امت مسلمہ کو متحدکرنے میں علماءوائمہ مساجد کا رول ناگزیر
(Altaf Hussain Janjua, Jammu, J&K (India))
اس وقت ریاستی عوام بالخصوص امت مسلمہ
انتہائی نازک دور سے گذر رہی ہے۔ سال2014میں قومی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کو
خرید کر شروع کی گئی انتہائی پراسر اور دل لبھا لینے والی پبلسٹی کی بدولت
واضح اکثریت کے ساتھ ہندوستان کے پارلیمنٹ پر قبضہ جمانے والی بھارتیہ جنتا
پارٹی نے جب سے اقتدار سنبھالا ہے، اپنی سرپرست ’آر ایس ایس‘کے ’ہندو
راشٹر‘ایجنڈہ کا عملی جامہ پہنانے کا عمل شروع کر رکھا ہے۔ این ڈی اے حکومت
نے پہلے روز سے ہندوستان بھر میں مسلمانوں کے خلاف منظم سازشوں کا سلسلہ
شروع کیا، ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لئے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور
پر حرکتیں کیں جس کی وجہ سے پہلے ہی سے بکھری بکھری مسلم قوم ان سازشوں کا
شکار ہوتی چلی گئی۔ اگر ہمار ا گھر مضبوط ہوتا، ہم میں اتفاق ہوتا تو یہ
حرکتیں تو کچھ بھی نہ تھیں لیکن مسلمانوں کی کمزوروں اور آپسی نا اتفاقی
کابھر پور فائیدہ اٹھایاگیا ہے اور اٹھایاجارہاہے۔ اس منصوبہ بند سازشی
پالیسیوں سے کچھ حد تک جموں وکشمیر ریاست متاثر نہ تھی لیکن یہاں بھی
’میڈیا پبلسٹی‘ کا موثر ایجنڈہ استعمال کر کے بھاجپا نے تاریخ میں پہلی
مرتبہ25نشستیں حاصل کر کے اقتدار کے گلیاروں تک پہنچنے کی راہ ہموا رکر دی
اور پی ڈی پی نے ان کو سب سے زیادہ سہارا دیا۔ آٹھ ماہ کے عرصہ میں صوبہ
جموں کے متعدد اضلاع سے مسلم افسران کو ہٹانے، جنگلات اراضی پر قبضہ چھڑانے
کے بہانے لوگوں کو گھر سے بے گھر کرنے، قبرستانوں پر دنگل کرانے، اوقاف
اسلامیہ کی اراضی پر مندر کی تعمیر ، بڑے گوشت پر پابندی وغیرہ وغیرہ یکے
بعد دیگر کئی متنازعہ معاملات کواجاگر کر کے ریاست کی صدیوں پرانی آپسی
بھائی چارہ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، مذہبی رواداری کو نقصان پہنچانے کی
ہرممکن کوشش کی گئی اور ان کوششوں کا سلسلہ جاری ہے۔ رشوت خوری، بدنظمی،
لوٹ کھسوٹ، ریاستی ، ملکی وعالمی سطح پر مسلم مخالف پالیسیوں بارے مختلف
سیاسی وسماجی تنظیموں کے طرح طرح کے بیانات کے بیچ عام آدمی کنفیوژن کا
شکار ہے۔ اس کو یہ سمجھ نہیں آریا کہ وہ کس بات پر یقین کرے، کس کی بات کو
صحیح مانے اور کسی غلط ....؟۔ ایک ہی معاملہ پر پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کچھ
کہتی ہے، مختلف سیاسی جماعتیں کچھ کہتی ہیں ، تو پھر کس پر یقین کیاجائے ،
کون ہے جوکہ عام آدمی کو حقیقت سے روشناس کرائے۔ کون انہیں یہ بتائے کہ
جوسب ہورہا ہے اس کے پس پردہ کیا محرکات کارفرما ہیں۔ کون ہے ناخواندہ مسلم
افراد ونوجوانوں کو یہ سمجھائے کہ ان کا کیا رول ہے، انہیں کس طرح کسی بیان
یا معاملہ پر رد عمل ظاہر کرنا چاہئے ۔ایک ایسے وقت میں جب تمام سیاسی
جماعتیں اپنے مخصوص مفادات کو ملحوظ نظر رکھ کر متذکرہ بالا معاملات کو الگ
الگ انداز میں پیش کر رہی ہیں۔ ان پر مختلف بیانات جاری کئے جارہے ہیں ،
میں علماءحضرات اور ائمہ مساجد کا رول انتہائی اہم ترین ہے کہ وہ امت مسلمہ
کو متحد کرنے کے لئے اپنی صفحوں میں اتحاد پیدا کریں۔ مسلم اس وقت ایک
انتہائی نازک مرحلہ سے گذر رہے ہیں۔........اس بحرانی صورتحال میں ساد ہ
لوح اور معصوم امت مسلمہ کے لئے علماءحضرات اور ائمہ مساجد ہی واحد روشنی
کی کرن ہیں۔ علماءحضرات اور ائمہ مساجد پرایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی
ہے کہ وہ اہل اسلام کو قرآن وحدیث کی تعلیمات کے ساتھ ساتھ ریاستی، ملکی
وعالمی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے حالات اور ان کے مسلمانوں پر اثرات بارے
جانکاری فراہم کریں۔ ان میں بیداری لائیں۔ عصر حاضر میں جموںو کشمیر ریاست
میں زندگی کے ہرشعبہ پر سیاست حاوی ہے، اسی لئے ہر کوئی اس میں طبع آزمائی
کرنا چاہتا ہے جس کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کیاجارہاہے۔ اس پر پہاڑی،
گوجر بکروال، آر بی اے، جاٹ برادری، راجپوت برادری، مغل، میر ، کشمیر،
وہانی، دیوبندی، سنی، اہلحدیث کے علاوہ کئی سرکاری وغیر سرکاری تنظیموں کے
نام پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کا عمل جاری ہے۔ ہر ایک کا مقصد شہرت اور
دولت کمانا ہے لیکن اس لئے الگ الگ طریقے استعمال کئے جارہے ہیں۔ کوئی کسی
مسئلہ میں دلچسپی لیتا ہے تو کوئی کسی میں۔ ان رہنماؤں کا کوئی مشترکہ مشن
نہیں جس کی وجہ سے آئے روز ریاستی ، ملکی وعالمی سطح پر رونما ہوئے والے
واقعات کے تئیں ان کے الگ الگ نظریات ، موقف اوربیانات ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ
یہ کہ قوم پرست ، جانبدار ملکی پرنٹ والیکٹرانک میڈیا اپنے ہی انداز میں
حقائق کو تروڑ مروڑ کر پیش کرتی ہے جس سے عام لوگوں کے ذہنوں میں غلط تاثر
پیدا ہوجاتاہے جوکہ خبر کی حقیقت سے بالکل ناواقف ہیں۔اس سے کوئی اتفاق
کرئے یا نہ کرئے لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پرنٹ والیکٹرانک میڈیا میں
مسلمانوں کے خلاف جوپروپگنڈہ کیاجارہاہے اور جس انداز میں کیاجارہاہے ، اس
میں کوئی صداقت نہیں ، بلکہ یہ محض ایک منظم ومربوط پالیسی کے تحت ہورہا ہے
جس میں مسلمانوں کو مسلمانوں کے خلاف بالواسطہ اور بلاواسطہ طور استعمال
کیاجارہاہے۔ یہ امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ دیگر مذاہب کے لوگ دن
بدن ترقی کی نئی نئی منازل کو طے کر رہے ہیں تو ہم انچ انچ زمین حاصل کرنے
کیلئے بھائی سے جھگڑ رہے ہیں، مسلم بھائی اچھا کیوں پہن گیا اس کی ٹانگ
کھینچنے میں لگے ہیں، ہمار ا مسلم پڑوسی اگر تجارت، کاروبار یا تعلیم میں
ترقی کر رہا ہے تو ہم اس کی ترقی میں روکاٹیں کھڑی کرنے میں اپنی پوری طاقت
جھونک رہے ہیں۔ سرکاری ونجی شعبہ جات میں اپنے مسلم ساتھی کی قابلیت، ذہانت
اور صلاحیت پر رشک کرنے کے بجائے حسد کرتے ہیں ۔اس کی اچھائیوں کا اعتراف
کر کے بجائے اس کی برائیوں اور ناکامیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرتے
ہیں۔ہم کسی عہدہ اور منصب پر اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر خوش ہونے کے
بجائے مایوس ہوتے ہیں۔............کاش ہم سمجھتے کہ
تمہیں تم ہو، تو کیا تم ہو
ہمیں ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
ان حالات میں علماءحضرات پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مشترکہ
طور پر اہل اسلام کو تازہ ترین حالات واقعات کی غیر جانبدارانہ جانکاری
فراہم کریں اور انہیں متحد رہنے کی تلقین کریں۔تحصیل سطح تک تمام
علماءوائمہ مساجد کو متحد رہنا چاہئے۔ اگرایک تحصیل کے اندر جتنی بھی جامع
مسجد ہیں، ان کے ائمہ مساجد ایکدوسرے کے ساتھ مسلسل رابطہ قائم کر کے متحد
ہوں۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ روزمرہ کے حالات واقعات پر گہری نظر رکھیں
اور صحیح تناظر میں فرزندان توحید کو ہر جمعہ کو خطاب میں اس بارے آگاہ
کریں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف ریاستی، ملکی وعالمی سطح پر ہورہی
سازشوں، رچی جارہی پالیسیوں جارے اپنا رد عمل ظاہر کریں۔جموں وکشمیر میں
مختلف ناموں اور طریقوں سے تقسیم کی گئی امت مسلمہ کو متحد کرنے میں
علماءحضرات ہی یکجا کر سکتے ہیں کیونکہ باقی ہر کوئی اس کو اپنی سیاسی دکان
کھولنے کیلئے تقسیم در تقسیم کرتا جارہاہے۔ اگر علماءحضرات ایک مشن کے تحت
متحد ہوجائیں اور اس ضمن میں مخلصانہ کوششیں کریںتو انشااللہ....تو فرزندان
توحید سازشی پروپگنڈہ سے محفوظ رہ کر اپنے دشمن عناصر سے باخبر رہ سکتے
ہیں۔ اس وقت جمو ں وکشمیر ریاست میں تحصیل سطح کی بات جائے توکہ ایک تحصیل
میں کم سے کم 30سے40جامع مساجد ہیں، ان کے ائمہ مساجد متحدہوں تو ان کے لئے
حالات حاضر ہ پر بیان جاری کرنا، دھرنے، ایجی ٹیشن کا انتباہ دینا یا کسی
مسئلہ کو حل کرانا آسان ہوجائے گا۔ وہ متعلقہ علاقوں میں مسلمانوں کو سمجھا
سکتے ہیں۔ ان کے آپسی مسائل حل کراسکتے ہیں۔ موجودہ زمینی صورتحال ایسی ہے
کہ متحد نہ ہونے کی وجہ سے علماءحضرات میں احساس عدم تحفظ کا شکار ہیں، وہ
سب کچھ جانتے ہوئے بھی کسی بھی معاملہ پر اس ڈر سے لب کشائی نہیں کرتے کہ
کہیں اس کا نہیں انفرادی طور خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ کئی علماءحضرات کو یہ
بھی حدشہ رہتا ہے اگر انہوں نے کوئی ایسا بیان دیا تو انہیں امامت کے فرائض
انجام دینے سے ہٹایابھی جاسکتا ہے جس سے ان کی روزی روٹی پر لات لگ سکتی ہے
کیونکہ آخر کار روزگار بھی توضروری ہے۔ اگر علما متحد ہوجاتے ہیں تو ان کے
لئے رمضان المبارک ،عید الفطر ، عید الضحیٰ، محروم الحرام، عید میلاد
النبیﷺ، شب قدر، شب برات، شب معراج جیسے اہم ترین دنوں کیلئے انتظامیہ کی
طرف سے متعلقہ علاقوں میں انتظامات کرانا، کوئی مشترکہ لائحہ عمل طے کرنا ،
متعلقہ علاقوں میں ہورہے غیر شرعی کاموں پر روک لگانا آسان ہوجائے گا۔ ۔
قصبہ سرنکوٹ میں98فیصد سے زائد مسلم آبادی ہے لیکن وہاں پر شراب خانے، فلمی
تھیڑ بالکل جامع مسجد کے قریب چل رہے ہیں۔ اس کے خلاف سال 2012میں چند
نوجوانوں نے آواز اٹھانے کی کوشش کی۔ اس پر مرکزی جامع مسجد سرنکوٹ کے امام
وخطیب سے بھی بات کی گئی لیکن موصوف کی طرف سے کوئی زیادہ دلچسپی ظاہر نہ
کی گئی۔ رواں برس پھر شراب کی دکانیں بند کرنے کے خلاف آواز بلند کی گئی
لیکن اتفاق واتحاد کا فقدان ہونے سے یہ مہم ابتدائی مراحل میں ہی دوم توڑ
گئی۔ اگر تمام علما حضرات اور ائمہ مساجد متحد ہوں تو اس سے نہ صرف اپنے
مسائل ومشکلات کو حل کراسکتے ہیں بلکہ ملی کام بھی باآسانی کسی دباؤ کے
انجام دے سکتے ہیں۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان کی ایجنسیاں مسلمانوں کو
پہاڑی، گوجر، ایس ٹی ، ایس سی، او بی سی، جنرل کٹاگری، مرزا، کشمیری،
ڈوگرہ، چوہان، کوہلی، راجپوت، چوپان وغیرہ کے نام پر تقسیم کرنا چاہتی ہے،
میں علماءحضرات کا مسلمانوں کو متحد رکھنے میں رول اہم ثابت ہوسکتا ہے۔
علماءکے ساتھ ساتھ مسلم طبقہ کے ذی شعور افراد، تعلیم یافتہ نوجوانوں پر یہ
ملی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے حقیر مفادات کی خاطر، جھوٹی شان کی
خاطر، اپنے مسلم بھائی کو نیچا دکھانے کی خاطراور اپنے مسلم بھائی پر
بالادستی قائم کرنے منافقانہ سوچ کو ترک کر کے ایک جذبہ کے تحت گھر سے
گھر،محلہ سے محلہ اور گاؤں سے گاؤں کو آپس میں جوڑنے کے لئے کام کریں نہ ہی
سیاسی لوگوں کے ہاتھ کی کٹ پتلی بن کرامت مسلمہ کو نقصان پہنچائیں۔ بیشتر
سیاسی رہنماؤں کو مختلف ناموں پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے لئے بھی ملکی
وغیر ممالک سے فنڈنگ ہوتی ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے، ایسی سازشوں سے
بیدار رہنے کی ضرورت ہے، یہ تبھی ممکن ہوگا کہ امت مسلمہ اپنے فرائض کو
صحیح طریقہ سے انجام دے گی اور ساتھ ہی سماج کے ذی شعور افراد اور تعلیم
یافتہ نوجوان ذاتی مفادات کو نظر اندازا کر کے ملی جذبہ سے یکجاہوکر غورو
فکر کریں گے۔ |
|