مسلمانانِ جموں.... سیاسی سرپرستی سے محروم

مابعد1947کوتقسیم برصغیر ہند،ہندو انتہاپسند تنظیموں کی طرف سے بڑے پیمانے پر کی گئی قتل وغارت کے بعد اکثریت سے اقلیت میں تبدیل ہوئے صوبہ جموں کے مسلمان 68برس سے زائد کا عرصہ گذر جانے کے باوجود آج بھی زندگی کے تمام شعبہ جات میں اس پیمانے پر آگے نہیں بڑھ سکے ہیں جس کے وہ مستحق تھے، اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی سرپرستی حاصل نہ ہونابھی اہم وجہ رہی ہے ۔ صوبہ جموں کے راجوری، پونچھ، کشتواڑ، رام بن، ڈوڈہ، ریاسی اضلاع کے علاوہ کٹھوعہ، اودہم پور، جموں اور سانبہ میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم طبقہ سے وابستہ افسران ہیں جوکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ،تجربہ کار وباصلاحیت ہیں لیکن انہیں اہم عہدوں سے دور رکھاگیا ہے جس کے یہ مستحق تھے۔ صوبہ کشمیر سے وابستہ سیاستدانوں کی کامیابی کا سب سے بڑا یہ راز ہے کہ وہ چاہےے کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں، جب بھی اقتدار میں آتے ہیں،علاقہ، رنگ ونسل اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ملت کا جذبہ رکھتے ہوئے طبقہ کے ہرشخص کو بااختیار بنانے کی کوشش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر کا ایک رھیڑی فروش بھی خود کو بہت زیادہ محفوظ تصور کرتا ہے اور سینہ تان کر فخر سے کوئی بات کرتا ہے کیونکہ اس کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ اس کو صرف امید ہی نہیں بلکہ پختہ یقین ہوتا ہے کہ وہ جب بھی مشکل میں ہوگا یا اس کو کبھی کوئی ضرورت محسوس ہوگی تو برسر اقتدار میں شامل کشمیری مسلم رہنما اس کی ہر حال میںمدد کریں گے۔ اس کے برعکس صوبہ جموں کے مسلم سیاستدانوں کا اللہ ہی حافظ ہے جوکہ اپنوں سے زیادہ غیروں کو فائیدہ دینے میں ہی اپنی شان سمجھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے پیش نظر دوسروں کی ضرورت کو اپنی ذاتی حاجت پر ترجیح دینا ایثار کہلاتا ہے لیکن صوبہ جموں کے مسلم رہنماؤں میں ملی جذبہ کا فقدان ہے۔ یہ ایک ایسا جذبہ ہے جس کا تعلق دل اور نیت سے ہے کیونکہ جب کوئی اپنی ضرورت کو پس پشت ڈال کر دوسرے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے تو اس وقت اللہ اس سے پوری طرح راضی ہوتا ہے اور اس کا وہ فعل بارگاہ رب العزت میں بڑا مقبول ہوتا ہے۔اس لئے اسلام میں اس کی بے پناہ فضیلت ہے۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایثار کو اہل مدینہ کا و صف قرار دیا ہے کیوں کہ مسلمان جب مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ آئے تو وہاں پہلے سے رہنے والوں نے مہاجرین کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا جس میں جذبہ ایثار قدم قدم پر نمایا ں نظر آتا ہے۔یہ انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ صوبہ جموں کے مسلم سیاستدان چاہئے وہ کسی بھی سیاسی جماعت سے وابستہ ہوں ، ا ان میں ملت کا جذبہ نہیں۔جب بھی وہ اقتدار میں آتے ہیں یا اقتدار کے باہر رہ کر کوئی آواز یا مسئلہ اجاگر کرناہوتا ہے تو اس میں وہ پہلے اپنے ذاتی مفادات، اپنے ورکر، اپنا علاقہ ، اپنے عزیز و اقارب رشتہ دار ان کو ترجیحی دیتے ہیں ۔اودھم پور، کٹھوعہ، سانبہ میں اگر کسی مسلم پر ظلم ہورہاہوگا تو خطہ چناب، پیر پنجال یا جموں کا مسلم کبھی بھی اس کے خلاف آواز نہیں بلند کرتا ۔ اسی طرح چناب میں کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو پیر پنجال اور جموں والے چپ رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ صوبہ جموں کا مسلم سیاسی سرپرستی سے خود کو محروم تصور کرتا ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی سے وابستہ کوئی مسلم لیڈر قانون سازیہ کے گلیارے تک پہنچتا ہے تو اس کا کام کاج کا دائرہ صرف اپنے پارٹی ورکروں تک ہی محدود رہتا ہے، جس سے ایک بہت بڑا طبقہ محروم ہوکر رہ جاتا ہے۔ پارٹی کو ترجیحی پر رکھنے کی وجہ سے وہ اپنے بھائی کے ساتھ بھی نا انصافی کرنے میں گریز نہیں کرتا۔ کٹھوعہ، سانبہ، اودہم پور ،جموں اور ریاسی وہ اضلاع ہیں جہاں کا مسلم طبقہ مکمل طور ہی سیاسی سرپرستی سے محروم ہے۔ یہاں پر مسلماں پر آئے روز کسی نہ کسی بہانے ظلم وستم ہوتے رہتے ہیں لیکن نہ تو میڈیا ان کی آواز بلند کرتی ہے اور نہ کوئی سیاستدان ۔ مذکورہ اضلاع کا اگر کوئی مسلم صوبہ جموں کے کسی دوسرے علاقہ سے منتخب شدہ رکن اسمبلی یا رکن قانون ساز کونسل اور وزیر کے پاس اپنی فریاد لیکر جاتا ہے تو اس پرکوئی توجہ نہیں دی جاتی ۔ پہلا سوال اس سے یہی ہوتا ہے کہ وہ کہاں سے آیا، جس کا جواب ملنے پر ہی وہ ٹال مٹول کر چپ ہوجاتاہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی بھی طبقہ کی ترقی اور بااختیاری اس میں مضمر ہے کہ انتظامیہ کے اندر اس کے ملازمین شامل ہوں تاکہ وہ ان کی مدد کرسکیںکیونکہ حکومتی فرمان کو بالآخر افسران نے ہی عملی جامہ پہناناہوتا ہے۔ مسلم طبقہ سے وابستہ ہزاروں کی تعداد میںمحکمہ مال، عدلیہ، تعلیم،صحت، پولیس ، داخلہ، تعمیرات عامہ، شہری ترقی جیسے اہم ترین محکمہ جات سے وابستہ سنیئر افسران کا تعلق صوبہ جموں سے ہے لیکن بدقسمتی سے ان کی پوسٹنگ اہم عہدوں پر نہیں ہوتی کیونکہ تعیناتیاں وتبادلے سیاسی اہلیت وقابلیت کی بنا پر نہیں بلکہ سیاسی سفارشات پر ہوتے ہیں اور ان کی سفارش کرنے والا کیوں نہیں۔ انہیں تنخواہیں تو اچھی ملتی ہیںمگرانہیں ایسے مقام پر تعینات کیاگیا ہے جہاں سے وہ ملت کی خدمت کا حق ادا نہیں کرسکتے ۔ جموں اور کشمیر صوبوں سے تعلق رکھنے والے مسلم حکمرانوں /سیاستدانوں میں کتنا فرق ہے ، اس کی کئی اہم مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ کشمیر کے سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیحی ہوتی ہے کہ وہ ملی جذبہ کے ساتھ جتنا ممکن ہوسکے وہ لوگوں کو فائیدہ پہنچائیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ صوبہ جموں کے مسلم افسران یا عام لوگوں کی جس حد تک تعمیر وترقی ہورہی ہے یا ان کے مسائل کا ازالہ ہورہا ہے اس میں کشمیر صوبہ کے حکمرانوں کا کافی ہاتھ رہا ہے جنہوں نے ”ووٹ بنک سیاست “سے اوپر اٹھ کرملی جذبہ سے یہ کام کئے۔ برعکس اس کے صوبہ جموں کے مسلم سیاستدان جب اقتدار میں آتے ہیں تو ان کی پہلی ترجیحی زیادہ سے زیادہ پیسہ جمع کرنا ہوتا ہے، جس کے لئے وہ کسی بھی حدتک جاتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مال ودولت جمع کرنے کے مشن پر عملدرآمد کرتے ہوئے یہ مسلم سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ ان کا ملت کے تئیں بھی کوئی فرض بنتا ہے۔ ان کے پاس اگر کوئی مسلم شخص اپنی فریاد لیکر جاتا ہے تو اس کو طفل تسلیاں دی جاتی ہیں اور ....آج کل ،آج کل کر کے ٹال مٹول کیاجاتاہے، یہ بیچار ہ شخص مسلم وزیر کے دفتر ورہائش گاہ پر کئی کئی ماہ تک چکر لگا لگا کر خود ہی تھک کر چپ ہوجاتاہے۔ یہ بات انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ صوبہ جموں کے مسلم حکمرانوں /سیاستدانوںکا ضمیر مرچکا ہے جوکہ اپنے مفادات کی خاطر غیر مسلموں کو ترجیحی دیں گے مگر اپنوں کے کام نہیں آئیں گے۔ ان مسلم حکمرانوں کیلئے نیشنل کانفرنس، کانگریس، پی ڈی پی، بی جے پی، پہاڑی، گوجر بکروال، کشمیری، مغل، میر، مرزا ، ڈھمال وغیرہ وغیرہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے اور ان سب سے بڑھ کر وہ اپنے ذاتی مفادات کو ہمیشہ سرفہرست رکھتے ہیں۔ اسی موضوع پر ایک مرتبہ چند دوستوں سے بات ہورہی تھی ،تو ان میں سے ایک نے سبق آموز مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ وہ کشمیر سے وابستہ ایک وزیر کے پاس بیٹھے تھے، ان کے پاس کشمیر سے تعلق رکھنے والے چند افراد آئے۔ دوران گفتگو وزیر نے ان سے پوچھا کہ وہ جموں میں کہاں ٹھہرتے ہیں تو ان افراد نے جواب میں کہاکہ وہ کرایہ کے ایک کمرہ میں رہ رہے ہیں۔ اس پر جٹ سے وزیر نے از خود کہاکہ کیوں کرایہ کے کمرہ میں کیوں رہتے ہو، میں آپ کے نام سرکاری رہائشی کوارٹر الاٹ کردیتاہوں وہاں آرام سے رہیں ۔ اس وزیر نے اسی وقت محکمہ سٹیٹ کے ڈائریکٹر سے فون پر رابطہ قائم کر کے اسے شام کو رہائش گاہ پر بلایا۔ ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے شام مقرر ہ وقت پر ڈائریکٹر اسٹیٹ وہاں کچھ کاغذات لیکر پہنچا۔ اس وزیر نے ڈائریکٹر سے کہاکہ جموں شہر میں محکمہ اسٹیٹ کے رہائشی کوارٹرز کتنے خالی ہیں، یا نہیں تو ڈائریکٹر نے انہیں تفصیل فراہم کی کہ ہاں چند ایک ہیں تو وزیر نے اس پر فوری کہاکہ فلاں شخص کے نام یہ کوارٹر الاٹ کر دو ، اس حوالہ سے کل ہی باقاعدہ آرڈر بھی نکالایاجائے۔ اس دوست نے کہ اس Spiritکے ساتھ کشمیر کے حکمران کام کرتے ہیں، وہ ملی جذبہ کے ساتھ کام کر کے طبقہ کے آدمیوں کو جہاں تک ممکن ہوسکےAcomodateکرتے ہیں لیکن ایسا جموں میں نہیں۔کسی فلاحی سکیم، تعمیراتی پروجیکٹ کی منظوری کامسئلہ ہو، اجرت کیو اگذار ی ہوئی، تعیناتی وتبادلہ ہو یا کوئی اور مسئلہ کشمیری حکمران اس کو کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ جموں وکشمیر ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدار میں آنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی جس طرح ہندو طبقہ کے لوگوں کو Accomodateکر رہی ہے وہ صوبہ جموں کے مسلم حکمرانوں/سیاستدانوں کے لئے چشم کشا وسبق آموز ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سے وابستہ وزرا اور اراکین قانون سازیہ اپنی سرپرست ’آر ایس ایس‘سے وابستہ رہنماؤں وکارکنان کی مدد سے ضلع، تحصیل بلاک، پنچایت ، گاؤں ،محلہ اور گھر گھر تک اپنے ہندو طبقہ سے وابستہ لوگوں کی مدد کر رہے ہیں اور انہیں مناسب مقامات پر ایڈجسٹ کیاجارہاہے۔ عدلیہ کی بات کی جائے تو بھاجپا نے جموں وکشمیر ہائی کورٹ جموں ونگ، ضلع کورٹ جموں، کٹھوعہ، اودہم پور، سانبہ ، ریاسی، راجوری، ڈوڈہ، رام بن، کشتواڑ اضلاع کی ضلع ومنصف عدالتوں میں کیسوں کی سرکار کی طرف سے پیروی کرنے کیلئے زیادہ سے زیادہ اپنے لوگوں کو تعینات کیاہے۔ اس کے علاوہ نجی سیکٹر میں جتنی بھی کمپنیاں، یونین ودیگر ادارے تھے ان کے سابقہ اسٹینڈنگ کونسلوں کو ہٹاکروہاں اپنے بندے ایڈجسٹ کئے ہیں۔ پی ڈی پی اور بی جے پی مخلوط حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد انتظامیہ میں مختلف سطح پر جو پھیر بدل ہوا ہے اس کا ایک گہرائی سے موازانہ کیاجائے تو مختلف محکمہ جات کے اہم عہدوں جن میں ہیڈماسٹر، پرنسپل، ذیڈ ای او، چیف ایجوکیشن افسر، زیڈ آر سی، بی ڈی او، نائب تحصیلدار، تحصیلدار، پٹواری، ایس ایچ او، چوکی انچارج، ڈی سی، اے سی آر، اے سی ڈی، ایس ڈی ایم، ایس ڈی پی او،مختلف محکموں کے ضلع افسران، ڈائریکٹر، اسسٹنٹ ڈائریکٹرز عہدے قابل ذکر ہیں میں بی جے پی نے اپنے بندوںکو ایڈجسٹ کرنے کی حتی المکان کوشش کی ہے جس سے ہندو برادری کے مسائل ومشکلات تیزی سے حل ہورہے ہیں۔ صوبہ جموں کے مسلم حکمرانوں/سیاستدانوں کیلئے یہ لمحہ فکریہ اور سبق ہے ....وہ اس بات کو اچھی طرح سے سمجھ لیں کہ ان کی طاقت، ان کی قوت اور کامیابی کا راز اسی میں مضمر میں ہے کہ وہ سرکاری ونجی سیکٹر کے علاوہ دیگر امور میں میں جتنابھی ممکن ہوسکے ،ملی جذبہ رکھتے ہوئے اپنے طبقہ کے لوگوں کی مدد کریں، انہیں سیاسی سرپرستی کا احساس دلایں ۔ سیاسی سرپرستی حاصل نہ ہونے کی وجہ سے کٹھوعہ، اودہم پور، جموں، سانبہ، ریاسی وصوبہ جموں کے دیگر علاقہ جات جہاں مسلم اقلیت میں ہیں، 1947کے بعد سے آج تک مختلف طریقوں سے خاموش ظلم وستم سہ رہے ہیں ، امتیازی سلوک اور نا انصافیوں کا شکار ہوتے ہوئے بھی چپی سادے ہیں کیونکہ ان کی فریاد سننے والا کوئی بھی نہیں۔ ان کی آوازبننے اور نمائندگی کرنے کا دعویٰ کرنیوالے تو بس قوم کا نام فروخت کر کے اپنا ہی کام نکالتے ہیں۔ مسلم کے نام پر جموں صوبہ کے اندر متعدد تنظیمیں بھی بنیں ہیں جو ملت کی نمائندگی کے بجائے ان کے مفادات کا سودا کرنے اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے زیادہ کام کر رہی ہیں۔جموں وکشمیر کے اندر بھاجپا کے اقتدار میں آنے سے مسلم رہنماؤں/سیاستدانوں کو دعوت فکر کا سنہری موقع ملا ہے کہ وہ اپنے ماضی کی غلطیوں، کوتاہیوں سے سبق سیکھ کر پنچایت، بلاک، تحصیل ، ضلع وصوبائی سطح پر انتظامیہ میں اپنے طبقہ کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی کو یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ سرکاری ونجی تعلیمی وپیشہ وارانہ اداروں، تجارتی ، ادبی، سماجی تنظیموں اور سول سوسائٹی میں مسلم طبقہ کے ان افراد جوکہ مستحق ہیں کی نمائندگی کو یقینی بنائیں اور صحیح معنوں میں ان کی قیادت کریں ۔صرف انتظامی سطح پر ہی نہیں بلکہ سیاسی سطح پر بھی مختلف فورموں میں خود کی نمائندگی او رمضبوطی کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔اگر ایسا نہ کیاگیا تو........نہیں تو تاریخ بھی ہمیں معاف نہیں کرے گی۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 11 Articles with 6542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.