تنازعہ کشمیر اور مسلمانانِ جموں‘
(Altaf Hussain Janjua, Jammu, J&K (India))
’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں‘ نامور صحافی ظفر چوہدری کی تصنیف کردہ کتاب ہے جس میں جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جموں کے مسلمانوں کی سیاسی، سماجی ، اقتصادی، تعلیمی صورتحال،1947سے قبل کی پوزیشن اور اب کی حالت زار کی ٹھوس حقائق، اعداد وشمار اور مثبت دلائل کے ساتھ ترجمانی کی گئی ہے۔ |
|
پی ڈی پی۔ بی جے پی مخلوط حکومت کے رویہ
اور ’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں ‘کے نام سے منظر عام پر آئی کتاب سے
ان دنوں مسلمانانِ جموںریاستی ، ملکی وبین الاقوامی سطح پر مختلف فورموں
میں موضوع بحث ہیں ۔1947میںتقسیم بر صغیر ہند کے بعد پہلی مرتبہ مسلمانان
جموں،جن پر زبردست ظلم وستم ، قہربپا ہوا تھا ، پر کشمیر کی اعلیحدگی پسند
جماعتیں، کشمیر کی سول سوسائٹی ودیگر عوامی حلقوں میں بحث وتمحیص ہورہی ہے۔
’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں‘ نامور صحافی ظفر چوہدری کی تصنیف کردہ
کتاب ہے جس میں جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ جموں کے مسلمانوں کی
سیاسی، سماجی ، اقتصادی، تعلیمی صورتحال،1947سے قبل کی پوزیشن اور اب کی
حالت زار کی ٹھوس حقائق، اعداد وشمار اور مثبت دلائل کے ساتھ ترجمانی کی
گئی ہے۔ مذہبی بنیادوں پر گذشتہ برس ہوئے اسمبلی انتخابات کے بعد علاقائی
جذباتی کی ترجمانی کرنے کے لئے تشکیل پائی پی ڈی پی ۔ بی جے پی سرکار نے
ایک بار پھر ثابت کردیا ہے کہ پہاڑوں کے درمیان یعنی خطہ پیر پنچال اور
وادی چناب میں رہ رہی مسلم آبادی نہ ہی جموں، سرینگر اور نہ ہی نئی دہلی کی
سیاسی ترجیحی ہے ۔جموں وکشمیر کے وسیع سیاسی منظرنامہ اور رعلاقائی سیاست
میں خطہ جموں کے مسلمانوں کا اخراج دہائیوں پر محیط ایک سیاہ کہانی ہے
۔سیاسی بحث وتمحیص، سرکاری پالیسیوں، تحقیقی کاموں بشمول کتابیں، سیاسی بیک
گراؤنڈ، شناخت میں خطہ جموں کے مسلمانوں کو کبھی بھی ترجیحی نہیں ملی۔ پہلی
مرتبہ مسلمانان جموں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے انہیں سیاسی ، انتظامی اور
دانشور طبقہ میں ظفر چوہدری نے ’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں ‘نامی کتاب
سے موضوع بحث بنایا ہے۔ اس میں 1980جب پہلی مرتبہ جموں میں مسلمانوں کی
تنظیم بنی تھی سے 120سالہ دور کے اہم واقعات کا خلاصہ کیا ہے۔موجودہ مخلوط
سرکار کی طرف سے جموں میں چند مخصوص علاقہ جات ، جہاں زیادہ ترمسلم طبقہ کے
لوگ آباد ہیں،سے جنگلات اراضی سے ناجائز قبضہ ہٹانے کے نام پر شروع کی گئی
مہم اور کٹھوعہ، سانبہ وجموں اضلاع میں سول وپولیس انتظامیہ کے اعلیٰ عہدوں
سے مسلم افسران کوہٹانے کے بعد ریاست بھر میں مچی ہلچل کے بیچ منظر عام پر
آئی اس کتاب کو قارئین نے ہاتھوں ہاتھ لیا ہے جس پر ریاستی، ملکی وغیرملکی
سطح پر کے اخبارات میں نامور تجزیہ نگاروں نے تجزیئے بھی تحریر کئے ہیں۔اس
کتاب کی رسم رونمائی گذشتہ ماہ کشمیر میں رائزنگ کشمیر پبلی کیشن کے بینر
تلے منعقدہ ایک پروقار تقریب میں انجام دی گئی تھی جس میں سول سوسائٹی کے
ممبران نے جموں کے مسلمانوںکو زیادہ اہمیت نہ دینے اور مسئلہ کشمیر میں
انہیں حقدار نہ تصور نہ کرنے پر معافی بھی مانگی جس سے تقریب میں موجود
بیشتر معززین نے اکتفا بھی کیا۔ ’تنازہ کشمیر اور مسلمانان جموں‘میں
....جموں ، کشمیر، لداخ اور گلگت بلتستان جوکہ جغرافیائی، موسمی اور تہذیبی
لحاظ سے بالکل مختلف ہیں ، کا مصنوعی اتحاد، 1901،1947اور 1961میں جموں
صوبہ کے اندر مسلمانوں کی تعداد، 1947کے وقت ہوئے قتل وغارت میں مارے گئے
مسلمانانِ جموں کی تعداد، 1965میں بھارت پاکستان جنگ میں راجوری اور پونچھ
کا بڑا علاقہ پاکستان کی طرف چلے جانے، صوبہ جموں کے اندر مسلمانوں کی
مجموعی شرح، سیاسی،سماجی، اقتصادی، تعلیمی صورتحال، سول وپولیس انتظامیہ کے
اعلیٰ عہدوں پر نمائندگی، سیاسی نمائندگی، مختلف عوامی وتجارتی نوعیت کے
فورموں میں مسلمانوں کی نمائندگی ،1965جنگ کے بعد مسلمانوں پر کیا گذری
وغیرہ کا تفصیلی ذکر کیاگیاہے۔ یہ ایسی پہلی کتاب میں جس میں اس بات کا
سنسنی خیز خلاصہ کیاگیاہے کہ 1947کے وقت ہندو پاکستان کے درمیان اصل مدعا
جموں کے مستقبل کا فیصلہ تھا ،1965تک بھی یہی رہا لیکن 90کی دہائی کے بعد
یہ تحریک کشمیر منتقل ہوگئی اور اس کو وہیں تک مرکوزیت دی گئی ۔ایسا تاثر
دینے کی کوشش کی گئی کہ جموں کے مسلمان اس کا حصہ نہیں۔ وادی نشین حریت اور
اعلیحدگی پسند تنظیموں کی طرف سے جموں کے مسلمانوں کو نذر انداز کرنا، ان
کے تئیں رویہ رکھے جارہے سلوک وغیرہ کا بھی ذکر ملتا ہے۔ کتاب کے مصنف ظفر
چوہدری نے اس ’تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں‘ کو تحریر کرنے کے اغراض
ومقاصد بتاتے ہوئے کہاکہ مسئلہ کشمیر کے حوالہ سے کہیں بھی کوئی بحث وتمحیص
ہوتی ہے تو اس میں وادی کشمیر کو ہی مرکوزیت حاصل رہی ہے جبکہ علاقائی سطح
پر جموں کو ہندو اکثریتی نقطہ نگاہ سے دیکھاجاتا ہے اور جموں کے مسلمانوں
کی کہیں بات نہیں ہوتی۔ موجودہ وقت میں جموں صوبہ میں مسلمانوں کی مجموعی
آبادی 31فیصد جبکہ اور ریاست کی آبادی کا 13.4فیصد حصہ ہیں جبکہ ریاستی سطح
پر مسلمانوں کی آبادی کا جموں کے مسلمان 20فیصد حصہ ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ
گلگت بلتستان سمیت پاکستانی زیر انتظام کشمیر کا 70فیصد علاقہ 1947سے قبل
کے صوبہ جموں کا حصہ ہے اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں رہ رہی 56فیصد
آبادی کا تعلق صوبہ جموں سے ہے۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے صوبہ جموں
میں400,000مسلم آبادی کا پرآشوب حالات کے دوران نقصان ہوا لیکن صوبہ جموں
کے مسلمانوں کے بارے میں اتنازیادہ نہیں لکھاگیا۔ لہٰذا یہ کتاب اس تاریخی
خلاءکو پور کرنے کے لئے ہے اور اس میں صوبہ جموں کے مسلمانوں کے تاریخی درد
کا ذکر ہے۔ اس کتاب میں اس بات کا ذکر کیاگیا ہے کہ 1947سے لیکر1965تک یعنی
18سالہ طویل عرصہ کے دوران جموں کے مسلمان بغیر سیاسی قیادت کے جدوجہد کرتے
رہے کیونکہ کشمیریوں کے رہنما شیخ محمد عبداللہ 1947سے قبل کی وجوہات کی
وجہ سے انہیں اپنا تصور نہیں کرتے تھے اور نہ ہی انہوں نے کوئی توجہ دی۔
ظفر چوہدری کہتے ہیں کہ ان کا ماننا ہے کہ تقسیم کے وقت جموں میں 2.3لاکھ
سے زائد مسلمان مارے گئے لیکن المیہ یہ ہے کہ 1947کوجموں میں ہوئے انسانی
نقصان کی کوئی ٹھوس اعدادوشمار موجود نہیں لیکن وہ یہ دعوے سے کہہ سکتے ہیں
کہ کتاب میں جو انہوں نے 2لاکھ 37ہزار ہلاکتوں کے اعدادوشمار پیش کئے ہیں
وہ کم وپیش اصل اعدادوشمار کے بالکل قریب ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے
انہوں نے گہری تحقیق ، پاکستان اور درجنوں مغربی مصنفین کی کتابوں میں دیئے
گئے اعدادوشمار ، 1941اور 1961کے ضلع وار مرد م شماری اعدادوشمار کا موازنہ
کر کے اس کتاب میں یہ اعدادوشمار پیش کئے ہیں۔ اس سے پتہ چلا کہ 1950میں
صوبہ جموں کے اندر 400,000مسلمان کم تھے، ان میں سے تقریباً200,000لاکھ کے
قریب پاکستان نقل مکانی کر کے چلے گئے اور 2.3لاکھ کے قریب مارے گئے۔
تنازعہ کشمیر اور مسلمانان جموں ‘ کتاب جموں کے مسلمانوں کی تاریخ،
جغرافیہ، سماجیات، سیاست، اقتصادیات ، نفسیات اور احساسات کا عظیم شاہکار
ہے۔ اس کتاب میں مع دیپاچہ اور4ضمیمہ جات کے 10باب ہیں جس میں سفاشات بھی
کی گئی ہیں۔ اس کتاب میں جموں کے مسلمانوں کے سیکولر کردار اور اکثریتی
طبقہ کی ان کے تئیں منفی سوچ، سیاسی سرپرستی سے محرومی، اقتصادی وتعلیمی
پسماندگی کاتفصیلی ذکر ملتا ہے۔ اس کتاب سے 6دہائیوں کے طویل عرصہ تک نظر
انداز مسلمانان جموں کی طرف سے دی گئی قربانیوں کو احساس کشمیر اور ملکی
وغیر ملکی سطح پر لوگوں کو ہونے لگا ہے۔ 1947سے قبل کے جموں کے مسلمان باب
میں اس بات کا تفصیلی ذکر کیاگیاہے کہ 1947سے قبل جموں صوبہ میں مسلمانوں
کے ڈوگرہ حکمرانوں ودیگر طبقہ جات اور کشمیریوں کے ساتھ کیا تعلقات تھے۔ |
|