تصور شر
(shafiq ahmad dinar khan, peshawar pakistan)
تصور شر پر ایک نظر |
|
شر کی فطرت کے بارے یں سوال فلسفہ، مزہب اور اخلاقیات کے حوالے سےنہایت اہم
ہے۔ دنیا مین دکھ کی
موجودگی نے زندگی کی تو ہمات کے ساتھ ساتھ کچھ بھلا ئیون کی جانب بھی مائل
کیا۔ دکھ زہن کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، اگر شر ہے تو خیر کی قیمت ہے، یہ
گناہ ہے جو نیکی کو قابل قدر بناتا ہے۔اگر کجروی موجود نہ ہوتی، تو کو ئی
درست راہ تلاش نہ کی جاتی۔
شر وہ سب کچھ ہے جو خیر نہیں، یعنی نقصان دہ ، ضرر رسان، خوف ناک، زندگی
کیلئے خطرہ۔ لیکن انسان زندگی کی دوڑ میں شر سے دامن بچا کے خیر کی تگ و
دود میں محو سفر ہے، لیکن کیا انسان کامیاب نظر آتا ہے؟ ایک کشمکش ہے، جس
پہ محو حیران ہے سب۔
سترھویں صدی کے جر من فلسفی ولہم لیبنز نے کہا خدا کی قدرت کے ممکنہ دنیاوں
میں سے بہتریں دنیا میں شر کی موجودگی لازمی ہے۔
صدیوں سے چلا آرہا تصور شر بچپن سے ہی ہمارے زہنوں میں اپنی جگہ بناتا ہے۔
ہی تصور کہا نیون اچھے اور برے خیالات کے علاوہ موجودہ دور میں کار ٹو نوں
اور فلموں کے توسط سے بھی بننتاہے۔ در اصل یہ تصور شر تصور برائی کو واضح
کرنے کیلئے استعمال ہوتاہے۔ جس طرح کالے رنگ کے بغیرسفید رنگ اپنی ‘‘
تقابلی اہمیت “ کھو دیتا ہےاسی طرح شر کے بغیرخیر یا نیکی بھی بے معنی ہو
جاتا ہے۔
ہم اگر صرف اپنے موجودہ معاشرے کےحوالے سے بات کریں توہمارے بہت سے تصورات
شر اسی قدیم سوچ کے عکاس ہیں، کالی بلی، کالی زبان، کالی آندھی، کالا قانون
وغیرہ مخصوص فکیر ساخت رکھتے ہے، ہمارے ہر کالی چیز بلاٰوں اور ابتلاوں کی
نمائندہ ہے، لہذا ہم سوگ منانے کیلئےکالا لباس پہنتے ہے، احتجاج کیلیئے
کالی پٹیان با ند ھتے ہے، نماز پڑھتے وقت اپنے جسم کے کالے حصوں کو ڈھا
نپتے ہے۔ اس کے علاوہ کالا بکرا ہا کالا مرغا صدقے میں دے کر یہ تصور کر
لیا جا تا ہے کہ وہ اپنے کالے رنگ میں ہماری مصیبتیں بھی ساتھ لے گیا۔
ہمارے شیطان اور چڑیلییں تاریک جگہوں پر آباد ہے، یا عموما رات کے وقت ہی
وارد ہو تے ہے۔ آج اگر ہم کسی بچے کی تعریف کر دیں تو اس کی ماں فورا “ ماء
شاللہ “ چشم بد دور کہے گی، اگر کوئی شخص پر شکوہ مکان تعمیر کرتا ہے تواس
کے سامنے جلی حروف میں ماشاء للہ لیکھ دیتا ہے ، یا سب سے بھلا ئی منظر پر
کالی ہانڈی رکھی جاتی ہے۔ یہ اصل میں شر انگیز نظروں کے خلاف منتر ہے۔
لیکں جب ہم غور کرتے ہے تو یہ سارے توہمات ہے، حتی کہ ہم خود کو بھی ان کا
حصہ پاتے ہے، ان سب کی وجہ صرف ایک ہے ہی ہے، کہ شر کی قوت مسلسل ہمیں
نقصان پہنچانے کیلیے تیار ہے۔ جدید سائنسی دور کے سائینسی ادب یا سائینس
فکشن میں بھی موجود ہے، ہمیں یہ سب کچھ نسل در نسل منتقل ہوتا آیا ہے، تصور
شر کی راج سے انسان منفی قوتوں کا شکا ر رہتا ہے، یہ ایک خآرجی عمل سے
زیادہ داخلی عمل ہے، تو مثبت قوتوں سے قربت اور جذبہ علم و عمل سے ہی اس
تصور کا حقیقی معنوں میں اندازہ لگا سکتے ہے۔ |
|