پاکستان اور افغانستان کے لئے
امریکہ کے خصوصی نمائندے رچرڈ ہالبروک ایک ایسے وقت میں پاکستان کے چار
روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، جب بعض امریکی حکام نے حقانی گروپ
کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں،اور کئی امریکی سینیٹروں
نے اوباما انتظامیہ سے افغان جنگ کے اصل حقائق بارے وضاحت طلب کی ہے کہ
امریکی عوام کو بتایا جائے کہ امریکا افغان جنگ ہار چکا ہے۔
پاک افغان معاملات کے خصوصی امریکی ایلچی رچرڈ ہالبروک پاکستان آ رہے ہیں
جہاں وہ دونوں ملکوں کے درمیان دوسرے سٹریٹجک مذاکرات کی تیاری کے سلسلے
میں مختلف حلقوں سے مذاکرات کریں گے۔ ان کے پیچھے پیچھے امریکی وزیر خارجہ
ہیلری کلنٹن بھی پاکستان پہنچ رہی ہیں، جو بعد ازاں بیس جولائی کو کابل میں
ہونے والی اقوام متحدہ اور افغان حکومت کی مشترکہ کانفرنس میں شرکت کریں
گی۔ ہیلری کا پانچ ماہ میں پاکستان کا دوسرا دورہ ہوگا، جب کہ رچرڈ ہال
بروک اپنی تعیناتی کے 18 ماہ کے دوران پاکستان میں اپنے 15 ویں دورے پر
آئیں گے۔ اوباما انتطامیہ نے پاکستان کے ساتھ دفاع، معیشت، عالمی منڈیوں تک
رسائی، سائنس و ٹیکنالوجی، زراعت، صحت اور دیگر شعبوں میں بھرپور تعاون
جاری رکھنے کے لئے سٹرٹیجک ڈائیلاگ آگے بڑھانے کا عزم کر رکھا ہے، جس کا
پہلا دور گزشتہ مارچ میں واشنگٹن میں منعقد ہوا تھا۔ دوسری جانب امریکی
حکام نے پاکستان پر حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کے مطالبے میں ناکامی کے
بعد اس گروپ کو دہشت گرد قرار دلوانے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ افغانستان
میں امریکی فوج کے نئے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے حقانی گروپ کو بلیک لسٹ
کرنے کے تجویز دی ہے، جس پر اوباما انتظامیہ کے متعدد حکام سنجیدگی سے غور
کر رہے ہیں۔ حقانی گروپ کو دہشت گرد قرار دینے کی سب سے پہلے تجویز سینیٹر
کارل لیون نے دی تھی جو ابھی پاکستان اور افغانستان کے دورہ سے واپس گئے
ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکا کا یہ اقدام افغانستان میں افغان
حکومت اور طالبان کے درمیان سیاسی مصلحت پر اثرانداز ہو سکتا ہے، جس سے خطے
میں عدم سیا سی استحکام پیدا ہوگا اور پاکستان کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا
ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ قبائلی علاقوں میں طالبان اور القاعدہ کے رہنماﺅں
پر مسلسل ڈرون حملے کر رہا ہے، مگر ساتھ ہی وہ چاہتا ہے کہ پاکستان ان
گروپوں کے خلاف کاروائی کرے۔
ادھر امریکی سنیٹروں نے اوباما انتظامیہ سے افغان جنگ کے مقاصد اور وہاں سے
انخلاء کی وضاحت بھی طلب کر لی ہے۔ سینٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی نے رچرڈ
ہالبروک سے کہا ہے کہ امریکی عوام اس نو سالہ جنگ کی حقیقت کے بارے میں
بہتر جواب مانگ رہی ہے۔ حکمران جماعت ڈیمو کریٹس کے سینیٹر جم ویبjim webb
نے سینٹ کے اجلاس میں کہا ہے کہ اس جنگ سے عوام کی بہت بڑی تعداد مایوسی کا
شکار ہے، جو اس کے نتائج اور حقائق جاننا چاہتے ہیں۔ چئیرمین سینٹ کمیٹی
جان کیری کہتے ہیں کہ حالات کی نزاکت ہم سے کارکردگی کے حوالے سے سخت
سوالات کر رہی ہے، ہمیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے القاعدہ کو شکست دیکر
افغانستان میں مستحکم حکومت قائم کرنا ہوگی۔ رپبلکن پارٹی کے سینیٹر جم ڈی
منٹjim De mint کا کہنا ہے کہ صدر اوباما نے افغانستان سے جولائی2011 کی
انخلاء کی تاریخ دے کر یہ تسلیم کر لیا کہ امریکہ افغان جنگ ہار چکا ہے۔
رچرڈ ہالبروک نے جواب میں کہا ہے کہ صدر اوباما کا افغانستان میں مزید 30
ہزار فوجی جنگی مقاصد کے لئے نہیں بلکہ افغان سویلین حکومت کے امدادی کاموں
میں مدد کے لیے بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ رچرڈ ہال بروک کچھ بھی کہیں حقائق
یہ ہیں کہ افغان جنگ کے حوالے سے بڑھتی ہوئی بحث اور عوامی بے چینی ڈیمو
کریٹک پارٹی کے لیے نومبر میں ہونیوالے وسط مدتی انتخابات میں بہت برے
نتائج لے کر آئے گی اور وہ سینٹ اور ایوان میں اپنی اکثریت سے محروم تو ہو
گی ہی، ساتھ ہی اوباما دوسری مدت صدارت میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے۔ دہشت
گردی کے خلاف جنگ ایک دلچسپ موڑ پر آن پہنچی ہے جہاں امریکا کے لئے اہم
فیصلے کرنا اب ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس تناظر میں امریکی حکام کے پاکستان اور
افغانستان کے دورے خاصی اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔
|