سب کوعلم ہے کہ مشرقِ وسطیٰ بالخصوص عالم
عرب اورعالم اسلام کے سب سے ممتازملک سعودی عرب جوامریکاکے اہم ترین
اتحادیوں میں سمجھا جاتاہے اورگزشتہ چاردہائیوں میں بظاہر دونوں ممالک کے
تعلقات مثالی رہے مگرایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے امریکااورایران کے
درمیان اتفاقِ رائے،ایران پرلگنے والی پابندیوں کے ہٹانے اوریمن کے مسئلے
سمیت کچھ دیگراہم علاقائی مسائل میں سعودی عرب کے درمیان تعلقات اس قدر
خراب ہوچکے ہیں کہ اب اس کے اثرات میڈیاپربھی ظاہرہوناشروع ہوگئے ہیں اور
بات ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلاالفاظ کی جنگ تک پہنچ گئی ہے۔شایدیہ تلخی
اورمشکلات اسی حدتک ہوں ،اس سے آگے نہ بڑھ سکیں کیونکہ الفاظ سے آگے عملی
طورپرایک دوسرے کے خلاف عملی اقدامات کی نہ توقع ہے اورنہ ہی یہ دونوں اسے
اپنے لیے مفیدسمجھیں گے چونکہ کسی کوبھی یہ توقع نہ تھی اورنہ دونوں ممالک
اسے اپنے لئے بہترسمجھ رہے تھے، اس لئے اوباماکے گزشتہ مہینوں میں کئے گئے
دورۂ سعودی عرب کے موقع پرسعودی عرب کی بے التفاتی حیران کن تھی۔
اپریل کے آخری عشرے میں اوباماسعودی عرب کے دورے پرگئے تھے جہاں شہزادہ
خالدنے ائیرپورٹ پراترنے کے بعدان کااستقبال اس جوش وجذبے سے نہیں
کیاجتناماضی میں کیاجاتارہاتھا۔سعودی عرب میں امریکی صدرکی آمدپرکسی جوش
وخروش کامظاہرہ نہیں کیاگیااورپہلی مرتبہ سعودی عرب کے فرمانرواشاہ سلمان
بھی ایئرپورٹ پراوباماکے استقبال کیلئے نہیں گئے بلکہ ریاض کے گورنر شہزادہ
فیصل بن عبدالعزیزاوروزیرخارجہ عادل الجبیرنے ہوائی اڈے پراوباما کا
استقبال کیا۔شہزادہ خالد ہوائی اڈے پرطیارے سے اوباماکے اترنے کا منظرایک
عام خبرکی طرح نشرکیاگیا اور مزیدکوئی توجہ نہیں دی گئی۔امریکی صدرہوائی
اڈے سے سیدھے شاہی محل گئے ،ایک دوسرے سے ملاقات کے موقع پردونوں رہنماؤں
نے دو گھنٹے طویل بات چیت کی لیکن اس ملاقات کاکوئی چھوٹاساحصہ بھی
الیکٹرانک میڈیاپرنشرنہیں کیاگیا،نہ دونوں رہنماؤں کے درمیان بات چیت کے
ایجنڈے کے حوالے سے کچھ بتایاگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امریکااورسعودی عرب کے
روابط اتنے خرب کیوں ہوگئے،اس خرابی کے اصل عوامل کیا ہیں؟؟
سعودی عرب میں شیعہ عالم ملاشیخ نمرکی سزائے موت اورپھرتہران اورمشہد میں
سعودی سفارت خانے اورقونصلیٹ پر ایرانی مظاہرین کے حملے کے بعد سعودیہ
اورایران کے درمیان سفارتی تعلقات ختم ہوچکے ہیں۔ان حالات میں سعودیہ
کوتوقع تھی کہ امریکااس کاساتھ دے گا،ایران پرامریکااوردیگرمغربی ممالک
کادباؤبڑھ جائے گامگرسعودیہ کی توقعات کے برخلاف امریکانے نہ صرف یہ کہ
سعودیہ کاساتھ نہیں دیابلکہ ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کی بہتری کاسفرجاری
رکھا۔اسی طرح سعودیہ کی خواہش تھی کہ شام میں بشار الاسد اور یمن میں
حوثیوں کی حمایت کرنے پر مغرب اورامریکا ایران کوسزادیں یاکم ازم
اتنادباؤڈال دیں کہ بشارالاسداورحوثیوں کی حمائت سے دستبردارہوجائے مگر
سعودیہ کے اس مطالبے پربھی نہ صرف یہ کہ امریکانے توجہ نہ دی بلکہ ایران سے
اس کے بہترتعلقات کاسلسلہ دن بدن بڑھتاچلاگیا۔
ایٹمی مسئلے کے حوالے سے ایران کے ساتھ معاہدہ بھی ہوااورمغربی ممالک اور
اقوام متحدہ کی جانب سے لگائی گئی اقتصادی پابندیاں بھی ہٹانے کی رضا مندی
ظاہرکی گئی جس سے امریکااورسعودیہ کے درمیان تعلقات خراب ہوتے چلے گئے اور
بات یہاں تک پہنچی کہ میڈیاپرایک دوسرے کے خلاف بیانات بھی دیئے گئے۔یادرہے
کہ امریکااورسعودیہ نے آج تک ایک دوسرے کے خلاف تندوتیزاور تلخ لہجے
کاستعمال نہیں کیاتھااورکسی ایک جانب سے بھی ردّ ، عمل نہیں دکھایا
گیاتھا۔توقع کی جارہی تھی کہ دونوں ممالک کے تعلقات واپس سابقہ حالت پرلوٹ
جائیں گے مگرپھر امریکی کانگرس میں پیش ہونے والی ایک قراردادکی خبرنے نہ
صرف یہ کہ تعلقات معمول کے مطابق بحال ہونے نہیں دیے بلکہ اور خراب کرڈالے۔
باوجوداس کے کہ گیارہ ستمبرکے واقعے کے متعلق امریکاکے سیکورٹی اداروں کی
جانب سے تیارکی جانے والی رپورٹ میں کہا گیاتھاکہ اس واقعے میں سعودی عرب
ملوث نہیں ہے مگر پندرہ سال بعدکانگرس میں قراردادکی خبریں بے مقصد
ہرگزنہیں ہیں۔اس قراردادکامقصدیہ تھاکہ گیارہ ستمبر کے واقعے میں سعودی عرب
کے ملوث ہونے کے صورت میں امریکا میں موجود سعودی سرمایہ جس کاحجم ٧٥٠/ارب
ڈالر سے کہیں زیادہ تجاوز کرگیاہے،اسے منجمدکردیا جائے۔ کانگرس کی جانب سے
قرارداد منظورہونے کی صورت میں گیارہ ستمبرمیں ہلاک شدگان کاتاوان لینے
کامطالبہ کرسکتے ہیں ،منظور ہونے کی صورت میں یہ تاوان سعودی سرمائے سے
اداکیاجائے گا۔گیارہ ستمبرکے واقعے کے حوالے سے امریکا کے سیکورٹی اداروں
کی جانب سے شائع ہونے والی ٩٠٠صفحات پرمشتمل رپورٹ میں واضح
طورپرلکھاگیاتھاکہ ایسے شواہدنہیں ہیں جس سے سعودی حکومت یاحکومت کے کسی
اعلیٰ عہدیدارکی مداخلت کاادنیٰ سا ثبوت یااشارہ بھی ملے۔
ہاں اس رپورٹ کے ٢٨صفحات ایسے تھے جواس وقت کے صدربش حکومت کی جانب سے
انتہائی حساس قراردیئے گئے تھے اوراس کی اشاعت سے سختی سے منع
کیاگیاتھا۔تجزیہ کاروں کاخیال ہے کہ ان ٢٨صفحات میں اس بات کاذکرہوگاکہ کسی
نہ کسی طریقے سے سعودی حاکم نے حملہ آوروں کی مددکی ہوگی یانہیں۔ آئندہ
دنوں میں اوباماان ممنوعہ صفحات کی اشاعت یاعدم اشاعت کافیصلہ کریں
گے۔اگراوبامانے ان صفحات کی اشاعت کی اجازت دے دی اوراس واقعے کے ساتھ
سعودی حکومت یا اس کے کسی اعلیٰ عہدیدار کاتعلق سامنے آیاتوکانگرس میں
سعودیہ کے خلاف قراردادلانے اورامریکامیں سعودی سرمایہ جامدہونے کا قوی
احتمال ہے کہ اس سے سعودیہ اورامریکاکے درمیان تعلقات مزیدخراب ہو جائیں
گے۔ دونوں ممالک کے درمیان اگریہ قراردادمنظورہوگئی تواس سے دونوں ممالک کے
درمیان تعلقات پر انتہائی منفی اثرپڑے گا،اس لئے اوباماانتطامیہ اس بات کی
پوری کوشش کررہی ہے کہ ڈیمو کریٹک اورری پبلکن کی دونوں جماعتوں سے تعلق
رکھنے والے کانگرس اراکین کواس بات پر راضی کریں کہ اس قرار دادکے حق میں
رائے نہ دیں۔اسی طرح وزارتِ خارجہ کے اعلیٰ عہدیداروں نے بھی اراکین کانگرس
سے کہاہے کہ اس قراردادکی منظوری کاراستہ روکیں وگرنہ قراردادکی منظوری سے
امریکا کے باہمی سفارتی اور اقتصادی حالات برح طرح خراب ہوجائیں گے
اورامریکاکی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوجائے گا۔
سعودیہ نے امریکاکے خلاف شدیدردِّعمل دکھانے کی دہمکی دی ہے ۔واشنگٹن کے
دورے میں سعودی عرب کے وزیرخارجہ عادل الجبیرنے امریکی اعلیٰ حکام کوواضح
الفاظ میں انتباہ کرتے ہوئے کہاکہ اگرامریکانے کسی ایسی کاروائی کاارادہ
کیاتوسعودی عرب فوری طورپرامریکامیں موجوداپناساراسرمایہ خرچ کردے
گااوراپنے اتحادیوں کوبھی ایساکرنے کامشورہ دے گا۔اس دہمکی کے ذریعے سعودی
حکومت نے امریکاکواپنے سخت مؤقف سے آگاہ کردیاہے مگریہ معلوم نہیں کہ
امریکاواقعی ایساکرپائے گا اوراگروہ کرنے کاارادہ کرے گابھی تو کیاوہ
ایساکرسکے گا؟؟یہ سب وقت بتائے گالیکن یہ بات تسلیم کر لینی چاہئے کہ ایران
کے ساتھ امریکی روابط ٹھیک ہونے سے امریکاکوتیل کی ایسی منڈی ہاتھ میں آگئی
ہے جس سے وہ اپنی ساری ضروریات پوری کر پائے گا،اس لئے امریکانے سعودی عرب
سے بے اعتنائی برتنی شروع کردی ہے اورایران پر مہربانی کے دروازے کھول دیئے
ہیں۔
ادہرسعودی عرب بھی امریکاکے عزائم کوبھانپتے ہوئے کسی خوش فہمی میں
مبتلانہیں ہے،اس لئے اوباماکے دورۂ کے تین دن بعدہی سعودی حکومت نے کہاہے
کہ وہ اپنے مستقبل کے حوالے سے ایک نئے اقتصادی پلان کااعلان کرنے جارہا
ہے۔سعودی عرب اپنے ملک کاتیل پرانحصارختم کرکے اپنے ملک کوایک تجارتی
اورصنعتی ملک بناناچاہتاہے اوراس سلسلے میں اپنی سب سے بڑی تیل
کمپنی''آرامکو''کوایک صنعتی کمپنی میں بدلناچاہتاہے۔ اس حوالے سے پلان
کو’’وژن فاردی کنگڈم آف سعودی عربیہ‘‘کانام دیاگیاہے۔اس منصوبے کے بہت سے
اقتصادی،صنعتی،اجتماعی،معدنی اوردیگر پروجیکٹس ہیں۔ تکنیکی لحاظ سے یہ تیل
کی بجائے دولت کے حصول کیلئے بڑی اقتصادی تبدیلی کاباعث ہوگا ۔حکومت نے یہ
بھی کہاہے کہ''آرامکو''کاپانچ فیصدحصہ بیچنے کیلئے آئندہ سال پیش کیاجائے
گا۔اقتصادی تجزیہ نگارکہتے ہیں کہ سعودی عرب اپنے ارادے اور عزم پرمضبوطی
سے قائم ہے اوراس منصوبے کی کامیابی سے عملی طورپر پوری عرب دنیامیں سعودی
عرب بہت بلندمقام حاصل کرپائے گا۔
پوراعرب اوردیگراسلامی دنیاکے سرمایہ کارسرمایہ کاری کیلئے سعودی عرب کا رخ
کریں گے ۔اگرامریکامیں سعودی عرب کاسرمایہ ضبط بھی ہوجائے تواس کاسعودی
معیشت پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔اقتصادی ماہرین کایہ بھی کہناہے کہ اگریہ
منصوبہ کامیاب ہو جائے توایران کے تیل کی مارکیٹ کو بھی سر اٹھانے کا موقع
نہیں ملے گااوراسے اس کاشدید نقصان ہوگا۔ مغربی تجزیہ نگاروں اور ماہرین
کاخیال ہے امریکاکوسعودیہ کے اس منصوبے کاپہلے سے علم تھااس لئے اوباما نے
اس پلان سے سعودی عرب کودستبردار کرانے کیلئے فوری طور پر سعودیہ کادورۂ
کیا۔مگرسعودی عرب نے کمال کیاکہ ان کے اس مطالبے کو واضح الفاظ میں
مستردکردیااورانہیں عدم توجہی کاشکارکرکے واضح الفاظ میں پیغام
پہنچادیااوراوبامااس کوبخوبی سمجھ بھی گئے۔یہی وجہ تھی کہ خلیجی ریاستوں کے
کونسل سے خطاب کرتے ہوئے سعودیہ کوشریک کرنے کیلئے انہوں نے واضح الفاظ میں
ایران کوخبردارکیاکہ''ایران‘‘مشرقِ وسطیٰ میں بدامنی پھیلانے کی کوشش نہ
کرے۔(جاری ہے) |