شاہین اختر
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوان نے ملٹری کونسل کا اجلاس
فوجی ہیڈ کوارٹر کے بجائے ایوان صدر میں اٹھائیس جولائی کو طلب کرلیا۔ ترک
صدر نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد گولن تحریک سے تعلق کے شبے بعد
ہزاروں اسکول، خیراتی ادارے،فانڈیشن اور ٹریڈیونینز کو بند کروا دیا ہے۔
غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق ترک صدر کا کہنا ہے کہ فوجی بغاوت حکومت کے
علاوہ مسلح افواج کیخلاف بھی تھی۔ ترک صدرکاکہنا تھاکہ ناکام بغاوت کے
بعدترکی اک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ صدر طیب اردوان نے بتایا کہ مسلح
افواج کی تنظیم نوکرتے ہوئے اس میں نئے خون کو شامل کیا جائے گا۔ترک
وزیراعظم بن علی یلدرم نے کہاکہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملک میں نافذ
ایمرجنسی میں توسیع کا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم ضرورت پڑنے پراس میں اضافہ
کیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بغاوت میں حصہ لینے والے صرف چند لوگ
یونان فرار ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت خصوصی صدارتی محافظوں کے
ادارے کوختم کرنیکا بھی ارادہ رکھتی ہے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ترک فوج کے ایک باغی گروہ نے آرمی چیف کو یرغمال
بناکرحکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جسے ترک عوام، پولیس اور فوج نے مکمل
طور پر ناکام بنا دیا۔ ترک حکومت نے تمام اداروں کا کنٹرول دوبارہ سے حاصل
کر لیا ہے جب کہ استنبول ایئرپورٹ پر معطل فلائٹ آپریشن بھی بحال کر دیا
گیا ہے۔ ترک میڈیا کے مطابق اقلیتی فوجی گروپ کی جانب سے گن شپ ہیلی
کاپٹرزکی مدد سے پارلیمنٹ ہاؤس اور ایوان صدر و وزیراعظم سمیت پولیس ہیڈ
کوارٹر پر فائرنگ اور بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں 104 پولیس اہلکاروں
سمیت کم از کم 265 افراد ہلاک اور 1500 زائد زخمی ہوئے۔ بغاوت کی ناکامی کے
بعد مغوی آرمی چیف کو ملٹری ایئربیس سے بازیاب کرالیا گیا جب کہ 5 جنرلز
اور 29 کرنلز کو ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
بغاوت کرنے والے 8 اہلکار فوجی ہیلی کاپٹر میں سوار ہوکر یونان پہنچ گئے
ہیں جنہیں یونان کے سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی حراست میں لے لیا ہے، ترک
حکام نے ان اہلکاروں کی حوالگی کا باضابطہ مطالبہ بھی کردیا ہے جب کہ روسی
میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ باغیوں کے ایک جتھے نے ترکی کا جنگی بحری جہاز
یرغمال بنالیا ہے تاہم اس کی سرکاری طور پر اس کی تصدیق یا تردید نہیں کی
گئی۔
بغاوت کی کوشش ناکام ہونے کے بعد ترک صدر رجب طیب اردگان نے قوم سے اپنے
خطاب میں کہا کہ فوج کے ایک چھوٹے گروپ نے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی
جسے عوام، پولیس اور جمہوریت پسند فوج نے مکمل طور پر ناکام بنا دیا ہے۔ ہم
عوام کے ووٹوں سے آئے ہیں اور جمہوریت میں عوام کی طاقت سے بڑی طاقت کوئی
نہیں ہوتی، فوج کو بتانا چاہتا ہوں کہ انھیں بھی عوام کی خواہش کے مطابق
کام کرنا ہو گا، باغیوں کو پنسلوانیا سے احکامات مل رہے ہیں، جس ہوٹل میں
قیام پزیر تھا اس پر بھی بمباری کی گئی لیکن اب میں عوام میں موجود ہوں۔
رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ فوج کو دشمن کے خلاف استعمال کے لئے اسلحہ
اور ٹینک دیئے لیکن فوج کے اس چھوتے سے گروہ نے اپنے ہی لوگوں کے خلاف
ہتھیار اٹھا کر بغاوت کی، اس کی انھیں سزا دی جائے گی۔ اﷲ تعالی نے ہمیں
موقع دیا ہے کہ ہم اپنی فوج سے برے عناصر کا خاتمہ کریں، کچھ لوگ ترکی کو
آگے بڑھتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن میں بتایا چاہتا ہوں کہ آج کا ترکی بہت
مختلف ہے، ترکی کی خوشحالی کا سفر جاری رہے گا۔
رجب طیب اردگان کی جرأت مندانہ قیادت نے ترکی کو ایک بار پھر عالم اسلام
میں ممتاز مقام سے سرفرار کردیا ہے جنہوں نے کئی مواقعوں پر امریکہ و
اسرائیل سمیت طاغوتی طاقتوں کو کھری کھری سنائیں اور دنیا کو ان کا مکروہ
چہرہ دکھایا ہے یہی وجہ تھی کہ ان طاقتوں کو ترکی کی آزادی و خودمختاری
گوارہ نہ تھی اسی لیے ایک بار رجب طیب کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
ان کی حکومت پر شب خون مارا گیا۔ ٹی وی سٹیشنز اور ریڈیو پر قبضہ کرلیا گیا
مگر اپنے محبوب قائد کی ایک فون کال نے پورے ترکی کو جھنجھوڑ ڈالا اور وہ
اپنے نجات دہندہ اور محسن رجب طیب کے لیے فوجی ٹینکوں اور گاڑیوں کے سامنے
کھڑے ہو گئے اور ایک بار پھر اسلامی قوتوں کے خلاف سیکولر ازم کو شکست فاش
ہوئی اس بغاوت میں حصہ لینے والے ہزاروں فوجی، جج اور دیگر افسران پکڑے جا
چکے ہیں۔ رجب طیب اردگان حکومت ان سب کو پھانسی دینے کا عندیہ دے چکی ہے جس
پر یورپ نے اظہار تشویش کرنا شروع کردیا ہے تاہم ان غداروں کو برسرعام
لٹکانے سے ہی مستقبل میں ایسی سازشوں اور بغاوتوں کا راستہ ہمیشہ کیلئے بند
ہو سکے گا۔ |