پاکستان کو آزاد ہوئے آج 70 سال ہونے کو
ہیں۔ آج کل دُنیا تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ اب ترقی کرنے کے لئے سالہا سال
درکار نہیں ہوتے۔ اب تو تیز ترین ترقی کے لئے دو عشرے ہی کافی ہوتے ہیں مگر
کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ پاکستان اتنے سال گذر جانے کے باوجود دوراہائے
پر کھڑا ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی کی نمائندگی کرنے والے اراکین پارلیمنٹ
کروڑوں روپے کے اجلاس تو ضرور کرتے ہیں مگر ان اجلاس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے
اس کا آج تک کسی نے نہیں سوچا۔ اگر آپ پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر کیمرہ لے کر
کھڑے ہوں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کوئی نمائندہ ایسا نظر نہیں آئے گا
جو کہ اسمبلی میں پیدل، سائیکل یا پھر عوامی ٹرانسپورٹ پر بیٹھ کر آتا ہوں۔
آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک بہترین گاڑی میں نظر آئیں گے یہاں تک کہ دینی
سیاسی جماعتوں کے سربراہ جو کہ ہمیں سادگی کا درس دئیے نہیں تھکتے اُن کے
پاؤں کے نیچے بھی دو، دو کروڑ کی گاڑیاں نظر آئیں گی کیا یہ سب غریب عوام
کی نمائندگی کر رہے ہیں؟ اور کیا یہ غریب عوام کے حقوق کے لئے ایوان میں
آوازِ حق بلند کریں گے۔ غریب عوام کے ووٹ سے یہ منتخب ضرور ہوتے ہیں مگر
عوام کے لئے کرتے کچھ بھی نہیں۔ ان کا مقصد عوام اپنی جیبیں بھرنا ہوتا ہے۔
میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ اگر یہ لوگ عوام کی خاطر کچھ کرنا بھی
چاہتے تو پھر 70 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ آج پاکستان ایک عظیم پاکستان کے
روپ میں دُنیا کے سامنے کھڑا ہوتا۔ یہ لٹیرے آتے ہیں اور عوام کے لئے کچھ
نہیں کرتے اور نہ ہی غریب عوام کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں جس کی وجہ سے
ہر گذرنے والے دن کے ساتھ پاکستان کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
پاکستان کا بچہ بچہ مقروض ہو چکا ہے۔ یہ لٹیرے انتخابی وعدے کرتے ہیں کہ ہم
پاکستان کو پیرس بنا دیں گے، سنگاپور، ملائیشیا اور ترکی کی مثالیں ہمیں
دیتے ہیں۔ میں تو صرف اتنا کہتا ہوں کہ پاکستان کو صرف پاکستان ہی رہنے دیں
تو بڑی بات ہے۔ ان ارکان پارلیمنٹ سے اپنے اپنے ضلع کے ڈی ایچ کیو ہسپتالوں
اور تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتالوں کی حالت زار معلوم کر لیں۔ غریب عوام سستی
اور غیر معیاری صحت حاصل کرنے کے لئے بھی ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ
غریبوں کے ہسپتالوں کی حالت کیونکر ٹھیک نہیں کرتے، اس وجہ سے کہ ان کو
معلوم ہے کہ انہوں نے کون سا ان ہسپتالوں میں جانا ہے۔ غریبوں کے بچوں کے
سکولوں کی حالت دیکھ لیں، کسی سکول کی بلڈنگ نہیں ہے، کہیں سٹاف موجود نہیں
اور کہیں فرنیچر کا مسئلہ ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ ان سکولوں میں ان کے بچوں
نے تعلیم حاصل نہیں کرنی، ان کے بچوں نے تو معیاری تعلیم حاصل کرنی ہے اور
اعلیٰ تعلیم کے لئے بیرون ملک چلے جانا ہے، ان کو بھلا غریب کے بچے کا کیا
احساس ہو گا؟ غریب عوام کے منتخب نمائندوں کے سر میں درد ہو تو یہ لندن
پہنچ جاتے ہیں، ان کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں ہے۔ نیشنل ہائی ویز کی
حالت زار دیکھ لیں چونکہ اس پر بھی سفر غریب عوام نے ہی کرنا ہے، سڑکوں کی
بُری حالت اور جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار لیکن اس کے باوجود ان پر سفر
کرنے کے لئے غریب عوام سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے مگر وہ ٹیکس جاتا کدھر ہے
یہ کسی کو معلوم نہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ ٹیکس غریب عوام سے لیا جاتا
ہے مگر عوام پر لگایا نہیں جاتا یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے؟ غریب عوام
اگر قرضہ لینا چاہیں تو اس کی شرائط پوری کرنا ہی غریب عوام کے لئے ممکن
نہیں ہوتا اور قرضہ بھی کتنا لینا ہوتا ہے پچیس یا پچاس ہزار اور جو کروڑوں
اور اربوں روپوں کا قرضہ لے کر رفو چکر ہو گئے اُن کے لئے سب معاف ہے اور
وہ ٹھہرے معزز و محترم پاکستانی یا ارکانِ پارلیمنٹ۔ غریب عوام کی ترجمانی
کرنے والے ان ارکانِ پارلیمنٹ سے کوئی پوچھے انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں
کیا غریب عوام کو صاف پینے کا پانی مہیا کیا؟ جواب نفی میں ملے گا کیونکہ
انہوں نے کون سا وہ پانی استعمال کرنا ہے، ان کے لئے تو ہر وقت منرل پانی
دستیاب ہوتا ہے۔ 20 کروڑ عوام کی نمائندگی کرنے والے ان ارکانِ پارلیمنٹ سے
ذرا پوچھیں انہوں نے اپنے اپنے حلقے میں کتنے میڈیکل کالج اور کتنی
یونیورسٹیاں بنوائی ہیں؟ جواب نفی میں ملے گا۔ ان کے پاس عوامی کام کرنے کا
وقت ہی نہیں ہے۔ انہوں نے غریب عوام پر یہی بہت بڑا احسان کر دیا ہے کہ یہ
اسمبلی میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ان کے پاس غریبوں کے کام کرنے کا کوئی
منصوبہ نہیں ہے۔ پٹرول کی قیمتیں تیزی کے ساتھ کم ہوئیں۔ حکومت نے عوام کو
ریلیف بھی دیا مگر کیا ٹرانسپورٹ کرایوں اور ضروریاتِ زندگی کی اشیاء کی
قیمتوں میں کوئی کمی واقع ہوئی، اس لئے کمی نہیں ہو گی کیونکہ ارکانِ
پارلیمنٹ کی اپنی ٹرانسپورٹ چلتی ہے، ان کے اپنے ٹرانسپورٹ اڈے موجود ہیں؟
کون مائی کا لال ان سے کرائے کم کرا سکتا ہے؟ اگر پٹرول 10 روپے لیٹر بھی
ہو جائے تو پھر بھی کرایہ کم نہیں ہو گا؟ یہ ارکانِ پارلیمنٹ صرف اتنا بتا
دیں کہ جب یہ سیاست میں آئے تھے تو ان کے اثاثے کتنے تھے اور آج کتنے ہیں
تو پھر معلوم ہو جائے گا کہ یہ لوگ غریب عوام کی خدمت کرنے نہیں آتے، یہ
لوگ اپنے اپنے اثاثوں اور بنک بیلنس میں اضافے کے لئے آتے ہیں۔ یہ تو غریب
عوام کی خام خیالی ہوتی ہے جو ان سے بڑی بڑی اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔
اور میں سمجھتا ہوں کہ ایسا پاکستانی عوام کے ساتھ ضرور ہونا چاہئے کیونکہ
جو عوام یہ سوچ کر اپنا قیمتی ووٹ ایک ایسے شخص کو د ے دے کہ اگر
خدانخواستہ اگلے پانچ سال میں میرا تھانے کچہری کا مسئلہ بن گیا تو میرا
مسئلہ یہ ایم این اے، ایم پی اے حل کرا دے گا؟ تو پھر آپ خود سوچ سکتے ہیں
کہ ہم پر حکمرانی کرنے والے کس طرح کے لوگ آئیں گے۔ ہمارے حالات اُس وقت تک
نہیں بدلیں گے جب تک ہم اپنے ووٹ کا درست استعمال نہیں کریں گے۔ ورنہ یہی
پُرانے چہرے بار بار ایک نئے روپ میں آتے رہیں گے اور ہمیں دُنیا کی مثالیں
بتا کر لوٹتے رہیں گے اور پاکستان کی غریب عوام کے مسائل جوں کے توں رہیں
گے۔ نہ یہاں سے بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل ہو گا، نہ گھریلو صارفین کو
گیس ملے گی اور نہ ہی کسی قسم کی تبدیلی نظر آئے گی۔ طاقت کا اصل سرچشمہ
یقینا عوام ہوتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے پاکستانی عوام کو ابھی تک
اپنی طاقت کا احساس نہیں ہوا۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔ |