کشمیری بھی ہمارے ہیں
(Shams Tabrez Qasmi, India)
اس وقت دو معاملات سیاسی و سماجی سطح پر
کافی گرم ہیں۔ ایک اتر پردیش سے تعلق رکھتا ہے دوسرا گجرات سے۔ لیکن دونوں
دلت سیاست کا حصہ ہیں۔ پہلا معاملہ بی جے پی لیڈر اور اترپردیش بی جے پی کے
برطرف شدہ نائب صدر دیا شنکر سنگھ کا اترپردیش کی سابق وزیر اعلیٰ اور بی
ایس پی لیڈر مایاوتی کو گالی دینا اور دوسرا ہے گجرات میں اونا کے موٹا
سمدھیالہ گاؤں میں دلت نوجوانوں کو گؤ کشی کے الزام میں زدوکوب کرنا۔ گجرات
کا معاملہ پہلے پیش آیا۔ وہ پارلیمنٹ میں بھی اٹھا اور پارلیمنٹ کے باہر
بھی۔ ابھی وہ ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ دیا شنکر سنگھ نے اپنی بدزبانی کا
مظاہرہ کرکے اس آگ پر گھی ڈال دیا۔ پھر کیا تھا۔ گجرات کا معاملہ اور بھڑک
گیا اور دیا شنکر کو اپنے کیے بلکہ کہے کی سزا بھگتنی پڑی۔ پہلے تو بی جے
پی لیڈر اور مرکزی وزیر ارون جیٹلی نے اس بیان پر اظہار افسوس کیا اور
معافی مانگی۔ دیا شنکر کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہوا اور انھوں نے بھی
مایاوتی سے معذرت چاہی۔ لیکن یہ معاملہ اتنا معمولی نہیں تھا کہ محض معذرت
پر ختم ہو جاتا۔ لہٰذا بی ایس پی کی جانب سے زبردست احتجاج کیا گیا اور بی
جے پی کو پہلے دیا شنکر کو ان کے عہدے سے ہٹانا پڑا اور پھر پارٹی سے ہی
نکال دینا پڑا۔ لیکن مایاوتی بجا طور پر اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایس سی ایس
ٹی کمیشن میں شکایت کی جا رہی ہے اور ان کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے۔
ان کے خلاف ایف آئی آر پہلے ہی درج کی جا چکی ہے۔ اتر پردیش کی پولیس ان کو
تلاش کر رہی ہے۔ممکن ہے کہ جس و سے ہی نکال دینا پڑا۔ لیکن مایاوتی بجا طور
پر اس سے مطمئن نہیں ہیں۔ ایس سی ایس ٹی کمیشن میں شکایت کی جا رہی ہے اور
ان کی گرفتاری کا مطالبہ ہو رہا ہے۔ ان کے خلاف ایف آئی آر پہلے ہی درج کی
جا چکی ہے۔ اتر پردیش کی پولیس ان کو تلاش کر رہی ہے۔ممکن ہے کہ جس وقت آپ
یہ کالم پڑھ رہے ہوں انھیں گرفتار کیا جا چکا ہو۔
اب آئیے گجرات کے معاملے پر۔ جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور گائے
کی سیاست نے مرکزی حیثیت اختیار کی ہے، گایوں کے تحفظ کے نام پر نام نہاد
گؤ رکشک کمیٹیاں بن گئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں در اصل گؤ کشی کی مخالفت کے نام پر
مخالفین اور خاص طور پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے کے لیے قائم کی
گئی ہیں۔ اونا کے دلتوں پر گؤ رکشک کمیٹی کے ارکان نے الزام لگایا کہ انھوں
نے گائے ذبح کی ہے اور اس کے بعد ان پر مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیوز
چینلوں پر ایک ویڈیو دکھایا گیا جس میں چار نوجوانوں کو جو کہ صرف پینٹ
پہنے ہوئے ہیں، ان کا اوپری جسم عریاں ہے، رسی سے باندھ کر ایک کار سے
باندھ دیا گیا ہے اور گؤ رکشک کمیٹی کے ممبران باری باری ان کی پٹائی کرتے
ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو مارنے والوں میں سے ہی کسی نے
یہ ویڈیو ریکارڈ کیا اور فخریہ طور اور بہادری دکھانے کے لیے اسے سوشل
میڈیا پر اپلوڈ کر دیا۔ اس ویڈیو کا سامنے آنا تھا کہ ہنگامہ ہو گیا اور
پارلیمنٹ میں ایسا طوفان اٹھا کہ کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ یک نہ شد دو شد
کے مصداق ایک طرف گجرات کا معاملہ اور دوسری طرف مایاوتی کا معاملہ، ہنگامہ
حسب توقع ہوا۔ جن دلت نوجوانوں کی پٹائی کی گئی ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے
گؤکشی نہیں کی ہے بلکہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ یہ کام
وہ صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ لوگ گائے
ذبح کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ
جب تک ان کو انصاف نہیں مل جاتا وہ یہ کام نہیں کریں گے۔ یعنی گائے مرتی ہے
تو مرے وہ اس کی کھال نہیں اتاریں گے۔ دلتوں کی جانب سے کئی روز تک احتجاجی
مظاہرہ کیا گیا جس میں سرکاری و نجی املاک کو ›ت آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں
انھیں گرفتار کیا جا چکا ہو۔
اب آئیے گجرات کے معاملے پر۔ جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے اور گائے
کی سیاست نے مرکزی حیثیت اختیار کی ہے، گایوں کے تحفظ کے نام پر نام نہاد
گؤ رکشک کمیٹیاں بن گئی ہیں۔ یہ کمیٹیاں در اصل گؤ کشی کی مخالفت کے نام پر
مخالفین اور خاص طور پر مسلمانوں اور دلتوں کو نشانہ بنانے کے لیے قائم کی
گئی ہیں۔ اونا کے دلتوں پر گؤ رکشک کمیٹی کے ارکان نے الزام لگایا کہ انھوں
نے گائے ذبح کی ہے اور اس کے بعد ان پر مظالم کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیوز
چینلوں پر ایک ویڈیو دکھایا گیا جس میں چار نوجوانوں کو جو کہ صرف پینٹ
پہنے ہوئے ہیں، ان کا اوپری جسم عریاں ہے، رسی سے باندھ کر ایک کار سے
باندھ دیا گیا ہے اور گؤ رکشک کمیٹی کے ممبران باری باری ان کی پٹائی کرتے
ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان نوجوانوں کو مارنے والوں میں سے ہی کسی نے
یہ ویڈیو ریکارڈ کیا اور فخریہ طور اور بہادری دکھانے کے لیے اسے سوشل
میڈیا پر اپلوڈ کر دیا۔ اس ویڈیو کا سامنے آنا تھا کہ ہنگامہ ہو گیا اور
پارلیمنٹ میں ایسا طوفان اٹھا کہ کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔ یک نہ شد دو شد
کے مصداق ایک طرف گجرات کا معاملہ اور دوسری طرف مایاوتی کا معاملہ، ہنگامہ
حسب توقع ہوا۔ جن دلت نوجوانوں کی پٹائی کی گئی ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے
گؤکشی نہیں کی ہے بلکہ وہ ایک مری ہوئی گائے کی کھال اتار رہے تھے۔ یہ کام
وہ صدیوں سے کرتے آئے ہیں۔ ان کے اہل خانہ کا بھی کہنا ہے کہ وہ لوگ گائے
ذبح کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے۔ لیکن اب انھوں نے اعلان کیا ہے کہ
جب تک ان کو انصاف نہیں مل جاتا وہ یہ کام نہیں کریں گے۔ یعنی گائے مرتی ہے
تو مرے وہ اس کی کھال نہیں اتاریں گے۔ دلتوں کی جانب سے کئی روز تک احتجاجی
مظاہرہ کیا گیا جس میں سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچا۔ اس زیادتی کے
خلاف بطور احتجاج اب تک ۲۲دلت نوجوان خودکشی کی کوشش کر چکے ہیں جن میں سے
ایک دلت کی موت واقع ہو چکی ہے۔ گجرات کی وزیر اعلی آنندی بین پٹیل نے
متاثرہ افراد سے ملاقات کی ہے اور ان کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی ہے۔
جیسا کہ کہا گیا ہے گؤ رکشک کمیٹیاں در اصل غنڈوں کی کمیٹیاں ہیں جو گائے
کے تحفظ کے نام پر غنڈہ گردی کرتی ہیں اور مخالفین کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس
کی شہادت گجرات کے چیف سکریٹری جی آر الوریا نے بھی دی ہے۔ انھوں نے اس
واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گایوں کے تحفظ کے نام پر غنڈہنقصان پہنچا۔
اس زیادتی کے خلاف بطور احتجاج اب تک ۲۲دلت نوجوان خودکشی کی کوشش کر چکے
ہیں جن میں سے ایک دلت کی موت واقع ہو چکی ہے۔ گجرات کی وزیر اعلی آنندی
بین پٹیل نے متاثرہ افراد سے ملاقات کی ہے اور ان کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کی
کوشش کی ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے گؤ رکشک کمیٹیاں در اصل غنڈوں کی کمیٹیاں
ہیں جو گائے کے تحفظ کے نام پر غنڈہ گردی کرتی ہیں اور مخالفین کو نشانہ
بناتی ہیں۔ اس کی شہادت گجرات کے چیف سکریٹری جی آر الوریا نے بھی دی ہے۔
انھوں نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گایوں کے تحفظ کے نام پر غنڈہ
گردی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعہ میں جس کار کا استعمال کیا
گیا اس پر شیو سینا کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ متاثرین نے موٹا سمدھیالہ گاؤں کے
سرپنچ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ انھیں ایک زمین الاٹ کی گئی
تھی جس پر ایک مشترکہ کنواں تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ان لوگوں نے اس کی
مخالفت کی اور گؤ کشی کے الزام میں انھیں زد و کوب کیا گیا۔ پولیس اس
معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور اب تک کئی لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
گایوں کے نام نہاد تحفظ کے نام پر بے قصور افراد کو نشانہ بنانے کا واقعہ
پہلی بار نہیں ہو گردی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس واقعہ میں جس
کار کا استعمال کیا گیا اس پر شیو سینا کا بورڈ لگا ہوا تھا۔ متاثرین نے
موٹا سمدھیالہ گاؤں کے سرپنچ کو مورد الزام ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ انھیں
ایک زمین الاٹ کی گئی تھی جس پر ایک مشترکہ کنواں تعمیر کیا جا رہا تھا۔ ان
لوگوں نے اس کی مخالفت کی اور گؤ کشی کے الزام میں انھیں زد و کوب کیا گیا۔
پولیس اس معاملے کی جانچ کر رہی ہے اور اب تک کئی لوگوں کو گرفتار کیا جا
چکا ہے۔
گایوں کے نام نہاد تحفظ کے نام پر بے قصور افراد کو نشانہ بنانے کا واقعہ
پہلی بار نہیں ہوا ہے۔ دادری میں اخلاق کی ہلاکت کے واقعہ کے بعد ہندووں کے
ایک طبقے کی جانب سے یہ دکھانے کے لیے کہ وہ گائے کا اپمان برداشت نہیں کر
سکتے، گایوں کے تحفظ کے نام پر کمیٹیاں بنائی جانے لگیں۔ ان کمیٹیوں سے
وابستہ افراد نے اس پر نظر رکھنی شروع کر دی کہ کون جانور لا ہے۔ دادری میں
اخلاق کی ہلاکت کے واقعہ کے بعد ہندووں کے ایک طبقے کی جانب سے یہ دکھانے
کے لیے کہ وہ گائے کا اپمان برداشت نہیں کر سکتے، گایوں کے تحفظ کے نام پر
کمیٹیاں بنائی جانے لگیں۔ ان کمیٹیوں سے وابستہ افراد نے اس پر نظر رکھنی
شروع کر دی کہ کون جانور لے جا رہا ہے اور کون انھیں ذبح کر رہا ہے۔ جو
کوئی بھی کسی گاڑی پر جانور، کھال یا گوشت کہیں لے جاتا ہوا پایا گیا تو
اسے زدوکوب کیا جانے لگا۔ یہاں تک کہ ان واقعات میں کئی مسلمان ہلاک بھی
ہوئے۔ گائے حامیوں کے ہاتھوں ایک دو ہندو بھی لاعلمی میں مار دیے گئے۔ ایسے
ے جا رہا ہے اور کون انھیں ذبح کر رہا ہے۔ جو کوئی بھی کسی گاڑی پر جانور،
کھال یا گوشت کہیں لے جاتا ہوا پایا گیا تو اسے زدوکوب کیا جانے لگا۔ یہاں
تک کہ ان واقعات میں کئی مسلمان ہلاک بھی ہوئے۔ گائے حامیوں کے ہاتھوں ایک
دو ہندو بھی لاعلمی میں مار دیے گئے۔ ایسے واقعات اترپردیش اور ہریانہ میں
خوب ہوئے۔ ایسے معاملات میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی کہ
گوشت اور کھال کس جانور کی ہے اور جانور کس مقصد سے لے جائے جا رہے ہیں۔ بس
یہ مان لیا گیا کہ چمڑا اور گوشت گائے کا ہے اور جانور ذبح کرنے کے لیے لے
جائے جا رہواقعات اترپردیش اور ہریانہ میں خوب ہوئے۔ ایسے معاملات میں یہ
معلوم کرنے کی کوشش کبھی نہیں کی گئی کہ گوشت اور کھال کس جانور کی ہے اور
جانور کس مقصد سے لے جائے جا رہے ہیں۔ بس یہ مان لیا گیا کہ چمڑا اور گوشت
گائے کا ہے اور جانور ذبح کرنے کے لیے لے جائے جا رہے ہیں۔ ابھی اس واقعہ
کو لوگ بھولے نہیں ہوں گے جس میں گوشت لے جانے والے دو مسلمانوں کو گؤ
رکشکوں نے گوبر کھانے اور گائے کا پیشاب پینے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن ان
واقعات پر جن میں مسلمانوں کو مارا پیٹا گیا اور انھیں ہلاک تک کیا گیا وہ
ہنگامہ نہیں ہوا جو مذکورہے ہیں۔ ابھی اس واقعہ کو لوگ بھولے نہیں ہوں گے
جس میں گوشت لے جانے والے دو مسلمانوں کو گؤ رکشکوں نے گوبر کھانے اور گائے
کا پیشاب پینے پر مجبور کیا تھا۔ لیکن ان واقعات پر جن میں مسلمانوں کو
مارا پیٹا گیا اور انھیں ہلاک تک کیا گیا وہ ہنگامہ نہیں ہوا جو مذکورہ
واقعہ پر ہو رہا ہے۔ وہ کارروائی بھی نہیں ہوئی جو اب ہو رہی ہے۔ اگر اس
معاملے میں دلتوں کے بجائے کوئی اور نشانہ بنا ہوتا تو یہ کارروائی نہیں
ہوتی۔ اسی طرح مایاوتی کو گالی دینے کے معاملے میں بھی جو کارروائی ہوئی ہے
وہ پہلی بار دیکھنے کو ملی ہے۔ کیا بی جے پ واقعہ پر ہو رہا ہے۔ وہ
کارروائی بھی نہیں ہوئی جو اب ہو رہی ہے۔ اگر اس معاملے میں دلتوں کے بجائے
کوئی اور نشانہ بنا ہوتا تو یہ کارروائی نہیں ہوتی۔ اسی طرح مایاوتی کو
گالی دینے کے معاملے میں بھی جو کارروائی ہوئی ہے وہ پہلی بار دیکھنے کو
ملی ہے۔ کیا بی جے پیی اور حکومت کے لوگ اتنے انصاف پسند اور قانون کے
رکھوالے ہو گئے ہیں کہ وہ ان واقعات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ نہیں یہ
بات نہیں ہے۔ بات صرف اور صرف دلت ووٹ بینک کی ہے۔ ورنہ گائے کے تحفظ کے
نام پر جانے کتنے لوگوں کو مار دیا گیا مگر کچھ نہیں ہوا۔ اور گالیاں د اور
حکومت کے لوگ اتنے انصاف پسند اور قانون کے رکھوالے ہو گئے ہیں کہ وہ ان
واقعات کو برداشت ہی نہیں کر سکتے۔ نہیں یہ بات نہیں ہے۔ بات صرف اور صرف
دلت ووٹ بینک کی ہے۔ ورنہ گائے کے تحفظ کے نام پر جانے کتنے لوگوں کو مار
دیا گیا مگر کچھ نہیں ہوا۔ اور گالیاں دیینا تو بی جے پی کے بعض لیڈروں کا
محبوب مشغلہ ہے۔ کیا آج تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ کارروائی تو
دور کی بات ہے کسی کے بیان پر کسی بھاجپائی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
کوئی کسی کا سر قلم کرنے پر پچاس لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کرتا
ہے۔ کوئی مخنا تو بی جے پی کے بعض لیڈروں کا محبوب مشغلہ ہے۔ کیا آج تک کسی
کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی۔ کارروائی تو دور کی بات ہے کسی کے بیان پر کسی
بھاجپائی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ کوئی کسی کا سر قلم کرنے پر پچاس
لاکھ روپے کا انعام دینے کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی مخالفین کو حرامزادہ کہتا
ہے۔ کوئی قوم پرستی کے نام پر دوسروں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتا ہے تو
کوئی مسلمانوں کو مغلظات سے نوازتا ہے۔ در اصل معاملہ یہ ہے کہ اگلے سال
اترپردیش اور گجرات میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کو یہ خوف
ستا رہا ہے کہ جس طرالفین کو حرامزادہ کہتا ہے۔ کوئی قوم پرستی کے نام پر
دوسروں کو پاکستان بھیجنے کی بات کرتا ہے تو کوئی مسلمانوں کو مغلظات سے
نوازتا ہے۔ در اصل معاملہ یہ ہے کہ اگلے سال اترپردیش اور گجرات میں اسمبلی
انتخابات ہونے والے ہیں۔ بی جے پی کو یہ خوف ستا رہا ہے کہ جس طرح دلت
تحریک شروع ہوئی ہے وہ کہیں اس کے لیے سیاسی موت کا پیغام نہ بن جائے۔ اسی
لیے گجرات میں بھی کارروائی ہو رہی ہے اور دیا شنکر کو بھی پارٹی سے برطرف
کیا گیا۔ جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو انھیں کوئی کوئی کچھ بھی کہے،
کتنی ہی گالیاں دے، کتنا ہی برا بھلح دلت تحریک شروع ہوئی ہے وہ کہیں اس کے
لیے سیاسی موت کا پیغام نہ بن جائے۔ اسی لیے گجرات میں بھی کارروائی ہو رہی
ہے اور دیا شنکر کو بھی پارٹی سے برطرف کیا گیا۔ جہاں تک مسلمانوں کا
معاملہ ہے تو انھیں کوئی کوئی کچھ بھی کہے، کتنی ہی گالیاں دے، کتنا ہی برا
بھلاا کہے، کوئی کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کیونکہ اب مسلمانوں کے
ووٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بی جے پی نے اسے غیر اہم بنا دیا ہے۔ اسے یوں
بھی مسلمانوں کے ووٹ نہیں چاہیے۔ اسے معلوم ہے کہ مسلمان اسے ووٹ نہیں دیں
گے۔ یہاں ٹھہر کر مسلمانوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ وہ دلتوں سے بھی بدتر کیوں
ہو گئے ہیں۔ معاشرے میں ان کا کوئی مقام اور کوئی مرتبہ کیوں نہیں رہ گیا
ہے۔ انھیں خوداحتسابی کی ضرورت ہے۔ |
|