پاکستان کے وجود میں آ نے کے بعد تعزیرات
ہند پاکستا ن کو ورثے میں ملا جس کا زیادہ تر حصہ سابقہ برطانوی حکومت کا
حصہ تھا، پاکستان بننے کے بعدیہاں اسے مجموعہ تعزیرات پاکستان کا نام دیا
گیا۔ بنگلہ دیش میں یہی قانون وہاں بھی نافذ رہا۔تعزیرات ہند برطانوی
استعماری ارباب مجاز کی جانب سے میانمار، سری لنکا، ملیشیا ، سنگاپور اور
برونائی دار السلام میں بھی نافذ کیا گیا اور ان ممالک کے فوجداری قوانین
کی اساس بنا ہوا ہے، جموں و کشمیر میں نافذ رنبیر ضابطہ تعزیرات اسی ضابطے
پر مبنی ہے، پاکستان کی عدالتوں میں نوےفیصد سے زیادہ انگریزوں کا فرسودہ
قانون چل رہا ہے اسی لیئے انسانی اقدار اور معاشرے کیساتھ قطعی انصاف نہیں
ہورہاہے۔ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ بڑے بڑے دعویٰ کرنے والے سیاسی
جماعتوں کے لیڈران کو آج تک توفیق نصیب نہیں ہوئی کہ اپنے ملک پاکستان ا
ور قوم کی فلاح و بہبود ، معاشرے کی بہتری اور ریاست کے نظام کی درستگی
کیلئے صوبائی اور وفاقی اسمبلیوں میں آئین کی اُن کمزور شقوں کو مضبوط
بنانے کیلئے بل پیش کیئے جاتے کہ جن سے آئین کی درستگی کیساتھ کیساتھ
پولیس اور عدلیہ کے قوانین کو مذہب اسلام اور قرآنی قوانین پر ڈھالتے ہوئے
ایک بہترین نظام ریاست کا نفاذ ہوتالیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ سن انیس سو
چھپن سے لیکر اب تک جمہوری حکومتوں اور فوجی حکومتوں نے نہ پولیس کو ریفرم
کیا اور نہ ہی عدالتی قوانین کو بہتر اور مضبوط بنایا۔۔۔!!آج ہم اگر
پاکستانی ریاست کے نظام کی بہتری کی بات کرتے ہیںتو سب سے پہلے ہمیں اپنے
معاشرے کی سدھار کے بارے میں سنجیدہ ہونا پڑیگا اور معاشرے کا سدھار کا
تعلق براہ راست اچھی، سلجھی، بہتر، قابل، ذہین پولیس کے بغیر نا ممکن ہے
لیکن جب ہم پاکستانی پولیس کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پولیس
میں غصے کے مرض کے علاوہ دو اور بڑے نفسیاتی امراض پائے جاتے ہیں۔ یہ دو
بڑے نفسیاتی ا مراض پولیس کے سپاہی سے لے کر اوپر تک اس فورس کے ہر شخص میں
موجود ہیں۔۔۔یہ امراض پولیس فورس میں شامل ہونے سے پہلے ہی ان کے دل و دماغ
میں گھر کر چکا ہوتا ہے، ایک مرض تو یہ ہے کہ وہ پولیس کی وردی پہن کر خادم
بننے کی بجائے حاکم بننا چاہتے ہیں اور کمزور لوگوں پر رعب ڈالنا، انہیں
ڈرانا دھمکانا اور بے موقع انہیں مارنا پیٹنا چاہتے ہیں۔ ۔دوسرا مرض یہ ہے
کہ وہ پولیس کی نوکری کے ذریعے جد از جلد امیر بننا چاہتے ہیں، اس کرپشن کے
دھندے میں چاہے گناہ گار ان کا شکار بنیں یا بے گناہ ، چاہے انہیں جسم
فروشی کے اڈوں سے ملیں یا جوئے خانوں یا منشیات فروشوں سے۔اگر کوئی دین دار
یا خدا ترس شخص بھی ہتھے چڑھ جائے تو اس کا مال کھانا بھی بُرا نہیں
سمجھتے۔ ۔اس وقت ہمارے بہت سے ڈاکٹر حضرات پی ایس پی آفیسرز کے طور
پرپولیس کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں اور اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھنا نہیں
بھولتے کیونکہ اپنے تحت الشعور میں وہ سمجھتے ہیں کہ میڈیکل کی اعلیٰ تعلیم
ان کے لئے باعث عزت ہے، لیکن یہ ڈاکٹر بھی رعب ڈالنے کے نفسیاتی مرض میں
مبتلا ہیں اسی لئے وہ سی ایس ایس کا امتحان دے کر پولیس میں شامل ہوئے
ہیں۔۔!! ان ڈاکٹروں نے اپنے نفسیاتی مرض کے تحت اپنے علم سے دکھی انسانیت
کی خدمت کرنے کی بجائے انسانیت کو مزید دکھی کرنے کی نوکری اختیار
کی۔۔!!عام لوگوں پر رعب ڈالنے کا یہ جذبہ جونیئر فوجی افسروں میں بھی دیکھا
جا سکتا ہے۔ اپنے افسروں کے اسی جذبے کو مدنظر رکھتے ہوئے جنرل ضیاء الحق
نے اپنی مارشل لاء حکومت کے دوران ڈی ایم جی گروپ اور پولیس گروپ میں فوجی
افسروں کا کوٹہ مقرر کر دیا تھاجس پر اب بھی خلوص سے عمل کیا جا رہا
ہے۔۔!!پولیس میں بچہ بھرتی کروا کر حکمرانی کا مزہ ان کے ماں باپ اور بہن
بھائی بھی لیتے ہیں اور وہ بھی اپنے گاؤں میں اکڑ کر چلنا شروع کر دیتے
ہیںکہا جاتا ہے کہ موجودہ پولیس اور انگریزوں کے تحت کام کرنے والی پولیس
میں فرض شناسی اور قانون شناسی کے حوالے سے زمین آسمان کا فرق ہے۔۔۔!!
انگریز پولیس کا سپاہی بھرتی کرنے سے پہلے اس کے اور اس کے خاندان کے بارے
میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رپورٹیں حاصل کرتے تھے اور جس شخص نے زندگی میں
معمولی سی قانون شکنی بھی کی ہوتی تھی وہ انگریزوں کے ماتحت کام کرنے والی
پولیس میں ملازمت حاصل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھاجبکہ قیام پاکستان
کے بعد ہماری پولیس بھرتی کے لئے ملازمین کے کردار کوپرکھنے کا کوئی نظام
رائج نہیں کیا گیا اب تو پولیس میں ملازمت کے لئے رشوت، سفارش یا پھر پولیس
ملازمت میں ایم پی اے،ایم این اے کے کوٹے ہی میرٹ بن چکے ہیںجس کے نتیجے
میں ماضی کے جرائم پیشہ لوگ بھی پولیس میں بھرتی ہو چکے ہیں۔! اگر ایک شخص
کسی محکمے میں رشوت دے کر بھرتی ہوتا ہے تو ہم اس سے توقع کریں کہ وہ رشوت
نہ لے۔آج تک پولیس والوں کے ہاتھوں جتنے بے گناہ قتل ہوئے ،کبھی اس امر کی
تحقیقات نہیں کی گئی کہ ان پولیس والوں کو کس کی سفارش پر بھرتی کیا گیا
اور بھرتی سے پہلے ان کا ماضی کیا تھا۔!! اب بھی کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹر
کے رینک تک کے ملازمین کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے رپورٹیں حاصل کی
جاسکتی ہیں۔!! صرف عزم کی ضرورت ہے۔؟وزیراعظم ، صدر،وزیر اعلیٰ، وزرااور
سینیٹرز میں کیونکہ پولیس میں کرپشن کو ختم کرنے کے بہت خواہش مندہیں یہ
معزز احباب۔۔۔ !!ان رہنماؤں نے اپنی حکومت کے دوران پولیس ملازمین کی
تنخواہوں میں بھی کئی بار اضافہ کیا لیکن پولیس میں ایک فیصد بھی رشوت کم
نہیں ہوئی کیونکہ پولیس کے ملازمین اپنی نوکری کے ذریعے امیر ہونا چاہتے
ہیں۔ ۔اس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ ایک مہذب معاشرے کی تشکیل
کے لئے ایک مہذب پولیس بہت ضروری ہے۔ حکومت کو آئین میں ترامیم کے ذریعے
ایک ایسا کمیشن تشکیل دینا چاہیے جس کے ارکان ہر قسم کے حکومتی دباؤ سے
آزاد ہوں اور انہیں ملازمت سے ہٹانے کا طریقہء کار ہائی کورٹ یا سپریم
کورٹ کے جج جیسا پولیس کے خلاف سنگین نوعیت کی شکایات اس کمیشن کو بھیجی
جائیں تاکہ زیادتی کرنے والے پولیس ملازمین کا احتساب کسی دباؤ کے بغیر
کیا جا سکے۔!! کرپشن اور زیادتیوں کو روکنے کے لئے ایسے قوانین منظور کئے
جائیں جنہیں پوری قوت اور دیانت داری سے نافذ کیا جا سکے۔۔۔ کافی عرصے پہلے
ہرسول سرونٹ کے اعلیٰ افسران اور ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر ز بھی پولیس کی
سالانہ خفیہ رپورٹ لکھا کرتے تھے جس سے پولیس کے سول انتظامیہ کے تحت کام
کرنے کا تاثر پیدا ہوتا تھا اور ڈپٹی کمشنر کے ہاتھوں لکھی جانے والی اے سی
آر کو درست رکھنے کے لئے ایس پی حضرات بھی جانفشانی اور دیانت داری سے
خدمات سرانجام دیتے تھے لیکن پولیس افسروںنے اس اصول کوختم کرا دیا جس کے
باعث پولیس پر سول انتظامیہ کا چیک ختم ہو گیا۔۔۔ اب توپولیس کے عقوبت خانے
اور ٹارچر سیل بھی سامنے آچکے ہیں جہاں قانون کے رکھ والے خود قانون شکنی
کے مترادف پائے گئے ہیں، ثبوت و شواہد ملنے کے باوجود ناانصافی پر مبنی
تفتیش کرنے والے پولیس ملازمین کو سزا کے طور پر زیادہ سے زیادہ معطل کر
دیا جاتا ہےاور پھر کچھ عرصے بیت جانے کے بعد بحال کر دیا جاتا ہے حالانکہ
ایسے نااہل اور شقی القلب ملازمین کو نوکری سے برطرف کرکے ان کے خلاف
مقدمات درج کئے جانے چاہئیں۔۔۔ہماری ماتحت عدلیہ بھی شائد معاشرے کا سدھار
نہیں چاہتی ورنہ ناقص تفتیش پر مبنی چالان پیش کرنے والے پولیس افسروں کا
جج صاحبان بھی کڑا احتساب کر سکتے ہیں۔پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان
مسلم لیگ نون یہ دونوں وہ سیاسی جماعتیں ہیں جنھوں نے پاکستان پر حکمرانیاں
کی ہیں اور دونوں کرپشن، بدعنوانی، لاقانونیت، لوٹ مار، قانون شکنی اور
دہشتگردوں کی معاونت جیسے بد ترین عوامل میں پائے جانے کے خفیہ اداروں کے
پاس شاہد و ثبوت موجود ہیں لیکن اداروں کے سربراہان بھی ان ہی کی شفارشات
اور من پسند ہونے کے سبب ان کے کالے کرتوت سفید چادر سے ڈھانپ دیئے جاتے
ہیں۔۔!! موجودہ افواج پاکستان کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے پاکستان کے
خلاف بیرونی طاقتوں کے سائے میں چلنے والی کلعدم تنظیموں، پاکستان مخالف
مملک کی خفیہ ایجنسیوں کی پاکستان دشمنی پر محیط کاروائیوں کے خلاف جہاں
آپریشن کیا گیا وہیں اپنے سیاسی جماعتوں میں چھپے غداروں کے خلاف کاروائی
نا گزیر ہوگئی لیکن سول نظام کیلئے سول انتظامیہ نے انتہائی مایوس کیا
کیونکہ سول انتظامیہ مکمل طور پر سیاسی جماعتوں اور بلخصوص سیاسی حکمرانوں
کے سامنے مغلوب ہیں اس کی وجہ ان کا تقرر بھی ہے اور ان کی پشت پناہی بھی
سیاسی ہیں، ایسے میں ملک بھر سے دہشتگردی، کرپشن، بدعنوانی ، لاقانونیت کا
خاتمہ انتہائی دشوار بن گیا ہے۔۔۔۔ پاکستان کے مخلص سیاسی لیڈران، کارکنان
اور عہدیداران کے مابین عسکری قوت باہم مشاورت سے اس اہم ترین مسلہ کو حل
کرنا چاہتی ہے کیونکہ جب تک پولیس کے نظام کو مکمل طور پر سیاست سے آزاد
نہیں کیا جائے گا پاکستان کی سلامتی ہمیشہ سوالیہ نشان بنی رہے گی ۔
پاناما لیکس کیس اورسانحہ ماڈل ٹاؤن لاہوراس بات کا چاگتا ثبوت ہیں کہ
پولیس سمیت دیگر احتسابی ادارے سوائے حکومت بچاؤ اور حکومت کے عیب چھپاؤ
کے علاوہ اور کوئی ذمہ داری نہیں اسی بابت کراچی سمیت ملک بھر کے بڑے چھوٹے
شہروں اور گاؤں دیہات میں لا اینڈ آڈر کی صورتحال بد ستور قائم ہے۔۔۔
سندھ اور پنجاب کی حکومتیں بلخصوص اپنے عیب پوشی کیلئے ان اداروں کی پشت پر
چھپنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں ممکن ہے پاکستان اور صوبوں کی سلامتی اور
بہتری کیلئے خفیہ ادارے اہم ترین اور سخت ترین قدم اٹھانے پر مجبور ہوجائیں
گے ، عوام اب خوب اچھی طرح جان چکی ہے کہ ان دو جماعتوں نے سوائے لوٹ مار
کے کچھ نہیں کیا اور ان جماعتوں کو مکمل طور پر بائیکاٹ کرکے نظام ریاست کو
بہتر بنانے کیلئے عوام بھی اپنا کرادار ادا کرنے کیلئے بے چین ہے ، ابھی
عوام پاک فوج کے بہترین اقدام کو سہراتے ہوئے دیکھ رہی ہے کہ کب وطن
پاکستان سے خود غرض، لالچی، جھوٹے، قومی خذانے کے لٹیرے اور وطن فروخت کا
خاتمہ بنانے کیلئے مزید آپریشن کب تک ممکن بنائیں گے۔ پاک فوج اور پاکستان
کے خفیہ ادارے جان چکے ہیں کہ جہاں دہشتگردوں کے خلاف آپریشن ناگزیر ہے
وہیں کرپشن اور لوٹ مار کے خلاف بھی آپریشن ناگزیر بن گیا ہے گویا ان
دونوں آپریشن کا بلواسطہ اور بلا واسطہ تعلق ضرور بنتا ہے وگرنہ یہ تمام
کوششیں بے سود اور بے کار ثابت ہونگی اور جنرل راحیل شریف سمیت پاک فوج کے
تمام کورکمانڈرزہرگز نہیں چاہیں گے کہ پاکستان کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو
اسی لیئے پاکستان کے مخلص سیاسی رہنماؤں سے مدد لی جائے گی کہ پولیس
ریفارم کیلئے آئینی اور قانونی راہ کو اپناتے ہوئے اس ادارے سمیت دیگر
اداروں کو بھی سیاست سے پاک کردیا جائے جس طرح دنیا بھر کی ترقی یافتہ
ممالک میں نظام ریاست جاری ہوتا ہے ۔۔!!وہ وقت دور نہیں جب ادارے انشا اللہ
خود مختار ہوکر پاکستان اور پاکستانی عوام کی حقیقی معنوں میں خدمت کریں گے
اورپیشہ وارانہ خدمات پیش کرکے ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرنے میں اپنا
اپنا کردار ادا کریں گے ، انشا اللہ ضرورو بلضرور۔۔۔پاکستان زندہ باد،
پاکستان پائندہ باد۔۔۔!! |