مقبوضہ کشمیر کے عوام اور اقوام متحدہ کا شرمناک کردار

مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت کے قصہ ماضی ،حال اور مستقبل میں بھی زبان زد عام نظر آتے ہیں کشمیری عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارتی جبر کو سہتے رہے اور یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے غیوراوربہادرکشمیریوں نے بھارتی ظلم و جبر کو کبھی اپنے عزم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننے دیا اور جوں جوں بھارت کشمیریوں پر ظلم کی رات تاریک کرتا ہے تو وہ اس تاریخ رات میں آزادی کی جدوجہد کا روشن چراغ لے کر اور تیزی سے نمود ار ہونے لگ پڑتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ آج بھارت کی وہ فوج جسے دشمن کیخلاف بر سر پیکار رہنے کیلئے تیار کیا گیا ہے وہ ان مظلوم اور بہادر نہتے کشمیریوں پر گولیاں چلا چلا کر تھک چکی ہے اور اب اسکے اپنے اوسان خطا ہوتے نظر آتے ہیں بھارت کی جانب سے اس ظلم اور بربریت پر کوئی نوحہ کناں نہیں سوائے کشمیری عوام کے سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اقوام متحدہ کدھر ہے جسے صرف انصاف کی سربلند ی کیلئے تشکیل کیا گیا تھا مگر اس اقوام متحدہ کو تو ایسے لگتا ہے جیسے سانپ سونگھ گیا ہے اگر یہی ظلم اسرائیل کے اندر ہوتا یا یہی ظلم امریکہ میں سیاہ فاموں کا سفید فاموں پر ہوتا تو اقوام متحدہ کو ایک دم ظلم بربریت کے خاتمے کیلئے متحرک دیکھا جا سکتا ہے سوڈان میں اسکی مثال پوری اقوام عالم کے سامنے ہے کہ ایک ایسے خطے کو انتہائی مکاری کے ساتھ کس طرح علیحدہ کیا گیا جس میں نہ تو کوئی کشیدگی تھی اور نہ ہی کوئی ظلم و ستم مگر اپنے مفادات کی خاطر عالمی طاقتوں نے اقوام متحدہ کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے سوڈان کے سینے کو چاک کر کے اسکے دو ٹکڑے کر دیئے انہی عالمی طاقتوں نے1947ء میں جس طرح سے بر صغیر پاک و ہند کے سینے کو چاک کر کے دو ممالک کو معرض وجود میں لا کر نئی تاریخ رقم کی تو دوسری جانب بہت بڑا ظلم بھی تاریخ کے اوراک پر آج بھی موجود ہے کہ کس طرح سے کئی مسلمان علاقوں کو انتہائی ناانصافی کے ساتھ ہندوؤں کی سرپرستی میں دے دیا گیا اور آج وہاں رہنے والے مسلمانوں کے ساتھ بھارت میں ہندوانہ ذہن رکھنے والے مذہبی شدت پسند جو سلوک روا رکھتے ہیں اس پر نہ صرف دل دکھتا ہے بلکہ عالمی انصاف کے اس دوہرے معیار پر رونا بھی آتا ہے کہ جو ادارہ اقوام عالم کے ممالک کو انصاف فراہم کرنے کیلئے بنایا گیا تھا آج وہی دنیا بھر میں انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہے اس دنیا کے طول و عرض میں جہاں بھی جائیں تو اگر ناانصافی نظر آئے گی تو ان طاقتوں اور ان ممالک کے ساتھ ہوتی نظر آئے گی جو ایک خاص مذہبی جنون رکھنے والی ایک بین الاقوامی لابی کے مقاصد کے حصول میں رکاوٹ ہے وگرنہ کہیں بھی کوئی خرابی یا نا انصافی اس عالمی ادارے کو یوں نظر آجاتی ہے کہ انسانی حیرت بھی دنگ رہ جاتی ہے ۔

پاکستان کے اندر اگر کوئی غیرت کے نام پر قتل ہو ،کہیں انسانی حقوق کی چھوٹی موٹی خلاف ورزی ہو ،کہیں اقلیتوں کے خلاف کوئی جائز یا نا جائز عدالتی کیس ہو تو صیہونی قوتیں اسے یوں ڈھونڈ لیتی ہے کہ جیسے مکھن میں سے بال مگر ایک جانب پوری دنیا کے سامنے معصوم کشمیریوں پر بھارت نے ظلم کی ایک اور نئی تاریخ رقم کر دی ہے تمام حریت قائدین کو پابند سلاسل کر دیا ہے اور بزرگ حریت رہنما کو بھی حوالات میں بند کر دیا گیا ہے حالانکہ عالمی قانون کے مطابق عمر رسیدہ شخصیات کیلئے قوانین میں قدرے نرمی ہے مگر بھارت کے افسپا کے قانون کے آگے دنیا کے تمام قوانین دم توڑ چکے ہیں اور بھارتی آئین میں شاید ظالم اور مظلوم کی تعریف متضاد ہو چکی ہے اور مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم سمجھا جانے لگا ہے ۔صیہونی طاقتوں کو اتنا بڑا ظلم کیوں نظر نہیں آتا ۔آج عالمی طاقتیں کدھر ہیں مقبوضہ کشمیر میں آج تمام کاروبار زندگی مکمل طور پر معطل ہو چکے ہیں کھانے پینے کی اشیاء کی شدید قلت ہے کیا کشمیریوں کی زندگیاں اتنی محترم نہیں ہیں جتنا کہ اس دنیا میں دیگر بنی نوع انسان کی اگر ایسا ہے تو اقوام متحدہ کو اپنے اس دوہرے اور منافقانہ کردار پر ڈوب مرنا چاہئے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی ممالک کو بھی جنہوں نے بے کار سی او آئی سی بنا رکھی ہے جو اسلامی ممالک کے مفادات کا تحفظ تک نہیں کر سکتی ۔اگر آج کشمیریوں کے ساتھ ظلم پر کوئی نہیں بولتا تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ یہی اقوا م متحدہ ہو گا اور جو اسلامی ممالک آج لبوں پر خاموشی لئے ہوئے ہیں وہ بھی یہی رونا رورہے ہونگے عالمی طاقتوں کے مفادات اب نئی راہوں پر گامزن ہو رہے ہیں اور او آئی سی کا امتحان اب شروع ہونے والا ہے اس لئے او آئی سی کے رکن ممالک کو اب خوش کے ناخن لینا ہونگے اور حقیقی فعال او آئی سی کی تنظیم نو کرنا ہوگی وگرنہ ادلے کا بدلہ والامحاورہ مکمل طور پر درست انداز میں عملدردرآمد ہوتا نظر آئے گا۔

قارئین اس موقع پر ان بہادر اور کشمیریوں سے محبت کرنے والے ڈاکٹروں کو کیوں نہ سیلوٹ پیش کیا جائے جنہوں نے بہادر کشمیریوں کے علاج کیلئے جان کی پرواہ کئے بغیر جانے کا اعلان کر دیا ہے یہ بہت بڑا عزم ہے جس کو جتنا بھی سراہا جائے وہ کم ہے ۔گزشتہ روز مسلم میڈیکل مشن نے مقبوضہ کشمیر میڈیکل ٹیم بھیجوانے کے لیے بھارتی ہائی کمیشن میں ویزہ کے حصول کے لیے درخواست جمع کروا دی ، پاکستانی ڈاکٹروں کی ٹیم بھارتی فوج کی فائرنگ سے زخمی کشمیریوں کے علاج کے لیے مقبوضہ کشمیرجانا چاہتی ہے، درخواست میڈیکل مشن کے نائب صدر پروفیسر ڈاکٹر خالد حسین قریشی اورچیف کوآرڈی نیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے جمع کروائی ۔ درخواست میں تیس افراد کے لیے ویزہ جاری کرنے کی درخواست کی ہے جس میں میڈیکل سپیشلسٹ ، آئی سپیشلسٹ ، آرتھوپیڈک سپیشلسٹ اور پیرامیڈیکل سٹاف کے افراد شامل ہیں درخواست جمع کروانے کے موقع پر مختلف شہروں سے آئے ہوئے سینئر ڈاکٹرز پروفیسر ڈاکٹر منصور علی خان ،پروفیسر ڈاکٹر سلطان عبداﷲ،ڈاکٹر ج وید اقبال ،ڈاکٹر محمد الیاس ،ڈاکٹر شکیل ، ڈاکٹر عثمان ڈاکٹر خاور اقبال ،ڈاکٹر احسان باری ،ڈاکٹر حافظ حسان و دیگر پیرا میڈیکل سٹاف بھی موجود تھے اس موقع پر میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد حسین قریشی نے کہا کہ یہ درخواست کسی سیاسی بنیاد پر نہیں بلکہ خالصتاً انسانی ہمدردی بنیادوں پر دی گئی ہے ، مسلم میڈیکل مشن دنیا بھر کے اداروں کی توجہ دلا رہا ہے کشمیریوں پر ظلم ہو رہا ہے وہاں ہزاوں شہریوں بھارتی افواج کی فائرنگ سے زخمی ہوچکے ہیں۔ کشمیریوں نے بھارتی ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے انکار کردیا ہے اور پاکستانیوں سے مدد کے لیے اپیل کی ہے۔ ہم ڈاکٹرز کشمیریوں کے علاج کے مقبوضہ کشمیر جارکر اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ اقوام متحد سمیت انسانی حقوق کے عالمی اداروں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بھارت پر دباؤڈالے تاکہ ڈاکٹروں کو ویزہ فراہم کیا جائے انہوں نے کہا کہ ہم گزشتہ دس سالوں سے کام کر رہے ہیں اور ہمارے پاس ڈاکٹرز کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے ۔ پروفیسر ڈاکٹرخالد حسین قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے لہٰذا اسے ضرور اجازت دینی چاہیے ہم ڈاکٹرز ہیں اور ہر موقع پر خدمت کا کام کرتے ہیں اگر بھارت نے درخواست مسترد کر دی تو اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے احتجاج کیا جائے گا اور انسانی حقوق کے تمام فورم استعمال کریں گے تاکہ کشمیریوں کا علاج کیا جا سکے۔ انہوں نے دنیا بھر کے ڈاکٹرز سے اپیل کی کہ وہ بلاتفریق مذہب ہندو ہوں یا عیسائی انسانی ہمدردی کے تحت کشمیریوں کے علاج کے لے سرینگر پہنچیں۔ مسلم میڈیکل مشن کے چیف کواڈی نیٹر ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں تیس رکنی ٹیم ضروری ادویات اور دیگر اشیا ء ساتھ لے کر جائے گی کشمیریوں نے بھارتی ڈاکٹروں سے علاج کروانے سے انکار کر دیا ہے مسلسل کرفیو کی وجہ سے ادویات اورغذائی اشیاء کی قلت پیدا ہو چکی ہے جبکہ زخمی افراد کا علاج بھی نہیں ہو پا ہا اس لیے عالمی اداروں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ اپنا کردار ادا کریں، انہوں نے کہا کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں مہلک ہتھیاروں کے استعمال سے متاثرہ کشمیریوں کی آنکھوں کے آپریشنز اورعلاج معالجہ کی دیگر سہولیات فراہم کرنے کیلئے ڈاکٹرز کی ٹیمیں بھجوائی جائیں گی ۔ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ڈاکٹروں کو مریضوں کے علاج معالجہ اور لوگوں کو خون کے عطیات دینے سے زبردستی روکا گیا۔ بھارتی فورسز نے پرامن مظاہرین کے احتجاج کو کچلنے کیلئے مہلک ہتھیاروں کا استعمال کیا جس سے سینکڑوں کشمیریوں کی بینائی چلی گئی اور سینے و جلد کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔

قارئین………………!! آزاد کشمیر میں جب تک انتخابات کا دور دورہ تھا تو ساری جماعتیں بلند و بانگ بیانات دیتے نہیں تھکتی تھی مگر جونہی الیکشن اختتام پذیر ہوئے تو سب سیاسی جماعتوں کو اب سانپ سونگ گیا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے ان جماعتوں کو کشمیریوں کے ظلم و ستم یا انکی آزادی سے کوئی مطلب نہیں انہیں صرف اور صرف مطلب تھا تو انتخابات سے اور اب جیتنے اور ہارنے والی تمام سیاسی جماعتیں اس سے لاغرض ہو کر اب آزاد کشمیر میں اپنے اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے جدوجہد کریں گی اور اپوزیشن اب حکومت پر تنقید اور حکومت دفاعی پوزیشن میں رہے گی مگر کشمیریوں کو ایک بار پھر خود سے بھارتی ظلم و ستم پر میدان عمل میں آنا ہوگا اور انہیں جدوجہد کرنا ہوگی اگرچہ حکومت پاکستان کی جانب سے مشیر خارجہ نے انتہائی جرات مندانہ بیان جاری کیا ہے مگر عملی اقدامات بھی ضروری ہیں بیانات تو1948سے لے کر اب تک دیئے ہی جا رہے ہیں مگر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آتے حکومت پاکستان کو چاہئے کہ حریت قیادت اور آزاد کشمیر کی تمام سیاسی جماعتوں پر مبنی ایک آل پارٹیز کانفرنس بلائے اور دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر تمام سیاسی ،مذہبی اور انسانی حقوق کی تنظیمیں ون پوائنٹ ایجنڈے کے ساتھ کشمیریوں کے حقوق کی آواز بلند کریں اور اس طاقت کے ساتھ یہ آواز بلند ہو کہ اس آواز سے ہمالیہ کے پہاڑ تک تھر تھرا جائیں اور نام نہاد اقوام متحدہ کا ادارہ بھی لڑ کھڑا جائے اور عالمی طاقتوں کو مجبوراً کشمیریوں کے مؤقف کو تسلیم کرنا پڑے اگر حکومت،سیاسی جماعتیں ،عوام سب ایک محاذ پر ڈٹ جائیں ایک مؤقف پر ثابت قدم ہو جائیں تو یقیناً کشمیریوں کو آزادی کی صبح میسر آسکتی ہے اور اگر اب بھی سیاسی بیانات تک محدود رہنے کا سلسلہ جاری رہا تو پھر یہ مظلوم کشمیری عوام سے ہمدردی نہیں بلکہ عالمی صیہونی طاقتوں سے وفاداری کے حلف کی پاسداری سمجھی جائے گی ۔

کشمیریوں نے جام شہادت نوش کرنے کے بعد پاکستان سے جس محبت کا اظہار کیا ہے وہ یقینا کبھی بھلایا نہیں جا سکتا شہیدوں کی نعشوں کو پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کیا جا رہا ہے اور ہر گھر سے پاکستان زندہ باد کے نعروں کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں تو پھر یہ پوری قوم یہ سیاستدان یہ مذہبی جماعتوں کے قائدین اور یہ ریاست کیوں ایسے وفا شعار صاحبوں کا ساتھ دینے سے قاصر ہے جو ظلمت کی ہر شب گزارنے کے باوجود اپنے عزم کو مضبوط کئے ہوئے ہیں اور ہر آنیوالے دن کے ساتھ وہ تمام مصیبتوں کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان زندہ باد کے نعرے کو مزید بلند کرتے نظر آرہے ہیں اور اسکی ہی یہ سزا ہے کہ آج کشمیریوں کے گھرو ں میں خود کو زندہ رکھنے کیلئے دو وقت کا کھانا بھی میسر نہیں اور بھارتی چن چن کر مقبوضہ کشمیر سے نوجوان کشمیریوں کی نسل کشی کرنے میں مصروف ہیں ۔حکومت کو چاہئے کہ فوری کشمیریوں سے اظہار یک جہتی اور انکے حق خود ارادیت کیلئے ایوان بالا اور ایوان زیریں سے قرارداد پاس کرے اور پھر پوری قوم کی حمایت سے پاکستان سے تحریک آزادی کشمیر کا آغاز کیا جائے ۔

قارئین…………!! عوام تو آج بھی کشمیریوں کے ساتھ ہیں انکی جدوجہد کیساتھ ہیں اورکشمیریوں کے ساتھ کھڑے ہیں مگر ریاست کے کھڑا ہونے سے کشمیریوں کی تحریک کوزیادہ تقویت ملے گی اسلئے اب حکومت پاکستان کو بھارت کی مکارانہ چالوں کے خلاف نئی صف بندی کرنا ہوگی اور کشمیریوں کو آزادی دلوانا ہوگی اقوام متحدہ کے مردہ ضمیر کو جگانا ہوگا او آئی سی کو خواب غفلت سے بیدار کرنا ہوگا اسلامی ممالک کو اس ظلم پر آواز بلند کرنے کیلئے متحرک کرنا ہوگا اور تما م انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت کا سیاہ چہرہ حقیقت پسندانہ انداز میں دکھانا ہوگا تبھی کشمیری اپنی منزل پا سکتے ہیں وگرنہ جیل کی سلاخیں اور کال کوٹھڑیاں اور قبرستان ہی کشمیریوں کا مقدر رہیں گے ۔

آزاد کشمیر میں رہنے والے کشمیری رہنماؤں کو بھی اب خوش کے ناخن لینا ہونگے اور اپنی آزادی کیلئے خود بھی کوئی کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ اب چوہدری رحمت علی کے قول ’’اب نہیں تو کبھی نہیں‘‘ پر ایک بار پھر عمل پیرا ہونے کی ضرورت درپیش ہے ۔

 
Asghar Ali Abbasi
About the Author: Asghar Ali Abbasi Read More Articles by Asghar Ali Abbasi: 31 Articles with 21247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.