوام اردگان کے شانہ
بشانہ کھڑے ہوئے۔ پاکستانی حکومت نے کیا دیا۔ لوڈ شیڈنگ اور پروٹولوکول
جیسی ذلیتیں۔ ایک چار سو(400) کلو میٹر کی موٹر وے جو اب تک ہر جگہ رقصاں
ہے ۔ تقابل کرنے والوں سے عرض کہ اردگان کی خدمات کے بارے پڑھتے جائیں
شرماتے جائیں۔ |