ایک امریکی ادارے فوکس نیوز ڈاٹ کام نے
پاکستان میں اِنٹرنیٹ پر فحش اور جنسی مواد تلاش کرنے کے حوالے سے اپنی ایک
مرتب کردہ رپورٹ کی ابتدا اِن الفاظ کے ساتھ کی ہے کہ پاکستان کے معنی”
بیشک پاک لوگوں کی سرزمین“ لیا جاتا ہے لیکن اِس کے ساتھ ہی وہ اپنی اِس
رپورٹ میں لکھتا ہے کہ بڑے افسوس کی بات کہنی پڑ رہی ہے کہ پاکستانی ایسے
نہیں ہیں۔ جیسے اِن کے ملک کا نام ہے ”پاکستان“ اور جیسے اِس کے معنی مطلب
نکلتے ہیں وہ تحریر کرتا ہے کہ پاکستان نے ایک درجن سے زائد17کے قریب ویب
سائٹس کو مخرب الاخلاق اور توہین آمیز قرار دے کر اپنے یہاں اِن پر پابندی
لگا رکھی ہے اور آگے چل کر یہ امریکی ادارہ اپنی اِسی رپورٹ میں یہ انکشاف
بھی کرتا ہے کہ لیکن جب اِن ہی ویب سائٹس (اِنٹرنیٹ)پر فحش مواد کی تلاش کا
تذکرہ دنیا میں جب بھی کیا جاتا ہے تو اِس حوالے سے یہ بات بھی دنیا کے
سامنے آتی ہے کہ یہی پاکستانی جن کے ملک میں 17کے قریب چھوٹی بڑی ویب سائٹس
پر پابندی ہے دنیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں (ویب سائٹس پر فحش اور
عریاں مواد تلاش کرنے میں)پاکستانی سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ اور اِس حوالے
سے فوکس نیوز ڈاٹ کام نے اِس کی نفسیاتی اور مذہبی وجہ جاننے کے لئے جب
یونیورسٹی آف نوٹرے ڈیم کے ایک اسلامیات کے پروفیسر جبرئیل سعید رینالڈ سے
رابطہ کیا تو اِن کا کہنا تھا کہ اسلامی ممالک میں بدن کی عریاں نمائش کی
پابندی ہے اور اگر عریانیت کے لئے اِس ذوق و شوق کا اظہار نہ کریں تو یہ
بات ستم ظریفی ہوگی۔
اور اِس کے ساتھ ہی اگر یہ کہا جائے تو کوئی غلط نہ ہوگا کہ اِس امریکی
ادارے فوکس نیوز ڈاٹ کام نے اپنی رپورٹ میں گوگل کا حوالہ دیتے ہوئے
انتہائی ہٹ دھرمی سے پاکستانیوں کی ذہنی (فحشی اور جنسی) عیاشیوں کا بھی
پول ساری دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے کہ پاکستانی مذہب کا لبادہ
اُوڑھے جنسی عیاشیوں میں کس طرح مگن رہتے ہیں یہ لکھتے ہوئے اپنا دعویٰ
کرتا ہے کہ” گوگل پر مخرب الاخلاق (فحش اور جنسی)مواد تلاش کرنے والے
دنیاکے دیگرممالک کے شہریوں میں پاکستانی سرِفہرست ہیں اور یہاں اِس کا یہ
کہنا بھی بڑی حد تک درست لگتا ہے حالانکہ جب پاکستان میں ایک درجن سے زائد
فحش اور جنسی مواد سے لبریز ویب سائٹس پر پابندی عائد تھی تو پاکستانیوں نے
کس ذہنی اور نفسیاتی اذیت کا سامنا کیا ہوگا اور وہ اِس حوالے سے لکھتا ہے
کہ اپنی اِس ساری کیفیت سے پاکستانی خود بھی واقف ہونگے اور ہم تو جانتے
ہیں کہ پاکستانی اِس دوران ویٹ سائٹس پر فحش مواد تلاش کئے بغیر نہیں رہ
سکے ہوں گے.......؟
جبکہ فوکس نیوز ڈاٹ کام نے اپنی رپورٹ میں اِس بات کا انکشاف کرتے ہوئے
اپنے دعوے میں یہ بھی کہا ہے کہ ”گوگل کے اعلامئے کے مطابق پاکستان گوگل،
یاہو، بنگ، یوٹیوب، ایم ایس این اور ہاٹ میل کے مواد میں موجود غیر اسلامی
مواد کی سخت نگرانی کرتا ہے لیکن پاکستانیوں کو سنسر نہیں کیا جاتا اِس نے
اِس کی وجہ رینالڈ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بتائی ہے کہ دراصل یہ باہر کی
دنیا کو خاموش کرنے کے مترادف ہے اور اِسی طرح امریکی ادارے فوکس نے فیس
بُک کے ائنڈر یونوئس کا کے حوالے سے لکھا ہے کہ ”یہ سچ ہے کہ پاکستان نے
مئی میں فیس بُک پر پابندی عائد کردی تھی مگر بعد میں خود ہی اٹھا بھی لی
اِس کی جانب سے فیس بک پر پابندی لگانی کی وجہ کچھ سمجھ نہیں آئی.....؟ کہ
پاکستان نے فیس بُک پر پابندی کیوں لگائی تھی......؟ اِس کا کہنا ہے کہ جس
کی وجہ سے فیس بک پر پاکستان نے پابندی لگائی گئی تھی وہ مواد تو پاکستان
میں فیس بک پر پابندی ہٹائے جانے کے باوجود بھی موجود ہے مگر پاکستانی اِس
مواد کو نہیں دیکھ سکتے ہیں اِس کا یہ بھی بڑے تذبذب کے عالم میں( جیسے یہ
ہم پاکستانیوں کا مذاق اڑا رہا ہوں )کہنا تھا کہ دنیا یہ بات اچھی طرح سے
جانتی ہے کہ پاکستان میں توہین انبیا کے مرتکب افراد کے لئے سزائے موت مقرر
ہے لیکن جہاں تک پاکستان میں مخرب الاخلاق فحش/جنسی مواد کی فراہمی کا سوال
ہے تو اگرچہ یہ بھی اسلام کے خلاف ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اِسے کسی
طریقے سے روکا جاسکتا ہے یا لوگوں کو ویب پر موجود عریاں جنسی مواد سے دور
رکھا جاسکتا ہے...؟فی الحال! امریکی ادارہ فوکس نیوز ڈاٹ کام نے رینالڈ کے
مطابق اِس سوال کا جواب یہی دیا ہے کہ” یہ ایک نیا عمل ہے“ ۔
یہ وہ خبر تھی جس نے مجھے آج کا اپنا یہ کالم لکھنے کے لئے متحرک کیا مگر
اِس ساری بحث و تکرار اور منظر و پس منظر کے بعد میرا خیال یہ ہے کہ امریکا
سمیت یورپی ممالک اگر یہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں امن قائم ہوجائے تو اِنہیں
چاہئے کہ وہ نہ صرف اِنٹرنیٹ پر سے فحاشی اورعریانیت کا خاتمہ کریں بلکہ
اپنے معاشرے سے بھی مرد و عورت کا سرِبازار ننگا رہنے اور ایک دوسرے کے لئے
جنسی سامان مہیا کرنے والے فعلِ تسکین و لذتِ حرام پر پابندی لگائیں جس کی
وجہ سے اِن کا معاشرہ جِسے یہ دنیا کے مہذب ترین معاشروں میں شمار کرتے ہیں
درحقیقت یہ دنیا کے وہ گندے ترین معاشرے ہیں جہاں عورت کی حیثیت جنسی تسکین
کے سوا اور کچھ نہیں ہے اور اِن کے یہی معاشرے دنیا کے لئے کلنک کا ٹیکہ
ہیں جنہیں راہ ِ راست پر لانے اور لگام دینے کے لئے جب امریکا اور یورپ ہی
سے کچھ مسلم نوجوانوں کا ٹولہ سامنے آتا ہے تو امریکا اور یورپ کے بھٹکے
ہوئے لوگ اِنہیں دہشت گرد کہہ کر اِنہیں دنیا کے لئے خطرہ قرار دیتے ہیں۔
اِس حوالے سے میرا امریکا سمیت اُن یورپی ممالک سے جہاں کھلے عام عریانیت
ہے اِن سے یہ کہنا ہے وہ اپنے معاشرے کو سُدھاریں اور اپنی عورت کو چادر
اور چاردیواری میں باعزت طریقے سے رکھیں اور اِس کے حقوق صحیح طرح سے ادا
کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ اِن کا معاشرہ بھی ایک پاکیزہ معاشرہ بن جائے اور
یہاں سے فحشی اور عریانیت ختم ہوجائے اِن کے اتنے سے اچھے عمل سے نہ صرف
اِن کا معاشرہ بہتر ہوجائے بلکہ دنیا سے دہشت گردی اور بدلے کی سیاست کا
بھی ختم ہوجائے جو اِن ممالک نے اپنے معاشرے میں عریانیت کو عام کر کے مسلم
دنیا کے صاف ستھرے معاشرے کو تباہ وبرباد کرنے کے لئے قائم کر رکھی ہے۔ اور
یورپ کا وہ گندا اور غلاظت سے بھرا معاشرہ جو مسلم دنیا کے لئے ناسور ہے وہ
اِسے کسی صُورت اپنے یہاں قبول نہیں کریں گے۔
اور میں اِس موقع پر یہ کہنا بھی مناسب سمجھتا ہوں کہ کوئی ضروری نہیں کہ
آپ میرے اِس مفروضے اور مشاہدے سے متفق بھی ہوں مگر یہ بھی کوئی لازم نہیں
کہ آپ اِس بارے میں جو بھی اپنی نالج رکھتے ہوں وہ بھی زبردستی مجھ پر
لاٹھی لے کر ٹھوسنا شروع کردیں بہر حال!آپ کے پاس اِس حوالے سے جتنی بھی
معلومات ہوں مجھے اِس سے کوئی سروکار نہیں ہے مگر میں اپنے مشاہدے کی روشنی
میں اِس نتیجے پر پہنچ سکا ہوں کہ دنیا میں بسنے والے اربوں اِنسان جن کا
تعلق کسی بھی مذہب وملت رنگ ونسل اور زبان و علاقے سے ہو اِن سب میں سیکس
کی پانچ اقسام مشترکہ طور پر پائی جاتی ہیں اور جو اِنسان کے بالغ ہونے اور
اِس کی عمر کے بڑھتے درجات کے ساتھ ساتھ بتدریج بدلتی رہتی ہیں جن میں اوّل
سوچنے والا سیکس، دوئم سُننے والا سیکس، سوئم اگر بلوغت کو پہنچنے والا مرد
و عورت پڑھا لکھا ہے تو پڑھنے والا سیکس، چہارم دیکھنے والا سیکس اور سب سے
آخر میں پریکٹیکل یعنی عمل کرنے والا سیکس ہر بالغ اِنسان (مرد و عورت) کے
حصے میں اُس کی زندگی میں ضرور بنتا ہے۔
مگر آج دنیا کے بیشتر ممالک جن میںٍ بالخصوص امریکا، فرانس، لندن اور دیگر
شامل ہیں اِن ممالک کی درس گاہوں میں سیکس سے متعلق ہر قسم کی معلومات کو
علم کا درجہ دے کر اِسے تعلیم کی شکل میں کورس کا حصہ بنا کرلازمی قرار دیے
کر سیکس کی آگاہی اَن معاشروں میں ہر فرد کو دی جارہی ہے اِس کے بعد اَب یہ
کوئی ضروری نہیں رہ گیا ہے کہ ہر اِنسان مندرجہ بالا چاروں اقسام سے گزر کر
سیکس کی سب سے آخری قسم (عملی سیکس )تک پہنچے موجودہ دور میں ایسی بھی
لاکھوں مثالیں آئے روز سامنے آرہی ہیں کہ دونوں جنسوں ( میل اور فیمل )میں
سے کوئی ایک یا دونوں ہی براہِ راست عملی سیکس سے گزر جاتے ہیں۔
بہرکیف!اِ س کی تفصیل میں جانے کی کوئی خاص ضرورت نہیں بس میں اتنا بیان
کرتے ہوئے آگے بڑھوں گا کہ یورپی ممالک کے مادر پدر آزاد جنسی معاشرے کے
مقابلے میں ہمارے اسلامی ممالک کے لوگ مذہبی تعلیمات اور اُصولوں کی
پابندیوں کی وجہ سے سیکسی آزادی اور سیکسی معلومات سے بہت پیچھے ہیں اور آج
الحمدللہ! یہی مذہبی پابندی اور اسلامی تعلیمات ہی کا نتیجہ ہے کہ دنیا کے
تمام اسلامی ممالک کو یہ اعزاز اور امتیاز حاصل ہے کہ مسلم ممالک قرآن و
سُنت کی روشنی میں بنائے گئے اپنے سخت ترین قوانین کی وجہ سے یورپ کے کسی
بھی بدکردار جنسی معاشرے میں پیدا ہونے والی جنسی بے راہ روی سے اپنے
معاشرے کو بچائے ہوئے ہیں۔ اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ جب تک دنیا رہے گی
مسلم ممالک امریکا اور یورپی ممالک کی طرح اپنے معاشروں کو کھلے عام جنسی
بے راہ روی کا شکار ہرگز نہیں ہونے دیں گے۔
اور آج امریکی ادارہ فوکس نیوز ڈاٹ کام اپنی رپورٹ میں اپنا یہ اِنکشاف اور
دعویٰ”پاکستانی اِنٹرنیٹ پر فحش اور عریانی مواد تلاش کرنے والے دنیا کے
دیگر ممالک کے شہریوں کے مقابلے میں سرِفہرست ہیں“ کر کے کیا سمجھ رہا ہے
کہ پاکستان کا مسلم معاشرہ اور یہاں کے لوگ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوکر
کیا امریکیوں کی طرح عریاں ہوگئے ہیں۔ جس کے لئے یہ اتنا خوش ہوکر دنیا بھر
میں یہ پروپیگنڈہ کررہا ہے کہ پاکستانیوں نے نیٹ پر فحاش مواد تلاش کرکے
ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ |