مقبوضہ وادی میں قتل عام اور سخت کرفیو کا
آج 14واں روز ہے۔ عوام کرفیو توڑ کر بھارتی فورسز کے خلاف دلیرانہ مزاحمت
کر رہے ہیں۔ ایسے میں آزاد کشمیر میں عام انتخابات مکمل ہو گئے۔ 41اسمبلی
نشستوں کے لئے تقریباً26لاکھ74ہزار ووٹر ووٹ ڈالنے کے اہل تھے۔ 2011کے
الیکشن میں 28لاکھ 43ووٹر رجسٹرڈ تھے۔پانچ سال بعد تقریباً دو لاکھ ووٹر کم
ہو گئے ۔ کیوں کہ ووٹ نئے سرے سے درج کئے گئے ہیں۔ ووٹر کے شناختی کارڈ کے
مطابق مستقل پتہ کے حامل ووٹر ہی پولنگ بوتھ پر ووٹ ڈالنے کے اہل
تھے۔خواتین ووٹرز گزشتہ الیکشن کے مقابلے میں13لاکھ 48ہزار سے کم ہو 11لاکھ
90ہزار رہ گئیں۔ جبکہ مرد ووٹرز کی تعداد 14لاکھ 95ہزار سے کم ہو کر 14لاکھ
84ہزار رہ گئی۔ خواتین ووٹرز کی تعداد میں حیران کن حد تک کمی ریکارڈ کی
گئی ۔ جب کہ پانچ سال کے بعد ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہونا چاہیئے تھا۔ سب
سے کم ووٹ وادی کے چھ حلقوں کے ہیں۔ جہاں ووٹرز کی تعداد صرف ساڑھے تین
ہزار سے سوا چھ ہزار تک ہے۔ سب سے زیادہ ووٹرز کی تعدادایل اے 11 کوٹلی چار
اور ایل اے 23نیلم میں ہے۔یہاں ساڑھے 96ہزار سے زیادہ ووٹر حق رائے دہی
استعمال کرسکتے تھے۔ کل 423امیدوار میدان میں تھے۔
19فروری2016کو حکومت نے دس ماہ کی تاخیر سے جسٹس غلام مصطفےٰ مغل کو آزاد
کشمیر کا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ تب سے الیکشن کمیشن کے عملے نے دن رات
کام کیا۔ تب سے آج تک انھوں نے ہفتہ اتوار تک کی تعطیل نہیں کی۔ ایک سینئر
الیکشن افسر طارق بٹ عید کو بھی الیکشن کمیشن آفس میں دیکھے گئے۔ عملے نے
افطاری اور سحری بھی دفتر میں کیں۔ دن رات کی محنت سے انھوں نے پانچ میں
کام مکمل کر لیا۔ صاف و شفاف انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن نے جو محنت کی ،
آج اس کے رنگ لانے کی امید بر آئی جب لوگ بے خوف و خطر ووٹ ڈالنے کے لئے
نکلے۔ آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار اصلی شناختی کارڈ کی بنیاد پر ووٹ
ڈالے گئے۔نئی ووٹر فہرستیں جاری کی گئیں۔ ووٹر کا اندراج شناختی کارڈ میں
درج مستقل پتے پر ہوا ۔ ورنہ شناختی کارڈ پر موجودہ پتہ پر اس صورت میں ووٹ
درج ہو اکہ مستقل پتہ سے این او سی حاصل کیا گیا تھا۔ پہلی بار ووٹر کے
بارے میں نادرا سے ویری فکیشن کی گئی۔ جس کی وجہ سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب جعلی
ووٹر خارج کر دیئے گئے۔ جبکہ ہزاروں مرحومین کے ووٹ بھی خارج ہوئے۔ اس کے
ساتھ ہی شادی شدہ ہزاروں خواتین بھی والد کے ایڈرس سے خارج کی گئیں ۔
مہاجرین مقیم پاکستان کے شناختی کارڈ اور سٹیٹ سبجیکٹ کی بنیاد پر فہرستوں
کو مرتب کیا گیا۔ 1989کے مہاجرین کے شناختی کارڈ یا مہاجر کارڈ کی بنیاد پر
ووٹ درج ہوئے۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر نے انتخابی
شیڈول جاری ہونے پر اپنے اختیارات سرینڈر کر دیئے۔
41اسمبلی حلقوں کے تمام 5400پولنگ بوتھوں پر پہلی بار ٹرانسپیرنٹ بلٹ بکس
کا استعمال ہو ا۔ تا کہ ووٹر سب کچھ خود مشاہدہ کر سکے۔ یہ بھی پہلی بار ہو
اہے کہ کوڈ آف کنڈیکٹ کو قانون کا حصہ بنایا گیا۔ اس کی پامالی پر جرمانے،
فوجداری سزائیں تجویز کی گئیں۔ اس بار صدر اور وزیراعظم سمیت وزراء، مشیروں
کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ انتخابی مہم چانے سے روکا گیا۔ جب کہ صدر ریاست
کو اپنی بیٹی کی مہم چلانے پر سخت سرزنش کی گئی۔ یہ بھی پہلی بار ہو رہا ہے
کہ پاکستان میں مہاجرین کے 12حلقوں میں وفاقی ، صوبائی یا ریاستی وزیر مشیر،
ناظم، سیاسی یا سماجی لیڈر پولنگ سٹیشن کا دورہ نہ کر سکے۔ اس دورہ پر
پابندی لگا دی گئی تھی۔ وہاں صرف ووٹر، پولنگ ایجنٹ، الیکشن عملہ یا
امیدوار ہی داخل ہو سکتا تھا۔ پاک فوج اور پولیس کی مشترکہ سیکورٹی فراہم
کی گئی ۔ آزاد کشمیر میں ایک ہزار دس اور پاکستان میں 500پولنگ سٹیشنز حساس
قرار دیئے گئے ۔ جہاں پاک فوج کے چار سے چھ اور پولیس کے کے بھی اتنے ہی
تعینات تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ پا ک فوج کے جے سی اوز اور کمشنیڈ افسران کو
مجسٹریٹ درج اول کے اختیارات دیئے گئے ۔ ہر دس کلو میٹر کے بعد 20کمانڈوز
پر مشتمل فوری ریسپانس فورس( QRF)ایمرجسنی کے لئے تیار تھی۔ یعنی مظفرآباد
سے کہوڑی کے درمیان ایک اور وہاں سے نیلم تک سات کمانڈوز دستے تیار رکھے
گئے تھے۔ اس بار کسی بھی گڑ بڑ سے بچنے کا معقول اہتمام کیا گیا ۔ شکنجہ
سخت تھا۔ نامزد مجسٹریٹ درجہ اول موقعہ پر قانون شکنی پر سزائیں دینے کے
اہل تھے۔ سرکاری ملازمین کی ووٹنگ کے موقع پر مظفر آباد، ہٹیا ں بالا،
سہنسہ، سماہنی، میرپورمیں قانون شکنی پر تقریباً ایک درجن افراد کو قید با
مشقت اور جرمانے کئے گئے۔ کئی لوگ اب بھی جیل میں ہیں۔
20جولائی کو الیکشن سے ایک روز قبل فوج نے کئی علاقوں میں فلیگ مارچ کیا۔
پاک فوج ہی بیلٹ بکس ، عملے کی نگرانی کر رہی تھی۔ پٹرولنگ بھی سخت کی جا
رہی تھی۔ جس کا مقصد ووٹر کو تحفظ کا احساس دلانا تھا۔ ووٹر کو تحفظ دینا
ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پر امن اور صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد کا پیغام
دینے کا مقصد ووٹ کی اہمیت کو سمجھانا ہے۔نادرا، پی ٹی اے، الیکشن کمیشن آف
پاکستان نے بھی آزاد کشمیر الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کیا ۔ اسی وجہ سے
8302پر کوئی بھی ووٹراپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر کے اپنا ووٹر
نمبر، انتخابی حلقہ اور پولنگ سٹیشن معلوم کر سکتا تھا۔ یہ بھی منفرد سہولت
ہے۔انتخابی انتظامات کی وجہ سے اس بار ٹرن آؤٹ بھی زیادہ ہونے کی توقع تھی۔
ووٹ کسی برادری، علاقے کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایماندار،متحرک، مہذب ، درد
مندا ور شریف النفس امیدواروں کو دینا زیادہ فائدہ مند ہوتا ہے۔ ووٹ کے حق
دار وہی ہیں،جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں۔ جو ایوان میں آ کر اپنی تنخواہوں
میں اضافے، مراعات اور مفادات کے بجائے قوم کا بھی کچھ خیال رکھیں۔ جو آزاد
کشمیر کو تحریک آزادی کا بیس کیمپ بنانے کے اہل ہوں۔ جو جدوجہد میں مصروف
اپنے بھائیوں کا درد سمجھتے ہوں۔ جو سرینگر میں مظلوموں کی آواز کے ساتھ
آواز ملانے کی دردمندی رکھتے ہوں۔ ووٹ ان کی امانت ہے جن کی پہلی ترجیح
تحریک آزادی اور آزاد کشمیر کی فلاح و بہبود ہو۔ جو غیر مہذب اور غیر
شائستہ کلام سے کشمیر کی اعلیٰ و ارفعٰ روایات اور اقدار کا جنازہ نہ
نکالیں۔ ووٹ کا درست استعمال روشن مستقبل کی ضمانت بن سکتا ہے ۔ برادری،
علاقہ یا کسی بھی ازم کی بنیاد پر دیا گیا ووٹ قوم کو تباہی کی راہ پر ڈال
سکتا ہے۔ نوجوانوں پر خاص طور پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جیتنے اور
ہارنے والوں کو ان کے وعدے یاد دلاتے رہیں۔پارٹیوں کو ان کے انتخابی منشور
پر چلنے کی تلقین کریں۔ جو وعدے کر کے مکر گئے، صرف ووٹ کے لئے سامنے آئے،
جو قوم کو تقسیم کرتے رہے۔ تحریک آزادی سے غفلت کا مظاہرہ کیا ، ان کو ان
کی اوقات یاد دلانے کی ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے۔ |