وہ جونئے ایام لا کر چلے گئے

”ہرکسی نے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کی بات کی مگر کسی نے جموں اور کشمیر کو آپس میں ملانے کا نہیں سوچا،2014اسمبلی انتخابات کے نتائج سے مجھے ایک تاریخ ساز موقع ملا کہ میں کچھ ایسا کرو¿ں کہ جس سے ان دونوں خطوں کی آپسی دوریاں مٹ جائیں، اسی کے لئے میں نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا“
”میں ریاست جموں وکشمیر کو جزیرہ امن بنانا چاہتا ہوں“
”بندوق سے نہ گولی سے بات بنے گی بولی سے“
”ہرکسی نے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کی بات کی مگر کسی نے جموں اور کشمیر کو آپس میں ملانے کا نہیں سوچا،2014اسمبلی انتخابات کے نتائج سے مجھے ایک تاریخ ساز موقع ملا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ جس سے ان دونوں خطوں کی آپسی دوریاں مٹ جائیں، اسی کے لئے میں نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا“

79سالہ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید جنہوں نے آل انڈیا انسٹی چیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS)نئی دہلی میں7جنوری کی صبح آخری سانس لی، نے یوں تو مرکزی وزیر داخلہ، مرکزی وزیر سیاحت اور جموں وکشمیر میں وزارت اعلیٰ کی کرسی پر کم وپیش 4برس گذارانے کے دوران تعمیر وترقی کے کئی اہم کام کئے لیکن انہیں سیاسی سطح پر لئے گئے چند اہم فیصلوں کیلئے نہ صرف لمبے عرصہ تک یاد رکھاجائے گا بلکہ ان فیصلوں کو ریاست جموں وکشمیر کی سیاسی تاریخ میں سنہری حروف سے درج کیاگیا ہے اور کیاجائے گا۔ مفتی محمد سعید نے سال 2002سے2005تک اور پھریکم مارچ2014سے تا حیات یعنی بطور وزیر اعلیٰ جموں وکشمیردو اہم ترین کارنامے انجام دیئے ، انہیں ریاست کا ہرشہری یاد رکھے گا۔ سال2002میں مفتی محمد سعید نے جب وزیراعلیٰ کی کرسی سنبھالی تو لکھن پور سے لیکر کرگل تک جموں وکشمیر ریاست کی سرحدوں(حدمتارکہ، بین الاقوامی سرحدوں)پر ہندپاک کی افواج ایکدوسرے کے آمنے سامنے تھیں۔ریاست بھر میں خوف وہراس، دہشت، فوجی ظلم وجبر، مار پیٹ، جامع تلاشی، شناختی پریڈ، صبح پٹرولنگ پارٹی کے ساتھ عام شہریوں کا آگے آگے جانا وغیرہ عام تھا۔ کٹھوعہ سے لکھن پور تک ، راجوری تا پونچھ، اوڑی، کرناہ، لداخ، کرگل میںسرحد وں پر ہزاروں کنبے روزانہ اجڑتے بستے تھے، ان علاقوں میں تعمیر وترقی ، تعلیم کو کسی کو پرواہ نہیں تھی یہاں صرف اور صرف ہرسوں جان کے لالے پڑے تھے۔ صبح ایک مزدور ، ملازم گھر سے کام پر نکلتا تھا تواس کی گھر واپسی کی امید نہیں ہوتی تھی ۔تب ماں جب صبح بچے کو سکول بھیجتی تو اس کو کئی کئی بارچومتی تھی ،کیونکہ اس سے لگتا تھاکہ شاہد وہ لخت جگر کو دوبارہ زندہ دیکھ سکے یا نہ ۔ لوگوں کو اگلے پل کیاہونے والا ، ہے کا علم نہیں تھا۔ Pencili Cellرکھنا، ایک بہت بڑا جرم تھا، جس گھر سے پنسلی سیل ملتا تھا تو اس کو کئی ماہ تک فوج، ایس ٹی ایف، ایس پی او، ایس او جی کی نامعلوم جگہوں پرکال کوٹھڑیوں میں بھوکے پیاسے مار جھیلنا پڑتی تھی۔کھیتوں میں مکی کی فصل کے تمام پتے کاٹنے ہوتے تھے، تاکہ پورے کھیت تک نظر جاسکے۔ اسی طرح سڑکوں کنارے تمام پیڑوں کو بھی کاٹنا ہوتا تھا، اس کے علاوہ ہر روز صبح ہر جگہ لوگوں کو فوج کی پٹرولنگ پارٹی کے آگے آگے چل کر چیکنگ کرانا ہوتی تھی، جس دن جن افراد کی باری ہوتی تھی، وہ گھر سے بخشواکر جاتے تھے کیونکہ ایسے میں بم پھٹنے یافائرنگ سے کئی معصوم شہری جاں بحق ہوئے۔ مفتی محمد سعید نے ہندپاک کے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے سازگارماحول تیار کیا، جس سے اُس وقت کے وزیر اعظم ہند اٹل بہاری واجپئی نے سرینگر کے لال چوک سے پاکستان کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھا یا اور دونوں ممالک کے مابین جنگ بندی معاہدہ ہونے سے سرحدوں پر سکوت طاری ہوا۔ لوگوں نے راحت کی سانس لی۔مفتی محمد سعید کا ریاستی عوام کو یہ وہ تحفہ تھا جس کو 1987کے بعد2002تک ایسے سنگین صورتحال سے گذرنے والے لوگ کبھی بھی فراموش نہیں کریں گے۔ مفتی محمد سعید نے امن کی بحالی اور سازگار ماحول تیار کرنے کیلئے اعتمادسازی کے اقدامات اٹھائے، ہندوستان اور پاکستان کو قریب لانے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا۔ حدمتارکہ کے آ ر پار لوگوں کی آواجاہی، ایل او سی تجارت، سرینگر مظفر آٓباد اور پونچھ راولاکوٹ سڑکوں کو کھولنا اہم ترین کامیابی رہی۔ یہ دنیا کا دستور رہا ہے کہ یہاں ہر ایک کی برائی ہوتی ہے لیکن کچھ کام اور فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن پر دشمن بھی آپ کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ 2002تا2005کے دوران جموں وکشمیر میں امن لوٹانے کے لئے ریاست کا ہرشہری چاہئے وہ کسی بھی سیاسی، مذہبی نظریہ سے تعلق رکھتا ہو، مفتی کی نہ صرف تعریف کرتاہے بلکہ وہ اس کا آج بھی برملا اعتراف کرتا ہے۔ مفتی نے 2002میں ’بندوق سے نہ گولی سے بات بنے گی بولی سے‘ جونعرہ دیاتھا، وہ آج بھی ہر شخص کی زبان پر ہے، اس کو بہت زیادہ یاد کیاجاتاہے۔ 2008کے بعد انہوں نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے انہوں نے عوامی اجتماعات میں یہ کہاکہ اقتدار یاکسی عہدہ کی تمنا انہیں اب ہرگز نہیں ہے کیونکہ اپنے سیاسی کیرئر کے دوران انہیں ہرطرح کے اہم عہدوں پر فائض ہونے کا موقع ملا، اب ان کا مقصد صرف جموں وکشمیر کو جزیرہ امن بنانا ہے۔ سال 2014کے اسمبلی انتخابات ہوئے تو اس وقت کے بعد جونتائج آئے اس میں ریاست کی عوام نے ایک عجیب سامنڈیٹ دیکر سیاسی رہنماؤں کو حکومت سازی کا انتہائی چیلنج بھرا کام سونپا۔ ریاست بھر میں 23دسمبر2014کے بعد سیاسی بے چینی کا ماحول پیدا ہوا، ہرکوئی پریشان تھا، سیاسی پنڈت بھی کوئی مستحکم حکومت کا آپشن دینے میں قاصر تھے۔ مفتی محمد سعید ہی تھے جنہوں نے اپنی سیاسی بصیرت، تجربہ ، دور اندیشی کا بھرپورمظاہرہ کرتے ہوئے سخت گیر موقف کی حامل بھارتیہ جنتا پارٹی، جس کا ایک وقت میں جموں وکشمیر جیسی ریاست بالخصوص وادی کشمیر میں نام لینا بھی ، گناہ تصور کیاجاتا تھا، کے ساتھ الائنس کا تاریخ ساز فیصلہ کیا۔ اس کے لئے 2ماہ کی طویل آپسی مشاورت ہوئی ہرطرح کے سیاسی ونظریاتی اختلافات ہونے کے باوجود ایک بھاجپا سے ہاتھ ملانے پر اتفاق کیا۔اس نئے تاریخ ساز الائنس پرچب چوطرفہ تنقید کی جانے لگی تواس بیچ وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے اس کے اغراض ومقاصد بارے کئی عوامی میٹنگوں میں وضاحت سے بتایا۔ ان کا کہنا تھاکہ جموں اور کشمیر خطہ کی عوام نے الگ الگ منڈیٹ دیا ہے، کشمیر میں پی ڈی پی کو اکثریت ملی اور جموں میں بی جے پی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری ، اب اگر بی جے پی کے بغیر حکومت بناتے تو تو اس سے جموں کے عوامی منڈیٹ کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ انہیں یہ ایک تاریخی موقع میسر ہوا کہ وہ جموں او رکشمیر کے لوگوں میں آپسی دوریاں مٹائیں۔ مفتی کہتے تھے کہ ہمیشہ کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کی بات ہوئی لیکن کبھی کسی نے جموں کو کشمیر کے ساتھ ملانے کی بات نہیں کی کیونکہ اس میں بھی آپسی اختلافات پائے جارہے ہیں۔ ہر بارجموں کے ساتھ امتیازی سلوک، کشمیر کے ساتھ امتیازی سلوک، بین علاقائی ناانصافیوں کی باتیں ہوتی ہیں۔وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کے مطابق بی جے پی کے ساتھ الائنس کر کے وہ دونوں خطوں کے درمیان غلط فہمیوں، دورویوں اور اختلافات کو دورکرنا چاہتے ہیں۔ان کا موجودہ الائنس کے بارے میں موقف تھاکہ”ہرکسی نے کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ملانے کی بات کی مگر کسی نے جموں اور کشمیر کو آپس میں ملانے کا نہیں سوچا،2014اسمبلی انتخابات کے نتائج سے مجھے ایک تاریخ ساز موقع ملا کہ میں کچھ ایسا کروں کہ جس سے ان دونوں خطوں کی آپسی دوریاں مٹ جائیں، اسی کے لئے میں نے بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملایا“اگر چہ ابھی تک عوامی سطح پر اس کا اتنا زیادہ اثر دیکھنے نہیں ملا البتہ بھاجپا کے حکمران حکومت کا حصہ بننے کے بعد کافی حدتک یہ بات سمجھ چکے ہیں، ان کی کافی غلط فہمیاں دور بھی ہوئی ہیں جس کا انہوں نے آئے روز کھل کر اظہار کیا ہے۔ کچھ دیر سے ہی سہے لیکن وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید نے دوسری مرتبہ وزارت اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہوکر جوتاریخی فیصلہ کیا ہے اس کے بہت ہی مثبت نتائج برآمد ہونے کی توقع ہے۔ آج ان کی وفات پر ہر مکتب ہائے فکر، شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا شخص کی آنکھ پرنم ہے اور وہ رنجیدہ ہے۔ آج ان کے مخالفین بھی ، ان کی طرف سے اٹھائے گئے متذکرہ بالاءتاریخی اقداما ت کااعتراف کرنے سے خود کو باز نہیں رکھ سکے۔ 12جنوری1936کوبابا محلہ بجبہاڑہ میں عالم دین مفتی غلام محمدکے گھر جنم پانے والے مفتی محمد سعید سیاسی سطح پر کئی تاریخی کارنامے انجام دینے کے بعد 7جنوری2016کو صبح ایمز نئی دہلی میں واپس چل بسے۔ 50 دہائی کے وسط میں نیشنل کانفرنس سے سیاسی سفر کا آغاز لیکن بہت جلد اس سے ناطہ توڑ کر کے کانگریس کی یوتھ ونگ سے سیاسی سفر کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔وہ ان چند لوگوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ریاست میں نیشنل کانفرنس کے خلاف کانگریس کو ایک قوت کے طور متعارف کرانے میں اہم رول ادا کیا۔کانگریس میں چا ر دہائیوں کے زائد عرصہ تک کا سفر گذارنے کے بعد 1998میں اپنی دخترمحبوبہ مفتی سمیت کانگریس چھوڑ کر اپنی علیحدہ پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے نام سے بنا ڈالی۔اس وقت کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ صرف3سال بعدیہی جماعت دوبارہ جموں وکشمیرمیں برسراقتدارآجائیگی۔سال2002کے اسمبلی انتخابات میں جب پی ڈی پی کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں تو اس نے کانگریس کے ساتھ مل کر ریاست میں مخلوط سرکار کا قیام عمل میں لایا جبکہ مفتی محمد سعید اس مخلوط سرکار کے سربراہ کی حیثیت سے بطور وزیر اعلیٰ 2 نومبر 2002 سے 2 نومبر 2005 تک بر سر اقتدار رہے۔2004کے اختتام تک راجیہ سبھا اور لوک سبھا میں پی ڈی پی کا ایک ایک ممبر تھا۔2014کے لوک سبھا الیکشن میں مفتی کی سربراہی میں ہی پی ڈی پی نے کشمیر کی تینوں نشستوں پر قبضہ جمالیا۔اسمبلی انتخابات میں شاندار کامیابی حاصل کر کے دو بارہ سے پارٹی کو اقتدار میں لایا۔ مفتی کو یہ ایک منفرد اعزاز حاصل ہے وہ ہندوستان کے مرکزی وزیر داخلہ رہنے والے واحد مسلم ہیں۔وزیر اعلیٰ مفتی محمد سعید کی تین بیٹیاں محبوبہ مفتی، روبیہ سعید اور محمودہ ہیں جبکہ ایک بیٹا مفتی تصدق ہے جوکہ ہالی ووڈ اور بالی ووڈ میں کام کرتا ہے۔
Altaf HUssain janjua
About the Author: Altaf HUssain janjua Read More Articles by Altaf HUssain janjua: 35 Articles with 56100 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.