ملک میں امن کیسے قائم ہو؟

کسی بھی ملک کی ترقی ،خوشحالی اور آسودگی کا رازاندرونی وبیرونی امن وسلامتی کی یقینی ہے،امن کو اللہ تعالی نےاپنا خصوصی انعام قراردیا ہے،معاشرے میں امن نہ ہو ،تو انارکی پھیل جاتی ہے،پھر اس کے کوکھ سے چوری،ڈکیتی،قتل وغارتگری،لوٹ کھسوٹ،افتراق وانتشار اورتعصبات وخانہ جنگیاں جنم لیتی ہیں،یوں اجتماعیت،پیار ومحبت،خیر سگالی اور ترقی وہ خواب بن جاتے ہیں، جن کی تعبیر کبھی وقوع پذیر نہیں ہوتی،بد امنی ایک عذاب ہے،اس کے حقیقی اسباب تلاش کرکے ،ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کے بعد ہی عذاب خودبخود ٹل جاتاہے،سکون ،اطمینان اور استقرار اس کی جگہ لے لیتےہے۔

آج دنیا میں جن جن ملکوں نے ترقی کی ہے،ان کے یہاں قوانین جیسے کیسے بھی ہیں،لیکن لا اینڈ آرڈر وہاں قائم نظر آتا ہے،طے شدہ معاملات سب کو معلوم ہیں،اپنی حدود تک جانے کا سب کو پتہ ہے،اس لئے ایسے ممالک میں لوگ خوش وخرم زندگی بسر کررہے ہیں،ترقی بھی ہورہی ہے،خود بھی مستفید ہورہے ہیں اور دیگر اقوام کو بھی فوائد پہنچارہے ہیں،ملک میں عزت واحترام ہے،تو پوری دنیا میں عزت کی نظروں سے وہ لوگ دیکھے جاتے ہیں،چنانچہ ایسے میں وہی لوگ قومی اور بین الاقوامی امور میں قیادت کے اہل ٹہر تے ہیں۔

لا اینڈ آرڈر جہاں نافذ العمل ہے،وہاں اس کی بدولت تمام ادارے استحکام پاتے ہیں،کیونکہ بد قماش افراد اور اداروں کو ہر وقت قانون کی گرفت کا خوف لاحق ہوتاہے،اس طرح خرابی اور تخریب دونوں کے باب مسدود ہوجاتے ہیں،نتیجتاًٍ ادارے پھلنے اور پھولنے لگتے ہیں،یہ عمل ایک فرد کی اصلاح سے لے کر پورے ادارے کی اصلاح کی ضمانت دیتاہے،پھر ان ہی صالح یعنی قانون کے مطابق چلنے والےافراد واداروں سے آگے چل کر معاشرے اور حکومتیں بنتی ہیں،یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پڑ رہی ہےکہ حکومت بھی ایک قسم کا ‘‘ادارۃ الادارات ’’ہے،کئی اداروں کے مجموعے کا نام حکومت ہے،تو جب نیچے سے افراد اور ذیلی ادارے مہذب ہوں گے،حکومت بھی مہذب اور شائستہ ہوگی،ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم ہمیشہ کسی بھی اسٹرکچر کی بنیاد کو نہیں دیکھتے،بلکہ اس کے اوپر والے آخری حصے پر نگاہیں مرکوز کئے ہوتے ہیں،اصلاح بھی وہیں سے شروع کرنا چاہتے ہیں،جو ہوتی نہیں ہے،تھک ہار کر گالی گلوچ یا تنقید پر اتر آتے ہیں،اس طرح کبھی بھی سدھار نہیں ہوتا،بگاڑ ہوتاہے،کچھ ایسی صورت میں دیگر اداروں یا ملکوں کو موردِ الزام ٹہرانے پر تُل جاتے ہیں،ارے بھائی آپ دوسروں کو مداخلت کا موقع ہی کیوں دیتے ہیں۔

ابھی کچھ دن قبل رمضان المبارک میں ہم عمرے پر گئے تھے،وہاں دنیا جہاں سے مختلف ومتنوع رنگوں اور زبانوں والے لاکھوں لوگ تشریف لاتے ہیں،مرد، عورتیں اور بچے سب ہی ہوتے ہیں،پرامن اور پر سکون ماحول میسر ہوتاہے،اگر چہ کچھ خبث باطنی کے مریضوں نے وہاں بھی حرم نبویﷺ میں نقضِ امن کی کوشش کی ،مگر لا اینڈ آرڈر کی پختہ دیوار نے وہاں ہزاروں جانیں بچائی،سعودی عرب اور پر امن ممالک میں سیکورٹی کی تمام فورسز کو یکساں اہمیت،عزت واحترام حاصل ہے،شُرطے میں یکدم نوجوان،پُھرتیلے اور ظاہری،باطنی،اخلاقی اور سیاسی تربیت یافتہ افراد ہوتے ہیں،کہیں بھی آپ ان پر سستی،کاہلی،پژ مردگی اور تھکاؤٹ کے آثار نہیں دیکھیں گے،وہ ہر دم چست،تروتازہ اورہرقسم کے خطرے وخدمت کے لئےتیار نظرآتے ہیں،پروقار،پر اخلاق اور سکون انداز میں ہوتے ہیں،ہمارے یہاں پولیس کے لوگ سارے بڈھے،توندیں نکلی ہوئیں اور کاہل نظر آتے ہیں،کسی نے اگر مونچھیں بھی رکھی ہیں،تو بھی ان سے سنبھالی نہیں جاتیں،ماں بہن کی گالیاں تو ان سے ہی سیکھی جائیں،اکثر سانس کے مریض لگتے ہیں،وجہ یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے اپنا امیج خود برباد کیا ہواہے،دوسرا یہ کہ ہمارے اوپر کے اداروں اور اشخاص نے ان کا بیڑا غرق کرکے رکھ دیا ہے،اتنے اہم دارے جس کا تعلق ڈائریکٹ پبلک ڈیلینگ سے ہے،اس پر کماحقہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے یہ پورا ادار بوڑھا یا مریض لگنے لگا ہے۔

پولیس بھی سیکورٹی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے،ملک میں امن وامان بحال رکھنے کے لئے اس کا وجود ضروری ہے،اس کی اہمیت،ضرورت اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا،اس ادارے کو سیاستدانوں کے دست برد سے بچانے کے لئے اسے بّری،بحری اور فضائی افواج کی طرح سیکورٹی فورسز کا باقاعدہ اور منظم حصہ بنایا جائے،ان کو ایسے حقوق دئے جائیں کہ ان کی نظروں سے حرص ولالچ وغیرہ کی طرح بیماریاں دور ہوجائیں،یہ امن کی بنیاد ہیں،ہم اس بنیاد کے بجائے اوپر سے نئے نئے ادارے میدان میں اتارتے ہیں،وہ محدود بھی ہوتے ہیں،حالانکہ اس عظیم شعبے میں اصلاحات کوئی نہیں کرتا،اسی لئے امن بھی صحیح طرح قائم نہیں ہوتا،ان کی تربیت بھی ضروری ہے، مراعات بھی،وسائل بھی،اگر ان کی حالت اسی طرح ہوگی جیسی ہے،تو یقیناً یہاں بد امنی ہوگی،انارکی ہوگی،لوگ کہتے ہیں،پولیس والے رشوت لیتے ہیں،رشوت تو دور کی بات ہے بھیک مانگتے ہیں۔

ورنہ اگر اس شعبے کی تباہی اتنی ہوئی ہے کہ اصلاح ناممکن ہے تو پھر اس کو ختم کرکے اس کے متبادل جو بھی ہو اس کا انتظام وانصرام کیاجائے،یوں اس حال میں یہ بات چلنے کی نہیں ہے،ویسےمیں بذاتِ خود پولیس والوں کا بہت احترام کرتاہوں،انہیں قدر کی نگاہ سے دیکھتاہوں،جیسے دیگر تمام سیکورٹی کے ادارے ہماری نگاہوں میں محترم ومکرم ہیں۔انٹر نیٹ کے شعبے میں دنیا نے ترقی کی ہے،اب کئی ممالک میں الیکٹرانک فورسز کا بھی معقول انتظام ہے،لیکن ہمارے فوج کا تو ہمیں نہیں معلوم پولیس میں اس حوالے سےخاطر خواہ کام نہیں ہواہے،کراچی میں عرفان بہادر،مظہر مشوانی اور عمر خطاب جیسے پڑھے لکھے آفیسر موجودہیں،ایک ہی طارق جدون کے پاس اکثر رجوع کیاجاتا ہے،تو وہ ملزم کے متعلق محل وقوع وغیرہ کی معلومات فراہم کرتے ہیں،خلاصہ یہ کہ گڈ اور بِڈ فورسز کے بجائے تمام فورسز کو زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیاجانا اس وقت بے حد ضروری ہے،تاکہ یہ حضرات اندرون وبیرون امن وامان برقرار رکھنے میں دل جمعی سے اپنا اپنا بھرپور کردار اد کرسکیں،ملک وملت کو ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے میں ان سب کا بنیادی عمل دخل ہے،اسےنظر نداز کرنے کی صورت میں خدانخواستہ ایسے خطرناک مسائل کھڑے ہوں گے،جن کا مداوا ناممکن ہوجائے گا،اس لئے سب سے پہلے اِن اداروں کو صحیح معنوں فعّال کرنے اور ان میں نئی روح پھونکنے کاکام کیاجائے۔ اللہ کرے کسی دل میں اتر جائے میری بات ۔
یہی ہے محبت ،یہی دین و ایماں
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 813623 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More