کشمیری اپنے حق خودارادیت کی جنگ لڑ رہے
ہیں اور مسلسل قربانیوں کی تاریخ رقم کر رہے ہیں ان کی کئی نسلیں اپنی
جانیں قربان کر چکی ہیں لیکن آزادی حاصل کرنے کی خواہش نہیں مری اور یہ
خواہش مر بھی نہیں سکتی کیونکہ یہ انسانی فطرت نہیں کہ غلامی کی زنجیروں
میں جکڑا رہے اور خوش رہے ،راضی رہے ،چپ کرکے بیٹھ جائے اور اپنے دشمن کو
یہ اجازت دے کہ وہ اس کی قسمت کا مالک بنا بیٹھا رہے چونکہ یہ ممکن نہیں
اسی لیے کشمیری اگر کچھ عرصے خاموش ہو بھی جاتے ہیں تو اس کا یہ مطلب ہر گز
نہیں ہوتا کہ انہوں نے سمجھوتہ کر لیا ہے یا وہ وادی میں موجود پانچ لاکھ
بھارتی فوج سے ڈر گئے ہیں بلکہ کشمیری ایک دفعہ پھر اٹھ جاتے ہیں اور اپنے
زندہ ہونے کا بھر پور ثبوت دے دیتے ہیں اس بار بھی ایسا ہی ہوا ہے ۔برہان
وانی ان کا نوجوان لیڈر تھا اور اس کی شہادت کا بدلہ لینے کے لیے وہ سڑکوں
پر نکل آئے ہیں۔ یہ نوجوان کشمیر کے جہاد میں نہ صرف عملاََ شامل تھا بلکہ
سوشل میڈیا کے ذریعے بھی کشمیر کی آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا اور اپنے جیسے
دوسرے کشمیری نوجوانوں کو بھی آزادی کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دیتا
تھا اور یوں اس تحریک میں تعلیم یافتہ گھروں کے نوجوان بھی عملاََ شامل
ہونے لگے۔ وانی کی شہادت پر احتجاج کرنے والے کشمیریوں کے ساتھ بھارت نے جو
سلوک کیا وہ ساری دنیا کے سامنے آیا لیکن پھر بھارت نے میڈیا پر جو
پابندیاں لگائیں وہ بھی بھارت کا چہرہ دنیا سے چھپانہ سکی اور یہ بدنما
چہرہ سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آتا رہا۔ خود برہان وانی شہید بھی اسی
ذریعے کو جہاد کشمیر میں ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا لہٰذا
بھارت نے کشمیر یوں کی آواز کا گلا یہاں بھی گھونٹے کی کوشش کی اور فیس بک
اور سوشل میڈیا کے دوسرے ذرائع پر بھی پابندی لگا دی یہاں تک کہ موبائل فون
کے ذریعے بھی سوشل میڈیا تک پہنچ نا ممکن بنا دی لیکن یہ سب کرتے ہوے وہ یہ
بھول جاتا ہے کہ کشمیریوں کی تکلیف اور جدوجہد ان کی اپنی ہے اور اسے جتنا
دبایا جائے گا اُتنا ہی وہ زیادہ زور سے اُبھریں گے اور یہی ہوا کشمیری ان
پابندیوں کے خلاف دوبارہ ایک بار پھر سڑکوں پر نکل کھڑے ہوئے بھارت نے پھر
طاقت کا استعمال کیا لیکن قدرت کے قانون کے مطابق پھر اُتنا ہی سخت احتجاج
ہوا۔ بھارت کشمیر میں ہر حربہ آزمارہا ہے اور ایسا آج سے نہیں پچھلے اَڑسٹھ
سال سے مسلسل ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے کاغذوں میں نہ سہی زمینی حقیقت یہ
ہے کہ کشمیر کا مسئلہ زندہ ہے چاہے بین الاقوامی برادری کی مدد حاصل ہو یا
نہ ہو دراصل بدقسمتی یہ ہے کہ بڑی طاقتوں کے بہت سارے مفادات بھارت سے
وابستہ ہیں وہ اپنی ایک بہت بڑی منڈی نہیں کھونا چاہتے اور وہ اپنے انہی
تجارتی مفادات کی خاطر بھارت کی پشت پر جا کھڑے ہوتے ہیں اس کے مظالم پر
خاموشی اختیار کر لیتے ہیں دوسری طرف ہم پاکستانی ہیں ،وہی پاکستانی جن کے
پرچم ہاتھوں میں پکڑ کر کشمیری گولی کھانے کی ہمت پیدا کرتا ہے اور اپنی
آزادی کی خاطر اور پاکستان کے ساتھ ایک ہونے کی خواہش میں جان قربان کر
دیتا ہے لیکن اُس وقت بھی ہم پاکستانی کسی بھارتی ڈرامے یا فلم کی کہانی
میں گم ہوتے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کے فیس بک، ٹویٹر اور دوسرے ذرائع بند کر
دیتا ہے لیکن ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا عام پاکستانی ایسا چاہے بھی تو
ہماری حکومت خود میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں پیدا کرتی ہاں زبانی کلامی دعوے
خوب کیے جاتے ہیں کہ ہم کشمیریوں کی’’ اخلاقی مدد ‘‘کر رہے ہیں اقوام متحدہ
کو بھی خطوط لکھے جا رہے ہیں اور بین الاقوامی برادری کو بھی ،دوسروں سے
مدد مانگی جا رہی ہے کشمیریوں کے چھروں سے چھلنی چہرے اور جسم دکھائے جا
رہے ہیں اور انہیں احساس دلانے کی کوشش کی جار ہی ہے لیکن ہمارا اپنا کردار
یہ ہے کہ آگے پیچھے تو چھوڑیے ان دنوں میں بھی جب کشمیر میں بھارت نے مظالم
کی انتہا کردی ہے ہمارے ہاں نہ تو بھارت کی مصنوعات پر پابندی لگی نہ اُن
کی ویب سائٹس پر نہ فیس بک پر نہ اُن کے اشتہارات پر نہ اُن کی فلموں پر
کسی چیز پر پابندی نہیں لگی تو کیا یہی’’ اخلاقی مدد ‘‘ہے وزیراعظم کے
خارجہ امور کے مشیر جناب طارق فاطمی صاحب نے معلوم نہیں کن حقائق کو مدنظر
رکھ کر کہا کہ وزیراعظم نواز شریف کے رویے سے ہندوستان کو تکلیف پہنچ رہی
ہے کہ ہم نے دنیا کو بھارت کے مظالم سے آگاہ کر دیا ہے تو سوال یہ ہے کہ ہم
خود تو اِن تمام مظالم سے آگاہ ہیں تو ہم نے کیا کیا ۔ہماری تو کشمیر کمیٹی
کے صدر جناب مولانا فضل الر حمٰن کافی دنوں بعد نظر آئے اور انوکھا ارشاد
فرمایا ’’ ہم شہروں میں نہیں رہتے کہ فوراََ پہنچ سکیں‘‘ معلوم نہیں وہ کون
سے ایسے دور دراز گاؤں یا کوہ ہمالیہ کی کسی چوٹی پر رہتے ہیں جہاں انہیں
معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ بھارت کشمیر میں کچھ کر رہا ہے۔ ہماری حکومت کا
عجیب و غریب رویہ اور توجیہات اس کی نیت کی غماز ہیں وہ اپنے ذاتی اور
تجارتی معاملات پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہاں یہ سمجھوتہ وہ
پاکستان کی شہ رگ کشمیر پر کر رہی ہے۔ صرف اسی حکومت پر کیا موقوف ہماری
اگلی پچھلی تمام حکومتوں کا موقف بھی قوم کے سامنے تو کچھ اور ہوتا ہے اور
اصل میں کچھ اور وہ بظاہر تو بھارت کی مخالفت کے نعرے لگاتے ہیں لیکن
اندرونِ خانہ وہ اس کے لیے خلوص نیت کے ساتھ کوشش نہیں کرتے ۔مجھے ایک عام
پاکستانی کی طرح اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ وہ کشمیر سے زیادہ بھارت میں
دلچسپی رکھتے ہیں ورنہ وہ یوں اُ س کی تجارت کا دم نہ بھرتے اوراس کی فلموں
کو چلا کر یوں ان کی کمائی میں اضافہ نہ کرتے ۔جب 2006 میں بھارت کی فلموں
کو پاکستان میں نمائش کی اجازت دی گئی تو دراصل اُن کے نظریات، اُن کی
ثقافت، اُن کے لباس اور اُن کے رسوم و رواج کو پاکستان میں پنپنے کی اجازت
دی گئی اگر یہی محنت کشمیر کے لیے کی جاتی اور بھارت کو بتا دیا جاتا کہ یہ
سب کچھ ہوگا لیکن کشمیر کے مسئلے کے حل کے بعد تو کیا اچھا ہوتا۔
گھوم پھر کر بات وہی آجاتی ہے کہ ہمارا موقف کشمیر پر اتنا مضبوط ہوتا کہ
ہم عملی اقدامات کرتے دنیا سے اس کے حل کی بھیک نہ مانگتے اس سے اِقدامات
کی درخواست نہ کرتے بلکہ خود کرتے تو شاید دنیا اسے زیادہ سنجیدگی سے لیتی
۔ میں یہ خط دوسرے ممالک کو نہیں حکومت پاکستان کو لکھ رہی ہوں کہ کشمیر پر
سنجیدگی اور مضبوط موقف اپنائیں تو دنیا خود بخود کشمیر اور اس پر پاکستان
کے موقف کی طرف متوجہ ہوگی اور حکومت یہ بھی یاد رکھے کہ کشمیر پاکستان کی
شہہ رگ ہے۔ |