وہ جنہوں نے لفظوں کو آنکھ دی، جذبوں کو زبان دی، اور خاموشیوں کو بیان، وہ جو خود کم بولے، مگر جن کے الفاظ صدیوں کی گونج بن گئے۔ واصف علی واصف، ایک ایسا نام جو صرف ایک شخص نہیں، ایک مکمل احساس ہے۔ ایک ایسا فکری روشن دان، جو دلوں کے اندھیروں میں چراغ جلا گیا۔ وہ صرف لکھنے والے نہ تھے، وہ اَن لکھے دکھوں کے مفسر تھے، جنہیں ہم خود بھی بیان نہیں کر سکتے۔ اُن کے الفاظ میں وہ جادو تھا جو دل کو پگھلا دیتا، اور روح کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ہمارے اندر بیٹھے سب کچھ دیکھ رہے ہیں، سب کچھ جانتے ہیں۔ کبھی کبھار ایسا لگتا ہے کہ وہ ہم میں سے ہی کوئی تھے، جیسے ہمارے اندر بولتے تھے، اور پھر کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ ہم سے بہت اوپر تھے، اتنے اوپر کہ ہم صرف سن سکتے تھے، سمجھ نہیں سکتے تھے۔ وہ صوفی تھے، شاعر بھی تھے، مفکر بھی، مگر ان سب سے بڑھ کر وہ آئینہ تھے۔ آئینہ جس میں ہر کوئی خود کو دیکھ سکتا تھا، مگر واصف صاحب کا عکس اُس میں بھی سب سے روشن نظر آتا۔ اُن کے الفاظ میں جو گہرائی تھی، وہ کسی لغت کی مرہون منت نہیں تھی۔ وہ صداقتوں کی کوکھ سے پیدا ہوئی سچائی تھی، جو نہ ڈراتی تھی، نہ تھپکی دیتی تھی، بلکہ دل کو جھنجھوڑ کر جگا دیتی تھی۔ اُن کی تحریریں نہ تو خوف دلاتی تھیں، نہ جھوٹی تسلی دیتی تھیں، بس سیدھی، سچی اور ایسی ہوتی تھیں جیسے کوئی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہا ہو۔ جب وہ اللہ کی بات کرتے، تو ایسا لگتا جیسے خود ذاتِ حق سے ہم کلام ہوں۔ جب وہ عشق کی بات کرتے، تو لفظ لفظ میں فنا کی خوشبو ہوتی۔ جب وہ انسانیت کی بات کرتے، تو ایسا محسوس ہوتا جیسے وہ ہمیں یاد دلا رہے ہوں کہ ہم کون تھے، اور اب کیا بن چکے ہیں۔ اُن کی ہر بات میں تربیت تھی، ہر سطر میں نصیحت، ہر جملے میں محبت اور ہر خاموشی میں صداقت۔ واصف علی واصف نے نہ صرف لکھا، بلکہ زندہ لکھا۔ اُن کے الفاظ میں سانسیں تھیں، اور وہ سانسیں آج بھی زندہ ہیں۔ اُن کی کتابیں محض کاغذ پر چھپے الفاظ نہیں، دلوں پر لکھا ایک دستور ہیں۔ اُن کی باتیں وقت سے ماورا ہیں۔ وقت بدل گیا، لوگ بدل گئے، مگر اُن کی باتوں کا اثر وہی ہے، گہرا، پرسکون اور بیدار کر دینے والا۔ آج کے شور میں جب ہر طرف الجھنیں ہیں، ہر آواز میں دکھ ہے، تو واصف علی واصف کے الفاظ کسی صوفی کی پکار کی طرح لگتے ہیں، جو دل کے پردے چاک کر کے، سکون کی ایک نئی راہ دکھاتے ہیں۔ اُن کے جملے کسی مرہم کی مانند ہیں، جو دل کی پرانی ترین چوٹ پر بھی جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ”یہ دنیا ویسے ہی ہے، جیسے تم ہو، اسے بدلنا ہو تو خود کو بدل لو۔“ وہ ہمیں دنیا سے نہیں، اپنے آپ سے جوڑنے آئے تھے۔ وہ انقلاب نہیں، ارتقاء کے قائل تھے۔ وہ چیخنے نہیں، جگانے کے ماہر تھے۔ اُنہوں نے ہمیں بتا دیا کہ علم صرف جاننے کا نام نہیں، سمجھنے اور سچائی میں ڈھلنے کا نام ہے۔ اور محبت صرف کہنے کی چیز نہیں، جینے، نبھانے اور فنا ہو جانے کی کیفیت ہے۔ واصف علی واصف چلے گئے، مگر وہ درحقیقت کہیں نہیں گئے۔ وہ ہر اُس دل میں زندہ ہیں، جو سچائی کی تلاش میں ہے، جو اپنی روح سے بات کرنا چاہتا ہے، جو اپنی ذات سے بیزار ہے، مگر رب کی رحمت سے اُمیدوار ہے۔ اُن کی تحریریں چراغ ہیں، جو نہ صرف اندھیرے کو مٹاتی ہیں، بلکہ اندھیرے میں جینے کا حوصلہ بھی دیتی ہیں۔ چراغ وہ ہوتا ہے جو بجھنے کے بعد بھی کچھ لمحے تک روشنی دیتا ہے، لیکن واصف علی واصف ایسا چراغ تھے جو بجھ کر بھی بجھتے نہیں۔ اُن کی فکر، اُن کا وژن، اُن کا درد اور اُن کی امید آج بھی سانس لیتی ہے، سوچتی ہے، بولتی ہے۔ اُن کی ہر بات ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے، اور ہر جملہ اپنے اندر ایک کائنات سمیٹے ہوئے ہوتا ہے۔ کبھی سوچتا ہوں کہ اُن جیسا شخص کہاں سے آیا ہوگا؟ کون سا درد اُن کے دل میں اترا تھا جس نے اُن کی زبان کو یوں تاثیر دی؟ کون سا اندھیرا اُن پر طاری ہوا ہوگا کہ اُن کے لفظ روشنی بن گئے؟ وہ اپنی ذات میں انجمن تھے، ایسی انجمن جو تنہائی میں بیٹھ کر بھی ہجوم کو چپ کرا سکتی تھی۔ اُن کی خاموشی بولتی تھی، اور اُن کا ہر بول دل کو خاموش کر دیتا تھا۔ انسانوں کو سمجھنے کا جو ہنر اُنہیں آتا تھا، وہ کسی درسگاہ سے نہیں ملا تھا۔ وہ کسی کتاب سے نہیں آیا تھا۔ وہ تو مشاہدے، درد، عشق، فہم، اور رب سے تعلق کی روشنی سے آیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ انسان اندر سے کتنا خالی ہے، اور اُسے کس طرف سے پکارنا ہے کہ وہ چونک جائے۔ اُن کے الفاظ براہِ راست دل میں جا اُترتے، اور وہاں دیر تک گونجتے رہتے۔ واصف علی واصف نے سچ لکھا، خالص لکھا، ایسا سچ جو کڑوا نہیں لگتا بلکہ شفا دیتا ہے۔ اُنہوں نے امید کی بات کی، لیکن جھوٹے خواب نہیں دکھائے۔ وہ بتاتے تھے کہ زندگی امتحان ہے، درد ہے، گزرگاہ ہے، لیکن یہ سب کچھ رب کی محبت کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ اُنہوں نے یہ بھی بتایا کہ جب تم ٹوٹ رہے ہو، بکھر رہے ہو، تو دراصل تم کسی بڑے جوڑ کی طرف جا رہے ہو۔ اُن کی تحریروں نے نہ صرف سوچ بدلی، بلکہ احساس کی دنیا بدل دی۔ کتنے ہی لوگ اُن کی ایک ایک تحریر کو زندگی کا اصول بنا کر جی رہے ہیں، اور اُنہیں علم بھی نہیں کہ اُنہیں جینے کا سلیقہ کس نے دیا۔ وہ مسکرا کر جینے کی بات کرتے تھے، مگر وہ ہنسی دکھ کے اندر چھپی مسکراہٹ کی طرح تھی، سچی، خاموش، اور بامعنی۔ واصف علی واصف وہ دروازہ تھے جس سے داخل ہو کر انسان اپنے رب سے ملاقات کی تمنا کرتا ہے۔ اُنہوں نے کسی خاص مذہبی فقہ سے ہٹ کر، انسان کے اندر رب کو جگانے کی بات کی۔ وہ صوفی بھی تھے اور سچے عاشق بھی۔ وہ دانشور بھی تھے اور درویش بھی۔ اُنہوں نے کتابوں سے زیادہ دلوں پر لکھا، اور دلوں کی تحریریں کتابوں سے زیادہ دیرپا ہوتی ہیں۔ اگر آج کا انسان تھک چکا ہے، اگر وہ کھو چکا ہے، تو اُسے واصف علی واصف کی جانب پلٹ جانا چاہیے۔ وہاں وہ سب کچھ ہے جو اُس کی کھوئی ہوئی روح کو پھر سے بیدار کر سکتا ہے۔ واصف کا کلام آج بھی وہی شفا ہے جو کل تھی۔ اُن کا ہر جملہ آج بھی وہی چراغ ہے جو سچائی کے رستے کو روشن کرتا ہے۔ یقیناً وہ چلے گئے، مگر اُن کا پیغام رہ گیا۔ وہ خاموش ہو گئے، مگر اُن کی باتیں گونجتی رہیں گی۔ وہ مٹی میں جا ملے، مگر اُن کے لفظ آسمانوں میں جگمگاتے رہیں گے۔ اور جب بھی کسی کا دل ٹوٹے گا، کسی کی امید بجھے گی، کسی کی روح تھکے گی، واصف کا کوئی جملہ، کوئی تحریر، کوئی دعا اُس کے لیے چراغ بن جائے گی۔ کیونکہ واصف صرف ایک انسان نہ تھے، وہ روشنی تھے، جو دلوں کے اندھیروں میں آج بھی زندہ ہے۔ |