دائرہ کار!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
’’ چینی ،آٹے کا بھاؤ کنٹرول کرنا
حکومت کا کام ہے، اور انصاف کی فراہمی ججز کا فرض‘‘۔ یہ بیان ہے چیف جسٹس
لاہور ہائی کورٹ سید منصور علی شاہ کا۔ اگرچہ اس اصول سے ہر کوئی آگاہ ہے،
مگر ستم یہ ہے کہ اصولوں، قوانین اور فامولوں سے کوئی اتفاق نہیں کرتا۔ چیف
جسٹس نے بھی اپنے عہدہ جلیلہ پر جلوہ گر ہونے کے فوراً بعد اسی قسم کا بیان
دیا تھا، ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ از خود نوٹس نہیں لے گی، حکومت اپنا کام
کرے اور ہم اپنا کام کریں گے۔ اب جبکہ وہ اپنے عہدے پر کام شروع کر چکے ہیں،
انہوں نے اپنی منصوبہ بندی پر عمل شروع کردیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ تیرہ
لاکھ زیرالتوا مقدمات کو جلد نمٹانے کے لئے جامع منصوبہ تیار کرلیا۔ پرانے
مقدمات کو جلد نمٹانے اور عدالتی نظام کی بہتری کے لئے خود کار کمپیوٹرائزڈ
نظام ستمبر تک نافذ کردیا جائے گا۔ انہوں نے کرپٹ افسران کی فہرستیں بنائے
جانے کی بھی خبر دی۔ وہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ لاہور میں جدید ویڈیو لنک
سسٹم کا افتتاح کررہے تھے۔
پاکستان میں اﷲ تعالیٰ کے فضل وکرم سے عدلیہ بہت حد تک آزاد ہے۔ اگرچہ کچھ
سال قبل تک یہ آزادی بہت محدود تھی۔ عدلیہ کی آزادی زیادہ تھی یا کم، یہ
ایک الگ کہانی ہے، مگر مقدمات کے فیصلے نہ ہونا دوسری بات۔ اپنے ہاں
بدقسمتی سے بے شمار ایسے مقدمات ہیں جن کے فیصلے ایک نسل کو دیکھنا نصیب ہی
نہیں ہوتے۔ بلکہ زمینوں اور جائیدادوں کے مقدمات تو تیسری نسل تک بھی
پیشیوں کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔ اگر ایک ماتحت عدالت نے کسی حقدار کے حق میں
فیصلہ کربھی دیا تو مخالفین (اگر وہ ناحق پر بھی ہوتے ہیں) اوپر والی عدالت
میں چلے گئے اور معاملہ پھر عشروں تک جاپہنچا۔ عدالتیں تو اوپرسے اوپر
موجود ہیں، اور یوں پیشیاں بھگتتے بھگتتے نسلیں بیت جاتی ہیں۔ بہت سے حقدار
ایسے بھی ہیں جو راہوں میں ہی رُل جاتے ہیں، دستبردار ہو جاتے ہیں، مار
دیئے جاتے ہیں، لوٹ لئے جاتے ہیں۔ بعض اوقات نتیجہ لڑائی جھگڑے اور قتل و
غارت گری کی صورت میں نکلتا ہے، پھر یہ دشمنیاں طول پکڑ لیتی ہیں اور کئی
کئی قتل ہوجاتے ہیں۔
کوئی بھی ادارہ بذاتِ خود اچھا یا برا نہیں ہوتا، اس میں کام کرنے والے ہی
اسے اچھا یا برا بناتے ہیں۔ عدلیہ کسی بھی ملک کا سب سے اہم اور معززادارہ
ہوتا ہے، اس کو مزید نیک نام بنانے اور احترام دینے کے لئے اس میں کام کرنے
والوں کا کردار ہوتا ہے۔ ادارے میں کام کرنے والوں کے علاوہ ادارے کے
سربراہ کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ موجودہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے
آتے ہی جن خواہشات کا اظہار کیا، ان سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کچھ کرنا
چاہتے ہیں، اس کے لئے انہوں نے خوب منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی۔ عدلیہ سے
عوام کو دو چیزوں کی توقعات ہوتی ہیں، ان کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ کام ضرور
اور جلد ہو جائیں، یعنی انصاف بھی دستیاب ہو، دہلیز پر یعنی قریب ملے اور
بہت جلدی بھی مل جائے۔ بعض اوقات عدالتوں کو اندازہ نہیں ہوتا اور سائل کی
زندگی موت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ اب چیف جسٹس نے نہ صرف ان باتوں کی یقین دہانی
کروائی ہے، بلکہ اس سسٹم کو جدید بنانے کے لئے ٹیکنالوجی اپنانے کا بھی
اعلان کیا ، سائلوں کی معلومات کے لئے بھی کمپیوٹر اور موبائل پر سہولت
دینے کا فیصلہ بھی ہوا ہے، جس سے ہر کوئی اپنے گھر بیٹھے ہی معلومات حاصل
کرسکے گا۔
عدالتوں میں زیرالتواء مقدمات کی تعداد سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ
پیشیوں پر پیشیاں دینے کی وجہ یہی مقدمات ہیں، اگر اب ان کو نمٹانے کے لئے
جامع منصوبہ بنا لیا گیا ہے تو یہ نہایت ہی خوش آئند فیصلہ ہے، جس پر
عملدرآمد کرنے سے عوام کے مسائل حل ہوں گے، ان میں خوشی کی لہر دوڑ جائے
گی۔ اس خبر کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اگر عدلیہ نے تہیہ کیا ہے کہ وہ اپنا
کام کرے گی تو حکومت اور اس کے اداروں کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنے دائرہ کار
میں رہتے ہوئے اپنے فرائض نبھائیں۔ یہاں بدقسمتی سے کوئی اپنا کام کرے یا
نہ کرے ، دوسرے کے کام میں مداخلت کرنا اور دوسروں پر تنقید کرنا اپنا
اولین فرض جانا جاتا ہے۔ اگر ہر کوئی اس اصول پر عمل شروع کردے تو مسائل حل
ہونے میں تاخیر نہیں ہوگی، سکون بھی ہوگا ، امن بھی اور سب کے کام بھی
بروقت ہوجایا کریں گے، بس ضرورت عمل کی ہے۔ |
|