ڈرامہ 'دبئی چلو' کی پہلی اینٹ --- ریاض بٹالوی مرحوم

اعلان ہوا کہ اے لاہور والو - تم مجھے بخوبی جانتے ہو - ہر روز میری تصویر بھی پاکستان کے بہتریں اخبارمیں دیکھتے ہو - تو اب تمہاری مجرم شناسی کا امتحان ہو تا ہے - میں لاہور میں چلتا پھرتا رہوں گا - تم نے مجھے پکڑنا ہے - جو مجھے پکڑے گا ایک اچھی خاصی رقم بطور انعام کا حقدار بھی ہو گا -

یہ اعلان ہوا تھا پاکستان میں صحافت کو ایک نیا انداز دینے والے اخبار "مشرق" لاہور کے معروف فیچر نگار ریاض بٹالوی کی جانب سے - زمانہ تھا 1960 -1965 کا - اور اس کے بعد ریاض بٹالوی لاہور میں غائب ہو گئے - بات یہی ختم نہیں ہوئی -وہ ہر روز کی رو داد بھی لکھنے لگے کہ کہاں کہاں پھرے - کس کس سے ملاقات کی - کس کس جگہ انکی تصویر بھی کھینچی گئی - اور لوگ سر پیٹ لیتے تھے کہ "یار وہ تو میرے قریب ہی سے نکلا تھا - مجھے پتہ ہی نہیں چلا " ایک روز وہ اس زمانے کے صوبائی وزیر مسعود صادق کی رہائش گا ہ کے قریب سے بھی گزرے - وہاں قریب کھڑے لوگوں سے بات چیت بھی کی - انکی خفیہ کیمرے سے تصویر بھی کھینچی گئی - لیکن کسی کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلا کہ بات چیت کر نے والا فرد کوئی اور نہیں بلکہ ریاض بٹالوی ہے - ایک دن - دو دن - تین دن - ریاض بٹالوی لاہور میں مختلف روپ دھارے پھرتے رہے - کبھی دیہاتی لباس میں - کبھی انگریزی پیراہن میں - کبھی سیدھے سادے کپڑوں میں - لوگوں کی دلچسپی اور ناکامی دیکھتے ہوئے لاہور کے کچھ اور اداروں نے بھی ان کو پکڑ نے پر انعام کا اعلان کردیا - اخبار مشرق خریدنے کے بعد اب لوگ خبریں بعد میں پڑھتے اور ان کی مٹر گشت کا احوال پہلے پڑھتے - ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کا سا مزہ آنے لگا تھا - مشرق اخبار کا یہ اقدام لوگوں کو ایک سبق بھی دے رہا تھا کہ وہ کس قدر اپنے ارد گرد سے بے خبر ہیں -

اس طرح تین دن گزر گئے - چوتھے روز پورا دن گزر گیا اور رات کو نو بجے پکڑے گئے - لیکن وہ بھی کیمرے والے کی غلطی کے سبب ، ورنہ ان کا پکڑا جا نا اس وقت بھی مشکل تھا - ریاض بٹالوی پلازہ سینما چھ سے نو بجے والا شو دیکھنے گئے - ٹکٹ بھی لیا - کسی کو پتہ نہیں چلا - لوگوں کی بھیڑ میں سے گزرتے ہوئے سینما ہال کے گیٹ پر پہنچ کر ٹکٹ بھی کٹوایا - کسی کو علم نہیں ہوا - سینما ہال میں جا کر اپنی نشست پر بیٹھ کر آرام و اطمینان سے فلم سے لطف اندوز ہوتے رہے - فلم کا انٹرول بھی ہوا - ہال کے اندر سب روشنیان روشن کر دی گئیں لیکن ریاض بٹالوی کو کوئی نہیں پہچان سکا - فلم کا اختتام نو بجے شب کو ہوا - وہ گیٹ سے باہر نکل رہے تھے - مشرق کے فوٹو گرافر نے اس وقت ان کی تصویر کھینچی - روشنی کا ایک جھماکا ہوا-
گیٹ سے نکلتے ہوئے ایک فرد کے دماغ میں بھی ایک روشنی کوندی -
اس وقت تصویر ؟ ---- کیوں؟ -----

ایسی کوئی خاص بات بھی تو نہیں ہے کہ تصویر لی جائے؟ اس زمانے میں کیمرے اتنے ہی نایاب تھے جتنے آج کل بجلی کے ریڈیو- ان صاحب نے اِدھر اُدھر ، آگے پیچھے ، دائیں بائیں ، افراد کا جائزہ لینا شروع کیا اور آخر کار ریاض بٹالوی کو دریافت کر ہی لیا - کیمرہ مین اس وقت تصویر نہیں کھینچتے تو اس وقت بھی ریاض بٹالوی نہیں پکڑے جاتے -

ریاض بٹالوی کا تعلق گجرات پاکستان سے تھا - تعلیم زیادہ نہیں تھی لیکن صحافت سے بہت لگاؤ تھا-
یہی لگاؤ انہیں لاہور کھینچ لایا اور انہوں نے نسیم حجازی کے اخبار 'کوہستان ' میں شمولیت اختیار کی -
پھر جب 'مشرق' لاہور کا اجرا ہوا تو اس میں چلے آئے -

میں اس زمانے میں کوئٹہ میں رہتا تھا - اس دور میں کوئٹہ کے مقامی اخباروں کا وہ معیار نہیں تھا جو کہ لاہور یا کراچی کے اخبارات کا تھا - اس لحاظ سے کوئٹہ میں دونوں شہروں کے اخبار آیا کرتے تھے - میں نے اندازہ لگایا تھا کہ مشرق لاہور کا جو معیار تھا وہ دوسرے اخباروں کو نصیب نہیں تھا - اس میں مشرق کے عنایت اللہ کی کوششوں کا بہت دخل تھا - عنایت اللہ صاحب نئے نئے خیالات لے کر آتے اور اپنے اخبار میں انکا عملی تجربہ کرتے جس سے نہ صرف ان کے اخبار کی ظاہری شکل و شباہت میں نکھار آتا اور وہ دیدہ زیب لگتا تھا بلکہ اس کے اندر شائع شدہ مواد بھی لوگوں کی توجہ کھینچتا - ریاض بٹالوی کے شہر میں پوشیدہ طریقے سے چھپنے کا خیال بھی جناب عنایت اللہ کے ذہن رسا کی پیداوار تھا جسے ریاض بٹالوی نے نہایت ہی کامیا بی سے نبھایا - ریاض بٹالوی کے تحریر شدہ فیچر اخبار 'ً مشرق' کی جان ہوا کرتے تھے - انہوں نے معاشرے کے مختلف النوع سلگتے موضوعات پر لکھا اور کئی چھپے ہوئے سنسنی خیز گوشے بے نقاب کئے - ان کے تحریر کردہ فییچر بلا شبہ قارئیں کو سوچ کو نئی جہتیں اور نئے زاوئیے عطا کرتے تھے -

انہوں نے اس زمانے میں اپنے اخبار میں صحافت کا جو نیا رنگ دکھایا تھا کوئی اخبار سوچ بھی نہیں سکتا تھا-

فیچر کی تیاری کے دوران انہیں لوگوں کے انفرادی مسائل سے بھی آشنائی ہوتی اور وہ انہیں حل کرنے کی حتی المقدور کوشش بھی کرتے تھے - یوں وہ فیچر رائٹر کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر بھی بن گئے - بقول روزنامہ خبریں کے چیف ایکزیٹیو جناب ضیا شاہد کے دفتر میں ان کے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا - وہ حقیقی معنوں میں سماج کا بھلا چاہتے تھے -

یہ تھیں میری وہ یادیں جو بچپن اور لڑکپن سے ہی میرے دل میں ریاض بٹالوی مرحوم کے لئے پسندیدگی اور انسیت کا باعث بنی تھیں‌ -

ان سے میری پہلی ملاقات ان کے نسبت روڈ لاہور کے دفتر میں ہوئی تھی - سال غالباً 1969 تھا - سیڑھیوں کے پاس ہی چھوٹا سا کمرہ ان کا آفس تھا - میں انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں تعلیم حاصل کر رہا تھا - میرے چند مسائل تھے - انکا حلاوت بھرا لہجہ ، محبت آمیز برتاؤ دیکھ کر میں چند لحظوں کے لئے بھول ہی گیا کہ مں کسی مسئلے سے دو چار ہوں - وہ نہایت شائستگی سے مجھے ملے - وہ میرے لئے بلاشبہ ٹھنڈی چھاؤں اور ٹھنڈے موسم کا استعارہ ثابت ہوئے - اور انہوں نے میرا مسئلہ حل کرانے میں میری مدد کی -

لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں تو اس ملاقات سے پہلے ہی مشرق میں ان کے چھپنے والے فیچر پڑھ کر گرویدہ تھا - ایک میں ہی نہیں اور بھی لوگ اس عظیم فیچر نگار سے متاثر تھے - پاکستان ٹی وی اس زمانے میں پاکستان کا واحد ٹی وی چینل تھا اور وہ اپنے عروج پر تھا - وہ بھی پاکستانی معاشرے کی بنت و ساخت پر مشتمل ڈرامے پیش کر نے کے لئے اچھی سے اچھی کہانیوں کی تلاش میں رہتا تھا - وارث 'خدا کی بستی ' تعلیم بالغان وغیرہ اسی پی ٹی وی نے پیش کئے تھے -پی ٹی وی کی جوہر شناس نگاہوں نے بھی ریاض بٹالوی کی صلاحیتوں کو پہچان لیا اور ان کے فیچروں کی بنیاد پر ہی اس زمانے کی ٹی وی سیریل "ایک محبت سو افسانے " میں کئی ڈرامے پیش کئے گئے - ان کے ایک فیچر سےاخذ کئے گئے ڈرامے "دبئی چلو " نے تو ایک دھوم ہی مچادی اور ان کا نام شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا -
یہ صحیح ہے کہ اس میں اگر اداکار علی اعجاز کی اداکاری پور ے کا پورا نیچرل رنگ لئے نہ ہوتی تو یہ ڈرامہ مقبولیت کے گراف میں اونچا نہیں جا سکتا تھا - یہ بھی تسلیم کہ اگر ہدایت کار نے اپنی ساری کی ساری صلاحیتیں اس ڈرامے کی تخلیق کے دوران نہیں انڈ یلی ہوتیں تو یہ ڈرامہ لو گوں کی توجہ کھینچنے میں ناکام ہو جاتا لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کر سکتے کہ اگر ریاض بٹالوی دبئی جانے والے افراد کے مسائل ' گہری نظر سے تجزئے نہیں کئے ہوتے ‘ بد عنوانیوں کے مختلف مافیا اورگونگے مظلوم لوگوں کی عمر بھر کی کمائی لوٹنے والے پتھر دل ایجنٹوں کے بیچ میں گھس کر حقائق سے پردے نہ اٹھا ئے ہوتے تو سب کچھ اکارت ہو کر رہ جاتا - یہ ریاض بٹالوی کے ہی قلم کا کمال تھا جو جزئیات کو بھی ایک وسیع تناظر میں لا یا اور لوگوں کے دلوں پر دستک دینے میں کامیابی حاصل کی - ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ڈرامہ 'دبئی چلو' کی پہلی اینٹ ریاض بٹالوی نے رکھی -

یہ سب کچھ ٹی وی پر پہلی مرتبہ دکھاتے ہوئے کچھ دیر کے لئے تو خود پاکستان ٹی وی کے افسران بھی دہل
سے گئے کہ انہیں دکھایا جائے یا نہیں - پاکستان ٹی وی کے عارف وقار جو اس ڈرامے سے منسلک تھے کہتے ہیں کہ دوبئی چلو‘ نشر ہونے سے چار گھنٹے قبل اس پر ایک قسم کی پابندی لگ گئی تھی۔ لاہور اسٹیشن کے پروگرامز منیجر نے اس کے تین مناظر پر اعتراض کیا جن میں ان کے بقول سرکاری محکموں پر تنقید کی گئی تھی۔ انہیں خاص طور پر پاسپورٹ آفس کے مناظر پر اعتراض تھا جہاں بھولے بھالے لوگوں کو پھانسنے والے ٹاؤٹ پھرتے ہوئے دکھائے گئے تھے۔ رات نو بجے ڈرامے کو نشر کرنا تھا لیکن آٹھ بجے تک سینسر نے اسے پاس نہیں کیا تھا۔ کہا گیا کہ پاسپورٹ آفس کے مناظر خارج کر دئے جائیں - آخر ساڑھے آٹھ بجے کے قریب ایک بیان پر دستخط کرائے گئے کہ اگر حکومت کو اس کھیل کے کسی منظر پر اعتراض ہوا تو میں اس کی ذمہ داری جناب عارف وقار پر ہوگی ۔۔۔اور یوں رات نو بجے اپنے مقررہ وقت پر ’دوبئی چلو‘ کی نمائش ممکن ہوئی -

حکومت پاکستان نے جناب ریاض بٹالوی کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے 1986 میں انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا -

میں اب جبکہ انجینئرنگ کر کے اور پینتیس سال نوکری کے نشیب و فراز سے گزر نے کے بعد ریٹائر ہو چکا ہوں تو میں اب بھی اپنے آپ کو ان کے زیر احسان پاتا ہوں - دل میں بڑی خواہش اٹھتی تھی کہ ان کے بارے میں کسی سے معلوم کروں لیکن کہیں بھی تو ان کا تذکرہ نہیں ہوتا تھا

آج ایسے ہی گوگل سرچ کی تو پتہ چلا کہ اب وہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جا چکے ہیں - اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اے اللہ ان کی بشری کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے جنت میں ان کے لئے رحمت کے دروازے کھول دے اور اپنی برکتوں سے ما لا مال کر - آمین -- یا رب العالمین -

 
Munir  Bin Bashir
About the Author: Munir Bin Bashir Read More Articles by Munir Bin Bashir: 124 Articles with 355040 views B.Sc. Mechanical Engineering (UET Lahore).. View More