حقیقی سیاسی قیادت اور پیشہ ور سیاستدانوں میں فرق
(Dr. Muhammad Javed, Dubai)
یقیناً اس وقت قیادت کے اس بحران سے نکلنے کی سخت ضرورت ہے، قوم کو اگر اپنا مستقبل محفوظ کرنا ہے تو پھر حقیقی ایماندار، اور قومی سوچ رکھنے والی مخلص قیادت کا انتخاب کرنا پڑے گا ورنہ اس وقت جو صورتحال ملک کو درپیش ہے اس میں سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔خاص طور پہ نوجوان نسل کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے ادراک کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے مستقبل کا سوال ہے۔اگر آج نوجوان نسل اس صورت حال پہ آنکھیں بند کر دیتی ہے اور صرف اپنی ذاتی مفاد کے لئے جدو جہد میں مصروف رہتی ہے اور اجتماعی حوالے سے، ملکی اور قومی ترقی و خوشحالی کے لئے نہیں سوچتی تو آئندہ نسلیں بھی اسی ماحول میں جینے پہ مجبور ہوں گی اورہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں گی۔
|
|
|
کرپشن کا کلچر |
|
اقوام کی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ سچی اور
دیانت دار قیادت ہی نے اقوام کے اندر اجتماعیت پیدا کر کے انہیں ترقی کی
منازل سے ہمکنار کیا ہے، حقیقی قیادت قوم کی امنگوں کی ترجمان ہوتی ہے،جب
قوم سوتی ہے توقائد جاگتا ہے، قوم کے دکھوں، مشکلات اور مسائل کا ادراک
رکھتا ہے، اور برسر اقتدار آتے ہیں اس کے شب و روز قوم کی تعمیرو ترقی میں
گذرتے ہیں۔ وہ قوم کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے کی جدو جہد کرتا ہے، وہ ہر اس
پہلو پہ اور حکمت عملی پہ سوچتا ہے جس سے قوم کے اندر خود انحصاری اور
خوشحالی پیدا کی جا سکے۔ اس کے مد نظر ملکی اورقومی ترقی کے سوا کچھ نہیں
ہوتا، وہ اپنے ذاتی ، گروہی، خاندانی مفادات پہ قومی مفادات کو ترجیح دیتا
ہے۔ قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھ کر خرچ کرتا ہے،اور اپنا دامن بد
دیانتی، لوٹ کھسوٹ اور دھوکہ دہی سے بچا کے رکھتا ہے۔ جھوٹ بول کر قوم کو
بیوقوف بنانے کی بجائے سچ بول کر ان کے شانہ بشانہ ہر طرح کے دکھ اور
پریشانی میں ان کا ساتھی بنتا ہے۔ اس کا دل قوم کے ساتھ دھڑکتا ہے، قوم اگر
مشکل میں ہوتی ہے تو وہ چین کی نیند نہیں سوتا۔ایک بہترین قیادت قسمت والی
اقوام کو نصیب ہوتی ہے۔دنیا کی حالیہ تاریخ نے قیادت کی بہت ساری مثالیں
ہمارے سامنے پیش کیں، اگر ہم اپنے پڑوسی ملک چین کا جائزہ لیں تو نصف صدی
پہلے وہاں ہمارے ملک سے بھی بدتر حالات سے معاشرہ دو چار تھا لیکن ماؤزے
تنگ اور ان کی ٹیم نے ایسی قومی قیادت فراہم کی کہ وہ ملک چین جو زوال سے
ہمکنار تھا، دیکھتے دیکھتے دنیا کی سپر پاور زکی صف میں شامل ہو گیا،اسی
طرح کم ال سنگ نے شمالی کوریا کو ایسی قیادت فراہم کی جس نے ایک کمزور قوم
کو اپنے پاؤں پہ کھڑا کر دیا ،اسی طرح ایرانی قیادت کی مثال ہمارے سامنے ہے،
روس،جاپان،کوریا،ملائیشیا، انڈونیشیا کی معاشی ترقی کی وجہ ان کے ہاں مخلص
اور ایماندار قیادت ہے، خود امریکہ اور یورپ کی اقوام کی مثالیں دی جا سکتی
ہیں جہاں قومی سطح پہ ابھرنے والی قیادتوں نے اپنی اقوام کو جنگ عظیم کی
تباہ کاریوں کے نقصانات سے نکالا، پھر سے انہیں ترقی و کمال کی راہوں پہ
ڈالا، آج وہ شہرجنہیں ایٹم بم کی تباہیوں سے دوچار ہونا پڑا تھا، آج وہی
شہر دنیا کے ترقی یافتہ شہروں میں شمار ہوتے ہیں۔یہ سارے کمالات و ترقی در
اصل ایک بہترین قومی قیادت کے ذریعے نصیب ہو سکتے ہیں۔اگر ان اقوام کی
تاریخ کا مطالعہ کریں تو ان کے سیاسی نظام اس حقیقت کو واشگاف کرتے ہیں کہ
ان کے حکمران طبقات پیشہ ور سیاستدان نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنی اقوام کے
مستقبل کو اپنی شبانہ روز محنت سے محفوظ کیا۔
دراصل سیاسی نظام میں قیادت چونکہ عوام سے ہی آتی ہے لہذا ان کے مد نظر
عوام ہی کی فلاح و بہبود ہوتی ہے، وہ اس طرح کا سیاسی اور معاشی نظام بناتے
اور اسے مضبوط کرتے ہیں جس سے عوام کا مستقبل محفوظ ہو جائے اور ہر آنے
والا دن پہلے دن سے بہتر ہو۔ یقیناً سیاسی نظام میں شریک یہ لوگ سیاست دان
کہلاتے ہیں، لیکن ان کا مطمع نظر اپنا ذاتی مال بنانا یا جاہ پرستی نہیں
ہوتا، بلکہ وہ ایک ایسا نظام اور ڈھانچہ وضع کرنے کی کوشش میں ہوتے ہیں، جس
سے قوم میں خود کفالت پیدا ہوتی ہے دوسری اقوام کے مقابلے میں قومی عزت
بڑھتی ہے۔
لیکن اگر دنیا بھر میں زوال پذیر معاشروں کا جائزہ لیں تو ان کے زوال اور
پستی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ وہاں قیادت کا فقدان ہے، ان پسماندہ
ممالک میں ہم بھی شامل ہیں۔اس فقدان کی وجہ دراصل یہ ہے کہ سیاست ایک پیشہ
سمجھ لیا گیا ہے، ایک سیاستدان حکومت و اقتدار میں شامل ہونے اور اپنے لئے
زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کرنے، معاشرے میں اپنا اثر رسوخ قائم کرنے اور
اپنے جائز و ناجائز کاروبار کو تحفظ دینے کے لئے سیاست کرتا ہے، اس کے لئے
وہ لوگوں کو ایک آلے کے طور پہ استعمال کرتا ہے۔’’جمہوریت‘‘’’عوام‘‘ کے نام
سے اس سیاست کے کاروبار کو اگر دیکھنا ہو تو پاکستان سمیت ان غریب اور
پسماندہ ممالک کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ہم اگر اپنے معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو صورتحال انتہائی شرمناک اور
افسوسناک نظر آتی ہے، گذشتہ نصف صدی سے ہمارا ملک قیادت کے بحران کا شکا
رہے، سیاستدان اور فوجی آمر ملکی اقتدار پہ قابض ہوتے ہیں اور اپنا پنا حصہ
پورا کر کے اس قوم کو بے یار و مددگار معاشی و سیاسی مسائل سے دو چار کر کے
اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔اگر پاکستان میں سیاسی قیادت کے حوالے سے تجزیہ کیا
جائے تو سیاستدان تو موجود رہے ہیں لیکن ایک مضبوط اور ایماندارقیادت کی
ہمیشہ کمی رہی ہے، سیاستدانوں اوربیورو کریٹوں کی یہ روش رہی کہ وہ حکومت
میں آتے رہے، اپنی ذاتی و خاندانی جاگیروں ،کاروباروں، تجارتوں کو تو ترقی
دیتے رہے لیکن انہوں نے قومی معیشت کو زوال پذیر کیا، سیاستدان لوگوں سے
جھوٹ، دھن،دھونس اور دھاندلی سے حمایت لیتے رہے اور مسند اقتدار کے مزے
لوٹتے رہے اور جب اقتدار ختم ہونے کا وقت آیا تو اگلے الیکشن کے لئے سوچتے
اور منصوبے بناتے رہے۔انہوں نے قطعاً یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ
1947کے بعد ملکی معیشت اورقومی ادارے کس طرح مضبوط کئے جائیں اور انہیں
ترقی اور خود کفالت کی راہ پہ کیسے ڈالا جائے؟ عوام کے لئے وقت کے ساتھ
ساتھ تعلیم، صحت، انفرا سٹرکچر،و دیگر سہولیات کو بہتر سے بہتر کیسے بنایا
جائے؟انہوں نے اتنی زحمت گوارا نہیں کی کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر
میں ملک کے قومی تعلیمی اداروں کو جدید سہولیات سے آراستہ کر کے ملک کی
تقدیر کیسے بدلی جائے؟ تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد
سے گورنس کا شفاف نظام کیسے بنایا جائے؟ہر ادارے کو انہوں نے نصف صدی پرانے
اور فرسودہ نظام کے تحت چلایا تاکہ قومی خزانے کو زیادہ سے زیادہ لوٹا جائے،
اور اپنے استحصالی اقتدار کو طول دیا جائے۔
ان سیاستدانوں اور بیورو کریسی(سول اور فوجی) نے ملک کو اس نصف صدی میں کیا
دیا ہے؟کیا کوئی نئی سٹیل مل بنائی گئی؟یا موجود سٹیل مل کو تباہ و برباد
کر دیا گیا۔حالانکہ اسی طرح کی سٹیل مل روس نے ایران اور انڈیا کو لگا کر
دی تھیں، لیکن ان دونوں ممالک کی وہ سٹیل ملز آج ان ممالک کی ترقی میں اہم
کردار ادا کر رہی ہیں، لیکن ہمارے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس نے اپنا ذاتی
مال بنانے کے لئے اس اہم قومی ادارے کو تباہ و برباد کیا۔
کیا اس ملک کو کوئی نئی ائیر لائن دی؟یا موجود قومی ائیر لائن کو بھی بد
انتظامی اور کرپشن کی نذر کر کے نہ صرف تباہ کر دیا گیا بلکہ دنیا بھر میں
اسے بد نام کر دیا گیا۔حالانکہ پی آئی اے وہ ائیر لائن تھی جو ایک زمانے
میں اپنے معیار اور باصلاحیت عملے اور سٹاف کی وجہ سے دنیا میں اپنا ایک
نام رکھتی تھی نیز بعض مسلمان ممالک کی ائیر لائنوں کو بھی پی آئی نے
بنیادیں فراہم کیں اور وہ آج دنیا کی صف اول کی ائیر لائنوں میں شمار ہوتی
ہیں۔لیکن خود ان حکمرانوں نے اس قومی ائیر لائن کا کیا حال کیا اس وقت سب
کے سامنے ہے۔ریلوے کے نظام کو دیکھیں تو شرم آتی ہے، دنیا کہاں سے کہاں
پہنچ گئی، اور ہمارے ہاں نصف صدی سے ریلوے کا وہی فرسودہ نظام موجود ہے جو
انگریز چھوڑ کر گئے تھے، کرپشن، بد انتظامی نے اس ادارے کو تباہی کے دھانے
پہ پہنچا دیا ہے۔معیاری علاج و ہسپتالوں کی حالت زار دیکھنی ہو تو چاروں
صوبوں کے کے دارالحکومتوں میں سرکاری ہسپتالوں کی حالت دیکھی جا سکتی ہے،
ہمارے حکمران طبقات اپنا علاج معالجہ کے لئے کسی پاکستانی ہسپتال پہ اعتماد
نہیں کرتے۔اپنی اولادوں کو تو آکسفورڈ اور ہارورڈ میں بھیجتے ہیں لیکن اس
بد قسمت قوم کے بچوں کو ایک ایسے فرسودہ تعلیمی نظام میں گھسیٹ رہے ہیں جس
کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی، ہاں البتہ یہ مثالیں ضرور ملتی ہیں کہ
ہماری یونیورسٹیاں معیار تعلیم کے حوالے سے دنیا کی اقوام کی کسی فہرست میں
شمار نہیں ہوتیں۔
اس نصف صدی میں یہ ہوا ہے کہ پاکستان کی قومی صنعتیں تو تباہی و بربادی کے
دھانے پہ پہنچائیں گئیں، لیکن ان حکمرانوں نے اپنی ذاتی ملیں اور فیکٹریاں
کامیابی اور منافع کے ساتھ چلائیں۔ملکی تاجر اور بزنس مین اپنا سرمایہ
بیرون ملک منتقل کرنے پہ اس لئے مجبور ہیں کہ انہیں پاکستان میں کرپشن سے
پاک صنعتی نظام اور تجارتی نظام میسر نہیں۔اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہنر مند
صرف اس وجہ سے پاکستان سے بھاگ رہا ہے کہ اس کے لئے یہاں اپنی صلاحیتوں کو
درست انداز سے بروئے کار لا کر اپنے کیرئیر بنانے کا کوئی میکنزم نہیں
ہے۔یہاں میکزم صرف یہ ہے کہ آپ کا تعلق کسی سیاستدان، کسی سیاسی پارٹی یا
بیوروکریسی کے ساتھ کسی نہ کسی طرح استوار ہونا چاہئے تو آپ کی تجارت بھی
چلے گی، کاروبار بھی ترقی کرے گا اور آپ کو اچھی نوکری بھی ملے گی ، لیکن
ایسا نہیں ہے تو پھر اس ملک سے بھاگنے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں
بچتا۔ہمارے ملک کے باصلاحیت نوجوان اس وقت دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے
اعلیٰ ترین سائنس اور ٹیکنالوجی کے اداروں میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں،اگر
ان نوجوانوں کو اپنے ملک میں بہترین مواقع میسر آتے تو وہ کبھی بھی باہر نہ
جاتے۔
ہمارے حکمرانوں کے ذاتی کاروبار اندورن ملک اور زیادہ تر بیرون ملک خوب
منافع کما رہے ہیں، لیکن قومی معیشت کے ادارے خسارے سے دوچار ہیں، حکمران
طبقات اربوں پتی ہو گئے لیکن بد قسمت ملک اور قوم عالمی مالیاتی اداروں کی
بری طرح مقروض بنا دی گئی،مہنگائی اور بیروز گاری نے عوام کو خود کشیوں پہ
مجبور کیا ہوا ہے۔تجارت وکاروبار اس کاچلنے دیا جاتا ہے جس میں حکمرانوں کا
ذاتی مفاد ہوتا ہے، ترقی کا وہ پراجیکٹ لگایا جاتا ہے جس میں ان کو کمیشن
ملتا ہے،ان منصوبوں پہ کام کیا جاتا ہے جن سے زیادہ سے زیادہ اپنا ذاتی مال
بنایا جائے، یا اپنے خاندانوں کو نوازا جائے۔میرٹ نام کی کوئی چیز موجود
نہیں۔
یہ تو صرف چند مثالیں ہیں وگرنہ ملک کے معاشی، دفاعی، تعلیمی، صحت، صنعت،
تجارت، انفراسٹرکچر وغیرہ کوئی بھی ایسا ادارہ دکھا دیں جس کو ان حکمرانوں
نے خود کفالت اور ترقی سے ہمکنار کیا ہو؟
ہمارے اکثر سیاسی نام نہاد لیڈران اور بیوروکریٹس اکثر یورپ اور امریکہ میں
قیام فرماتے ہیں، پاکستان کی مثال ان کے لئے ایک کاروباری منڈی یا دوکان کی
ہے جسے وہ اپنے مال کمانے کا ذریعہ بنایا ہوا ہے، اپنا مال و جائدادیں
انہوں نے باہر رکھی ہوئی ہیں، اکثر جب کہیں سے ان کو خطرہ درپیش ہوتا ہے کہ
وہ کرپشن میں پکڑے جائیں گے تو فی الفور امریکہ یا یورپ کھسک جاتے ہیں، اور
اکثر یہ ہوتا ہے کہ ایک قومی چوری کے الزام میں بھاگا ہوا شخص اس بدقسمت
ملک کی پالیسیاں باہر بیٹھ کر بناتا ہے ، اور اکثر اوقات یہ بھی ہوا ہے کہ
وہی کرپشن کے بادشاہ حقیقی بادشاہ بن کر پورے پروٹوکول کے ساتھ واپس آتے
ہیں اور پھر سے براہ راست اس سارے کاروبار کو چلاتے ہیں۔
بیرون ملک یہ اچھے ہسپتالوں میں علاج کرواتے ہیں لیکن کبھی ان کو یہ زحمت
نہیں ہوئی کے اپنے ملک کے اندر اچھے اور معیاری ہسپتال بنائے جائیں، بیرون
ملک صاف ستھرے ماحول میں، کرپشن اور جھوٹ سے پاک معاشرے میں قومی دولت کو
لٹاتے ہیں لیکن کبھی یہ سمجھنا گوارا نہیں کیا کہ ایسا ہی ماحول اپنے ملک
میں بنائیں، بیرون ملک یہ اچھی ٹرانسپورٹ کی سہولیات سے استفادہ کرتے ہیں،
لیکن کبھی نہیں سوچا کہ ایسا ہی ٹرانسپورٹ کا نظام اپنے ملک میں بنایا
جائے۔باہر جا کر یہ ملاوٹ اور دھوکہ دہی سے پاک اشیاء و خوردونوش کی
مارکیٹوں سے خوب فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن کبھی نہیں سوچا کہ اپنے ملک میں بھی
ایسا ہی نظام بنائیں۔خلاصہ یہ کہ جس بد نصیب ملک اور قوم کے لوٹے ہوئے مال
کو یہ بیرون ملک اپنی پر تعیش زندگی پہ خرچ کرتے ہیں وہ ملک اور قوم زندگی
کے ہر شعبے میں زوال کا منظر پیش کرتا ہے۔کاش کے وہ وقت آئے کہ کم از کم
کوئی اخلاقی سبق ہی ان اقوام اور معاشروں سے یہ سیکھ لیں۔لیکن ایسا نہیں
ہوتا اور نہ ہی ہو گا۔کیونکہ جب قومی حب الوطنی اور اخلاص موجود ہی نہ ہو
تو کسی بھی اچھے اقدام کی امید نہیں کی جا سکتی۔
یقیناً اس وقت قیادت کے اس بحران سے نکلنے کی سخت ضرورت ہے، قوم کو اگر
اپنا مستقبل محفوظ کرنا ہے تو پھر حقیقی ایماندار، اور قومی سوچ رکھنے والی
مخلص قیادت کا انتخاب کرنا پڑے گا ورنہ اس وقت جو صورتحال ملک کو درپیش ہے
اس میں سوائے مایوسی کے اور کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔خاص طور پہ نوجوان نسل
کو اس صورتحال کا سنجیدگی سے ادراک کرنا چاہئے، کیونکہ ان کے مستقبل کا
سوال ہے۔اگر آج نوجوان نسل اس صورت حال پہ آنکھیں بند کر دیتی ہے اور صرف
اپنی ذاتی مفاد کے لئے جدو جہد میں مصروف رہتی ہے اور اجتماعی حوالے سے،
ملکی اور قومی ترقی و خوشحالی کے لئے نہیں سوچتی تو آئندہ نسلیں بھی اسی
ماحول میں جینے پہ مجبور ہوں گی اورہمیں مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا کریں گی۔ |
|