سال 2015....بیتی یادیں

سال 2015ہم سے الوداع ہوگیا ،بلکہ یوں کہیں کہ ہماری زندگی کا ایک اور سال کم ہوگیا۔ اس دوران ملکی وعالمی سطح کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر ریاست میں بھی سیاسی، اقتصادی، سماجی، مذہبی ونجی طور کئی ایک ایسے واقعات پیش آئے جوکہ تاریخ کے اوراق کا حصہ بنے۔
سال 2015ہم سے الوداع ہوگیا ،بلکہ یوں کہیں کہ ہماری زندگی کا ایک اور سال کم ہوگیا۔ اس دوران ملکی وعالمی سطح کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر ریاست میں بھی سیاسی، اقتصادی، سماجی، مذہبی ونجی طور کئی ایک ایسے واقعات پیش آئے جوکہ تاریخ کے اوراق کا حصہ بنے۔ ان میں سے کچھ ریاستی وملکی سطح کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنے ۔یہ سال کسی کے لئے خوشی لایاتو کسی کے لئے دکھ کے پہاڑ، کئی با اولاد ہوئے تو کئی بے اولاد، کئی گھر بسے تو کہیں اجڑے، کسی کو ملازمت ملی تو کسی کے ہاتھ میں مایوسی ،تعلیمی، کھیل کود اور دیگر میدانوں میں کسی نے نمایاں کارکردگی حاصل کی تو کسی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ حدمتارکہ اور بین الاقوامی سرحد پر حسب سابق فائرنگ سے ہزاروںکنبے متاثر ہوئے، سینکڑوں اڑے، ہجرت کی۔ گھر ، محلہ، گاؤں، پنچایت، بلاک، تحصیل، ضلع ، ریاست، ملک سے عالمی سطح پر سال 2015کے دوران کئی واقعات پیش آئے، ان میں سے چندایسے واقعات ہیں جومجموعی طور جموں وکشمیر ریاست کی عوام کے لئے زیادہ اہمیت کے حامل رہے یا پھر انہیں کافی دیر تک یاد رکھاجائے ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل پیش خدمت ہیں۔
پی ڈی پی ۔ بی جے پی مخلوط حکومت سازی
سال 2015کا جب آغاز ہوا تو اس وقت ریاست بھر میں غیر یقینی سیاسی صورتحال پیدا تھی، سیاسی وعوامی حلقوں میں اس وقت جوچیزسب سے زیادہ موضوع بحث تھی، وہ یہ تھی کہ حکومت سازی میں کون سے جماعتیں شامل ہونگیں، جہاں پارٹی سطح پر متعدد سیاسی جماعتوں کے رہنما حکومت سازی کے لئے آپشن پر غوروکر رہے تھے وہیں، اخبارات اور سیاسی پنڈت اپنے تجربہ اور نقطہ نگاہ سے آئے روز نئے نئے آپشن پیش کر رہے تھے۔ 23دسمبر2014کو ہوئے اسمبلی نتائج میں جموںوکشمیر کی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ بھارتیہ جنتا پارٹی 25نشستیں جیتیں۔ فروری کے وسط تک یہ بات طے ہوگئی کہ پی ڈی پی۔ بی جے پی کی صورت میں نیا اتحاد حکومت بنے گی لیکن اس کا آغاز جنوری کے ابتدائی ایام میں ہی شروع ہوگیا تھا، سخت ترین بحث وتمحیص کے بعد جنوب وشمال قطب کے آپسی ملاپ کو یقینی بنانے کے لئے کئی سخت گیر موقفوں میں نرمی پیدا کرنے کے بعد کم سے کم مشترکہ پروگرام مرتب کیاگیا۔ بھاجپا نے جہاں دفعہ370، ایک ودہان، ایک نشان، ایک پردھان پر اپنے سخت گیر موقف میں نرمی لائی تو وہیں پی ڈی پی کو سیلف رول کے ساتھ سمجھوتہ کرنا پڑا۔ اس چہ مہ گوئیوں پر یکم مارچ2015کو بریک لگی جب جموں یونیورسٹی کے جنرل زور آور سنگھ آڈیٹوریم میں حکومت سازی کی حلف برادری کی تقریب منعقد ہوئی۔ یہ دن نہ صرف جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ بلکہ ملکی وعالمی سطح کی تاریخ میں درج ہوا، تقریب میں بھاجپا کے وزیر اعظم ہند نریندر مودی ، پارٹی لیڈر امت شاہ، لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جیسی قد آور شخصیات بھی موجود تھیں۔ مفتی محمد سعید نے بطور ریاستی وزیر اعلیٰ حلف اٹھایاجبکہ بی جے پی کے کئی ممبران کو بھی ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بطور وزیر عہدے کا حلف اٹھانے کا موقع ملا۔ اعلیحدگی پسند خیمہ سے مین سٹریم میں آنے والے سجاد غنی لون نے بھی بھاجپا کوٹہ سے وزارت کا حلف اٹھایا۔ چار مارچ کو جہاں اکثر وزراءنے اپنا کا م کا ج سنبھا ل لیا وہیں پیپلز کا نفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون اپنی وزارت سے ناخوش ہو کر سکریٹریٹ جانے کے بجا ئے حیرت انگیز طور پر سرینگر لوٹ آئے تھے جس کے بعد انہیںسائنس ، ٹیکنالوجی اور پشو پالن کا قلمدان سونپا گیا۔سال 2015کو سب سے زیادہ پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت سازی کے لئے جانا جائے گا کیونکہ یہ ایک مشکل ترین فیصلہ تھا جس نے سب پر یہ بات بھی عیاں کر دی کہ سیاست میں سب کچھ جائز ہے اور اقتدار کی حصولی کے لئے کس حد تک جایاجاسکتا ہے۔
ہند پاک تعلقات
سال 2015ہند پاک کے مابین بہترتعلقات کیلئے بھی سابقہ سالوں کے برعکس کافی اہمیت کا حامل رہا۔ دو روایتی حریفوں اور پڑوسیوں کے درمیان رشتووں میں بہتری کے حوالہ سے کوئی چھوٹی بھی پیش رفت اگر ہوتی ہے تو اس پرجموں وکشمیر کی عوام کی گہری نظریں رہتی ہیں کیونکہ وہ دونوں ممالک کے درمیان چکی میں پس رہے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تلخیوں اور اچھے تعلقات کا براہ راست اثر جموں وکشمیر کے حدمتارکہ اور بین الاقوامی سرحدوں پر رہنے والوں کو جھیلنا پڑتا ہے، اسی وجہ سے دونوں ممالک کے سربراہان دنیا کے کسی بھی کونے میں ملیں، یا کوئی بیان دیںاس پر ریاستی عوام گہری دلچسپی لیتے ہیں۔ اس دوران ہندپاک سربراہان کے درمیان اہم ملاقاتیں ہوئی جنہیں مسئلہ کشمیر کے حوالہ مثبت پیش رفت کے طور دیکھاجارہاہے اور امید کی جارہی ہے اس کے بہتر نتائج برآمد ہونگے۔ سال 2015کا آخری ماہ کافی اہمیت کا حامل رہا کیونکہ اس میں کئی اہم ترین واقعات پیش آئے ۔ وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے پیرس میں عالمی ماحولیاتی کانفرنس کے دوران اپنے ہم منصب پاکستانی وزیر اعظم ہند نواز شریف کے ساتھ مختصر ملاقات کی، دونوں رہنمائی نے اس دوران گرمجوشی کا مظاہرہ کیا۔ 6دسمبر کوہندوپاک تعلقات میں ایک اور سنگ میل طے ہوا جب قومی سلامتی مشیر بنکاک میں ملاقات کی۔ ٹھیک تین دن بعد 9دسمبر کوہندوپاک تعلقات میں سرد مہری کو ختم کرنے کے لئے وزیر خارجہ سشما سوراج منگل کو دو روزہ دورے پر پاکستان گئیں اور وہاں پر نواز شریف کے ساتھ ملاقات کی۔25دسمبر 2015کو ہندپاک تعلقات میں ایک ایسا واقع پیش آیا جوکہ دونوں ممالک کے اچھے رشتوں کے حوالہ سے سنگ میل ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے افغانستان میں پارلیمنٹ ہاؤس کا افتتاح کرنے کے بعد دوپہر ٹویٹر پر اعلان کیاکہ وہ پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف سے ملنے جارہے ہیں۔ وہ لاہور پہنچے جہاں نواز شریف ودیگر سیاسی رہنماؤں نے ان کو والہانہ استقبال کیا۔ کچھ وقت رہائش گاہ پر گذارا اور پھر واپس لوٹ آئے اور نواز شریف کو سالگرہ پر مبارک باد پیش کی۔ 25دسمبر کو ہی پاکستان کے پہلے وزیر اعظم علی محمد جناع اور ہندوستان کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپی کا یوم پیدائش ہے ۔ عالمی سطح پر کرسمس ڈے کے لئے یہ دن مشہور ہے لیکن اس دن ہند پاک کی نظریں اس اہم پیش رفت کے تئیں زیادہ رہیں ۔بظاہر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ دور ہ اچانک تھا لیکن ایسا ہرگذ نہیں تھا بلکہ اس کے لئے خاموش طور تیاریاں پہلے سے کی گئی تھیں۔
سرحدوں پر فائرنگ وعسکری مخالف کارروائیاں
حسب سابق 2015میں جنوری ، فروری ماہ میں سانبہ اور کٹھوعہ اضلاع میں بین الاقوامی سرحد پر آر پار فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس میں متعدد افراد جاں بحق ہوئے، درجنوں زخمی ہوئے۔ جنگ جیسی صورتحال پیدا ہونے سے سینکڑوں کنبوں کو محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوناپڑا۔ سال کے آغاز سے ہی سرحدوں پر شروع ہوئی دوطرفہ کشیدگی کا یہ عمل وقفہ وقفہ نے مئی ، جون اور پھراگست میں شدت اختیار کی۔ اگست ماہ میں حدمتارکہ پونچھ اور راجوری میں شدید گولہ باری ہوئی،اس سے مینڈھر کے بالاکوٹ اور منکوٹ میں آدھادرجن افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوئے۔ جنگجوؤں کی طرف سے اودھم پور میں بی ایس ایف قافلہ پر حملہ کیاگیا۔سال 2015میں سیکورٹی فورسز نے مجموعی طور 64جنگجوؤں کو مارگرانے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس دوران مواصلاتی نظام کو جنگجوؤں کی طرف سے نشانہ بنانے کے واقعات بھی سامنے آئے۔ مئی ماہ کے دوران کشمیر کے جنوب وشمال میں بی ایس این ایل اور دیگر موبائل ٹاوروں کو نشانہ بنانے کی کاروائیاں کی گئیں جس سے مواصلاتی نظام کچھ دن تک ٹھپ رہا۔ اس پر وادی میں ہمہ گیر احتجاج بھی ہوئے۔ جو ن کو جنگجوں نے فوجی برگیڈ پر حملہ کرنے کی کوشش بھی کی۔اس کے علاوہ بھی عسکری مخالف متعدد واقعات بھی پیش آئے، برہان نامی جنگجو بھی وادی میں مقبول ہواجس نے کم عرصہ میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔
ایمز کارڈی نیشن کمیٹی کا احتجاج
جموںاور کشمیر صوبوں کے ساتھ امتیازی سلوک اور ناانصافی کی آوازیں بھی کافی چرچا میں رہیں۔ حکومت ہند کی طرف سے آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز(AIIMS)کی جموں سے کشمیر منتقلی پر جموں میں بڑے پیمانے پر احتجاج کیاگیا۔اگر چہ دو ماہ ہی طویل ایجی ٹیشن کا مقصد پورا نہ ہوا تاہم اس سے بھاجپا کو سیاسی طور کافی نقصان ہوا۔ اس ایجی ٹیشن نے جموں نواز ہونے کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی کی بھی پول کھول دی کیونکہ وہ اقتدار کا حصہ ہوکر بھی منظورشدہ ایمز کی کشمیر منتقل کو روکنے میں ناکام رہی ۔ جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن جموں کے بینر تلے ایمز کارڈی نیشن کمیٹی تشکیل دی گئی جس نے احتجاجی دھرنوں، مظاہروں کے ساتھ ساتھ جموں بند کال دی۔ اس کارڈی نیشن کمیٹی میں جموں صوبہ سے وابستہ 2کے قریب چھوٹی،بڑی سیاسی، سماجی واقتصادی جماعتوں نے حصہ لیا۔ اس دوران نائب وزیر اعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ، بلی وبھگت وغیرہ سنیئر بھاجپا لیڈران نے تحریری یقین دہانی کرائی کہ وہ اس کے لئے مرکزی سرکار سے آرڈر لائیں گے لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ دو ماہ تک چلی یہ ایجی ٹیشن خاموشی کے ساتھ ختم ہوگئی۔ البتہ وزیر خاراجہ سشمو سورواج، وزیر راجناتھ سنگھ نے اس کے حق میں کچھ بیانات دیئے ۔سیاسی مبصرین کے مطابق اس ایجی ٹیشن کا زیادہ نقصان بھاجپا کو ہوا اور مانایہ جانارہاہے کہ اس کے بعد سے پارٹی کی مقبولیت میں کافی کمی واقع ہوئی ہے اور آئندہ انتخابات میں اس کے واضح نتائج دیکھنے کو ملیں گے۔
بڑے گوشت کا معاملہ
بڑنے گوشت بالخصوص گائے گوشت پر زبردست سیاست ہوئی ۔ریاست جموں وکشمیر سے جنم لینے والے بڑے گوشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا جس سے کافی افراد کو جان سے بھی ہاتھ دھوناپڑا اور سینکڑوں کو فرقہ پرستی کی آگ میں بھی جلنا پڑا۔ ویب سائٹ پر سرچ کی جانے والی خبروں میں ’گائے‘کچھ ماہ تک سرفہرست بھی رہی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ ایڈوکیٹ پریمکوش سیٹھ کی طرف سے دائر مفاد عامہ عرضی میں عدالت عالیہ نے جموں وکشمیر سرکار کو بڑے گوشت پر پابندی عائد کرنے کے احکامات صادر کئے ، اس کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے اور مفاد پرست عناصر نے اس کو فرقہ وارانہ رنگت دینے کی کوشش کی۔صوبہ جموں اور کشمیر میں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے، دھرنے دیئے گئے۔ بڑے گوشت پر پابندی کے خلاف ایم ایل اے انجینئر رشید نے دستخطی مہم شروع کی ، اس پر انہیں خزاں اجلاس کے دوران کشمیر میں ایوان زیریں کے اندر بھاجپا لیڈران سے مار بھی کھانی پڑی ۔ انہوں نے ایم ایل اے ہوسٹل میں بڑے گوشت کی پارٹی کا بھی اہتمام کیاجس سے یہ معاملہ ملکی سطح پر کافی چھایہ رہا، اسی وجہ سے پردہلی میں سیاہی بھی پھینکی گئی۔ سرکار کی طرف سے مقدمہ کی صحیح پیروی نہ کرنے اور عوام کے شد ید غم وغصہ کی وجہ سے دباؤ پر آکر وزارت قانون وانصاف اور پارلیمانی امور نے ویشو ہند و پریشد کے ریاستی صدر ایڈوکیٹ لیلاکرن شرما کے فرزند کو ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل اور بڑے گوشت پر پابندی سے متعلق پی آئی ایل دائر کرنے والے پریمکوش سیٹھ کو بھی ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل عہدہ سے ہٹایادیا جس سے بی جے پی اور پی ڈی پی کے درمیان تلخیاں بھی پیدا ہوئیں۔ ہائی کورٹ جموں ونگ کی طرف سے سنائے گئے اس فیصلہ کیخلاف کشمیر عدالت میں بھی مفاد عامہ عرضی دائر کی گئی جنہیں ہائی کورٹ بنچ نے 16اکتوبر کو2015کو خارج کر دیا اور واضح کیاکہ متعلق قانون بنانے کا اختیار صرف اراکین قانون سازیہ کو ہی ہے عدالت اس ضمن میں کچھ نہیں کرسکتی۔ اگر چہ عدالت عالیہ کے اس فیصلہ سے اس معاملہ کو کچھ تک کمی آئی لیکن پھر بھی جموں میں مویشی سمگلنگ کے نام پر مار پیٹ کے معاملہ سامنے آتے رہے ۔9اکتوبر کو اودھ پور ہندو انتہاپسندوںنے تین کشمیری ٹرک ڈرائیوروں پر پٹرول بم پھینک کر جھلسادیا۔ ادھر راجوری کے کالاکوٹ میں بھی مویشی سمگلنگ کے نام پر متعدد گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔ اس معاملہ پر کشمیر میں بڑے پیمانے پر ہڑتال وایجی ٹیشن ہوئی جس دوران ایک نوجوان کی موت واقع ہوگی اور کئی دن تک امن وقانون کی صورتحال بنی رہی۔
ریاستی جھنڈا
ریاستی جھنڈے کا معاملہ مارچ ماہ میںحکومت سازی کے چند ایام بعد ہی شروع ہوا تو سال کے آخرتک چھایارہا۔ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کا 1947سے ....(ایک ودھان، ایک نشان اور ایک پردھان)یعنی....(ایک آئین، ایک پرچھم اور ایک سربراہ)موقف رہا ہے پارٹی ہمیشہ سے جموں وکشمیر کے اعلیحدہ آئین اور ریاستی جھنڈے کی مخالفت کرتی رہی ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی سے وابستہ وزراءنے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی ، انہوں نے الاٹ شدہ سرکاری گاڑیوں پر ہندوستان کے ساتھ ساتھ جموں وکشمیر کے پرچھم کو لگانے سے انکار کیا۔ مجبوراً12مارچ2015کو مفتی محمد سعید کی سربراہی والی ریاستی حکومت نے قومی پرچم کے ساتھ ریاستی پرچم لہرانے کے احکامات جاری کئے۔یہ معاملہ 29دسمبر2015کو ایکبار پھر اس وقت سیاسی وعوامی حلقوں میں بحث کا بنا جب بھاجپا سے وابستہ نائب وزیراعلیٰ ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کہاکہ کوئی بھی پرچم قومی پرچم(ترنگا)کے برابر کی سطح پر نہیں لہرایا جاسکتا ۔یہ قانونی معاملہ ہے اور اسے قانونی طور پر دیکھا جانا چاہئے ۔’میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں ،کوئی بھی پرچم قومی پرچم کی برابری نہیں کرسکتا ،یہ ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے،یہ قانونی معاملہ ہے اور اس پر قانونی طور ہی ڈیل کیا جانا چاہئے‘۔ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر نرمل سنگھ نے کہاکہ قومی پرچم کا احترام ہونا چاہئے اور یہ ہماری جدوجہد ہے۔
مودی کا خصوصی مالی پیکیج
جموں وکشمیرپی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت کے بعد سال 2014کے ماہ ستمبرکے سیلاب متاثرین کو یہ امید جاگی کہ مرکز کی طرف سے ان کی بازآبادکاری کیلئے بھرپور مدد ملے گی۔ اس سلسلہ میں ماہ نومبر میں وزیر اعظم ہند نے یک روزہ ریاستی دورہ کیا جس کو ریاستی سرکار کے لیڈران نے کافی ہوا دی۔ ایسا تاثر قائم کیاگیا کہ مودی کچھ تاریخی فیصلہ کریں گے۔ 7نومبر کو مودی کا جموں وکشمیر میں آنا طے پایا۔ اس دورہ کو سیاسی پنڈتوں اور تجزیہ نگاروں اور مبصرین نے اٹل بہاری واجپئی کے 2003کے تاریخی دورہ ریاست کے ساتھ مشابہت دی ۔ بخشی سٹیڈیم سرینگر میں مودی کے جلسہ کو کامیاب بنانے کیلئے بھیڑ کو جمع کرنے کی غرض سے سرکاری مشینری کابھر پور استعمال کیاگیا۔سیکورٹی اور اشتہاری بینرز وغیرہ پرکروڑوں روپے خرچ ہوئے۔ 7نومبر کو وزیر اعظم ہند نے سرینگر میں جلسہ سے خطاب کے دوران ریاست کو 80ہزار کروڑ روپے کا پیکیج دینے کا اعلان کیا جس سے سیلاب متاثرین نے آنکھوں میں دھول جھونکنے اور کھود ا پہاڑنکلا چوہا کے مترادف قرار دیا۔ 80ہزار مالی پیکیج کے اعلان کے باوجود آض تک بھی سیلاب متاثرین کی بازآبادکاری کا معاملہ جوں کا توں ہے۔
ٹی ایس ٹھاکر کی بطور چیف جسٹس آف انڈیا تعیناتی
سال 2015جموں وکشمیر میں عدلیہ کے حوالہ سے کافی اہمیت کا حامل رہا۔ ریاست کے ضلع رام بن سے تعلق رکھنے والے جسٹس تیرتھ سنگھ ٹھاکر چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ پر فائض ہوئے جوکہ جموں وکشمیر کی عدلیہ اور یہاں کے وکلاءطبقہ کے لئے فخر کی بات رہی۔ جسٹس ٹی ایس ٹھاکر جموں وکشمیر ہائی کورٹ بار ایسو سی ایشن کے ممبر رہے ہیں، پھر ہائی کورٹ کے جج بنے اور پھر عدالت عظمیٰ تک پہنچے۔ ماہ جون کو کچھ ایسے واقعات بھی پیش آئے جس سے وکلاءبرادری میں مایوسی رہی۔ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید قیاد ت والی سرکار نے سنیئروکیل ریاض احمد جان کوایڈوکیٹ جنرل تعینات کیا جن کے صلاح ومشورہ سے میرٹ و اہلیت کی بنیاد پر ڈپٹی ایڈوکیٹ جنرل، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرلوں کی تعیناتی عمل میں لائی جانی تھی لیکن ایسا نہ کر کے حکومتی سطح پر فیصلے لئے گئے جس سے انہوں نے اپنے عہدہ سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دے دیاکہ وہ اپنے اصولوں اور عہدہ کے تقدس کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرسکتے کیونکہ سرکارکی طرف سے انہیں بائی پاس کر کے اہلیت، قابلیت وضوابط کو نظر انداز کر کے تقرریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔ وکلاءنے اس پر کافی غم وغصہ کا اظہار کیا اور عدلیہ پر بالادستی قائم کرنے کی کوششوں پر حکومت کو تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔
لداخ پہاڑی ترقیاتی کونسل انتخابات
سیاسی سطح پر بھاجپا کے لئے جموں وکشمیر میں 2015کا سال کامیاب ترین رہا۔ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں ناقابل یقین کامیابی کے بعد لداخ خود مختیار پہاڑی ترقیاتی کونسل(LAHDC)میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس کے قلعہ میں سیند کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی اور 24میں سے 17نشستوں پرفتح کے جھنڈے گاڑے۔ ان چناؤ میں ایم ایل اے مشرقی جموں ست شرما الیکشن کارڈی نیٹر تھے ، اسی کامیابی کی بدولت جگل کشور شرما کی جگہ انہیں بی جے پی کا نیا ریاستی صدر نامزد کیاگیا۔
خوراک تحفظ قانون
3دسمبر کووزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی صدارت میں منعقدہ کابینہ اجلاس میں جموں وکشمیر ریاست میں خوراک تحفظ قانون کی عمل آوری سے متعلق ریاستی کابینہ اجلاس میں لئے گئے فیصلے کا اعلان کیا جس میں دعویٰ کیاگیا کہ اس سے ریاست کے 74لاکھ مستحقین کے مستفید ہونگے۔امور صارفین وعوامی تقسیم کاری کے وزیر چوہدری ذولفقار علی نے خوراک تحفظ قانون کی عمل آوری کا کریڈٹ خود لینے کیلئے زبردست تشہیری مہم شروع کی۔ وزیر موصوف نے سرمائی راجدھانی جموں،گرمائی راجدھانی سرینگر کے علاوہ متعدد ریاست کے قصبہ جات میں اہم مقامات پر بڑے بڑے اشتہاری بینرلگانے کے ساتھ ساتھ اخبارات میں بھی صفحہ اول پر اشتہارات جاری کرائے جس میں انہوں نے دعویٰ کیاکہ یہ انقلابی قدم ہے لیکن اس قانون کی عمل آوری کے لئے شروع عمل سے پوری ریاست میں بے چینی کا عالم ہے۔ جتناپیچیدہ عمل جاری کیاگیا اس سے لوگوں میں کافی غم وغصہ کی لہر پائی جارہی ہے۔ اس احتجاج میں اعلیحدگی پسند، حریت تنظیمیں بھی سراپااحتجاج ہیں۔ کابینہ فیصلہ سے لیکر سال ختم ہونے تک اس قانون کے خلاف ریاست بھر میں احتجاج جاری رہا۔ خوراک تحفظ قانون کے تحت اندراج کے لئے سٹیٹ سبجیکٹ، ادھار کارڈ، بنک اکاؤنٹ اور الیکشن کارڈ چار اہم ضروری اسناد لگانا ضروری قرار دی گئیں جس میں سے سٹیٹ سبجیکٹ، ادھارکارڈ اور بنک اکاؤنٹ ریاست کے دور دراز علاقہ جات میں موجود بیشترلوگوں کے پاس نہ ہیں، جس سے انہیں کافی مشکلات سے گذرنا پڑ رہاہے۔اس قانون کے نام پر امور صارفین کے وزیر نے خوب تشہیر تو بٹوری لیکن اس قانون کی بہتر عمل آوری کو یقینی بنانے میں موصوف فی الحال ناکام رہے ہیں۔
سرکار کی اردو مخالف پالیسیاں
جموں وکشمیر میں اردو سرکاری زبان ہے لیکن کئی برسوں سے لگا تار سرکاری سطح پر اس کو نظر انداز کیاجارہاہے۔سرکار اس کی ترقی کے اقدامات اٹھانے کے بجائے اس کوہرجگہ سے بے دخل کرنے کے مشن پر کاربند ہے۔ 2015میں بھی اس زبان کے تئیں سرکارمخالف پالیسیاں جاری رہیں۔ ایس ایس بی نے نائب تحصیلدار اسامیوں کو پر کرنے کیلئے جو نصاب جاری کیا تو اس میں30نمبرات کا اردو نصاب بھی شامل کیاگیا جس پر ریاست بھر میں اردو مخالفین کی طرف سے احتجاج کئے گئے۔ ان مخالفین نے عدالت عالیہ تک رجوع کر کے نصاب پر سٹے لیا جس کو آج تک ہٹانے کے لئے سرکاری سطح پر کوئی دلچسپی نہ دکھائی گئی ہے، اس سے نائب تحصیلدار کی اسامیاں پرُ کرنے کا عمل میں التوا کا شکار ہے۔ نومبر ماہ میں ایس ایس بی نے پٹواری کی اسامیاں پر کرنے کیلئے نصاب نکالا تو اس میں اردو کو شامل نہ کیاگیا جبکہ اردو کے بغیر پٹواری کوئی بھی کام کر ہی نہیں سکتا۔ محکمہ مال میں پٹواری انتہائی اہم پوسٹ ہوتی ہے جبکہ اس کا اردو جانکار ہونا انتہائی لازمی ہے، بعد ازاں حکومت نے دباؤ میں آکر پٹواریوں کے امتحانات کو بھی ملتوی کر دیاگیا۔ایک سال کے عرصہ میں اردو کی ترقی وترویج کیلئے حکومتی سطح پر کوئی بھی اقدامات نہ اٹھائے گئے جوکہ بھی اقدام اٹھایاگیا وہ صرف اس کو مٹانے کے لئے ہی کیاگیا۔
شیخ نذیر کا انتقال
25فروری 2015کا دن دہائیوں تک جموں وکشمیر میں راج کرنے والی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس کےلئے صدمہ کا دن رہا۔ اس دن پارٹی کے روح رواں اور جنرل سیکریٹری شیخ نذیر احمد طویل علالت کے بعددنیا فانی سے چل بسے ۔ شیخ نذیر نہ صرف نیشنل کانفرنس لیڈر تھے بلکہ ایک عظیم سیاسی شخصیت تھے جن کا پارٹی کی کامیابی میں ناقابل فراموش کردار رہا ہے ۔ ان کی وفات سے ایک سوچ کا خاتمہ ہوا۔ این سی نے جب جب بلندیوں کو چھوپا ، شیخ نذیر کا اس میں اہم کردار رہا۔ اسمبلی یا کونسل انتخابات ہوں اس وقت امیدواروں کی فہرست تیار کرنے ودیگر تنظیمی امور بھی ان کا فیصلہ ہی آخری ہوتا تھا۔ شیخ نذیرنیشنل کانفرنس کی تین سیاسی سرکردہ شخصیات میں سے ایک تھے، دیگر میں ڈاکٹر شیخ مصطفی کمال اور محمد شفیع اوڑی ہیں۔
بسوہلی پل
صوبہ جموں میں 24دسمبر2015کو مرکزی وزیر دفاع منوہر پاریکر نے ایک پل کا افتتاح کیا۔دریا توی پر قائم بسوہلی پل جموں وکشمیر میں پہلا کبیل پل ہے جبکہ ہندوستان میں اس نوعیت کا چوتھا پل ہے۔ اس پل سے بسوہلی میں سیاحتی سرگرمیوں کو بڑھاوا ملنے کی توقع ہے۔ اسی سال جموں صوبہ کو اعلیحدہ ریلوے ڈویژن بھی ملا۔
رہبر تعلیم اساتذہ کا سکریننگ ٹسٹ
یوں تو جموں وکشمیر میں سرکاری ملازمین اپنے مطالبات کو لیکر احتجاج کر تے رہتے ہیں جوکہ ایک معمول ہے لیکن 2015کو ملازمین میں سے ”رہبر تعلیم اساتذہ“کافی موضوع بحث رہے۔ مئی 2015میں عدالت عالیہ نے رہبر تعلیم سکیم کے تحت محکمہ میں بطور استاد بھرتی ہوئے ایسے تمام افراد کی ملازمت سکرینگ ٹیسٹ میں پاس ہونے سے مشروط کرنے کا فیصلہ صادر کیا جن کی تعلیمی ڈگریاں کسی غیر معروف ادارے یا یونیورسٹی سے حاصل کی گئی ہوں۔اس پر عمل پیر ا ہوتے ہوئے ریاستی سرکار نے ٹسٹ کے احکامات صادر کئے جس پر رہبر تعلیم اساتذہ نے ریاست گیر ہڑتال شروع کی، کئی روز کام چھوڑ ہڑتالیں بھی کی گئیں۔ وزیر تعلیم نعیم اختر پر ان اساتذہ نے پے در پے لفاظی حملے کئے۔ مئی ماہ میں شروع ہوا معاملہ سال گذرنے تک بھی گرما گرم رہا۔ 29دسمبر کو محکمہ وزارت تعلیم نے ان اساتذہ کا سکریننگ ٹسٹ لینے کے لئے باقاعدہ طور شیڈیول بھی جاری کیا جس سے اساتذہ کے ہوش پھر سے اڑ گئے۔ اس میں یہ کہاگیا ہے کہ اس امتحان میں جوکہ ملازمین 60فیصد سے زائد نمبرات حاصل کریں گے کوہی کوالیفائیڈ قرار دیاجائے گا۔
بھنڈرانوالامعاملہ
جون ماہ میں سرمائی راجدھانی جموں کے ستوار ی علاقہ میں جرنیل سنگھ بھنڈرانوالاکے پوسٹر ہٹانے سے ریاست بھر میں سکھ طبقہ نے زبردست احتجاج کیا ۔ یہ واقع 4جون کو پیش آیا تھا ، اس کے خلاف احتجاج کر رہے مشتعل ہجوم پر پولیس فائرنگ سے ایک سکھ نوجوان کی موقع ہوئی جس سے ریاست کے کونے کونے پر موجود سکھوں نے احتجاج کئے۔ جموں میں کرفیو بھی نافذکرنا پڑا۔ پولیس افسران کے تبادلے عمل میں لائے گئے، مقدمہ درج ہوا، کمیشن تعینات کئے گئے۔
پی ڈی پی کو اپنوںکی مخالفت کا سامنا
سابق ریاستی نائب وزیر اعلیٰ، وزیر خزانہ اور موجودہ رکن پارلیمان مظفر حسین بیگ اور رکن پارلیمان طارق حمید قرہ سال 2015کو پی ڈی پی کی مخالفت کے لئے قومی وریاستی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کی سرخیوں میں رہے۔ بیگ اور قرہ کا شمار پی ڈی پی کے بانی ممبران میں ہوتا ہے جنہوں نے اس پارٹی کو مضبوط ومستحکم کرنے اور اس مقام تک پہنچانے میں اہم رول ادا کیا لیکن تنظیمی امور اور اہم فیصلے لیتے وقت پارٹی قیادت کی طرف سے نذر انداز کیاگیا۔ ان دونوں رہنماؤں نے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنانے پر بھی اپنی پارٹی کی جم کر مخالفت کی، بیگ اور قرہ کے کئی جرائد، اخبارات اور ٹیلی ویژنوں پر تفصیلی انٹرویو بھی شائع ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ پی ڈی پی میں نوجوان لیڈران کی بالادستی ہے جس سے انہیں نظر انداز کیاجارہا ہے۔
وی ڈی سی کمیٹیاں
دیہی دفاعی کمیٹیوں(VDC)کو تحلیل کرنے کا معاملہ بھی کافی چھایارہا۔ سرکاری بندوقوں کا غلط استعمال کرنے ، اس کی روش پر معصوموں پر ظلم وستم کرنے، عصمت دری ، اغوکاری جیسے واقعات میں ملوث ہونے کی وجہ سے وی ڈی سی ممبران کے خلاف کئی بار آوازیں اٹھتی رہی ہیں۔ دسمبر20میں خطہ پیر پنجال کے ضلع راجوری میں وی ڈی سی ممبران نے ایک ہفتہ کے اندر ہی 3عام شہریوں کو مار گرایا جس کی اعلیحدگی پسندتنظیموں کے ساتھ ساتھ مین سٹریم تمام حزب اختلاف جماعتوں نے بھی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے ان کمیٹیوں کو فوری تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا۔
مسلمانان جموں مخالف رویہ
بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہیں مسلمانان جموں کا قافیہ حیات تنگ کرنے کی کوشش شروع کی۔ پارٹی نے آر ایس ایس کے نظریہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے برسراقتدار آنے کے بعد تمام ترقیاتی دعوؤں کو بلاکر اس مشن پر کام شروع کیا۔ جنگلات سے غیر قانونی قبضہ ہٹانے کے نام پر مسلمانوں کو ہٹانے کاعمل شروع کیا۔ جموں، کٹھوعہ، سانبہ، اودھم پور، ریاسی کے علاوہ وادی چناب جہاں سے بھاجپا نے 6میں سے 4اسمبلی نشستیں جیتیں تھیں، میں تمام اہم عہدوں پر ہندو افسران ہی تعینات کئے۔ اس کے خلاف مسلمانان جموں نے سخت غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کی۔1947میں قتل وغارت کے بعد پہلی مرتبہ 2015میں صوبہ جموں کے مسلمانوں کومتعدد طریقوں سے تنگ کرنے کی کوششیں کر کے یہاں کے سیکولر تانے بانے کو نقصان پہنچانے کی کوششیں کی گئیں، کہیں اوقاف اراضی پر مند ر تعمیر کرنے تو کہیں قبرستان پر دنگل کے کرانے کی باتیں سامنے آئیں۔اس میں اگر چہ کچھ حدتک کمی بھی آئی لیکن زمینی سطح پر آج بھی کئی مقامات پر ایسے ہی واقعات پیش آرہے ہیں جہاں مسلمانوں کے قافیہ حیات کو تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 52879 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.